آئیے، ان کی قربانیوں، جدوجہد اور بے آواز کامیابیوں کو زندہ کریں" />

خراجِ تحسین اُنہی کو جنہیں بھلا دیا گیا

پاکستان، ایک ایسا وطن جہاں بے پناہ صلاحیتیں جنم لیتی ہیں، مگر بدقسمتی سے اکثر وہی چہرے روشنی میں آتے ہیں جو کرکٹ جیسے مقبول کھیل سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ہم نے بطور قوم دیگر کھیلوں کے ان عظیم ہیروز کو نظرانداز کیا، جنہوں نے خاموشی سے ملک کا نام روشن کیا، جھنڈا بلند کیا، مگر بدلے میں صرف گمنامی، تنہائی اور نظام کی ناقدری پائی۔

میں نے یہ سلسلہ "گمنام ہیرو – وہ جو قوم کے اصل فخر ہیں" کے نام سے شروع کیا ہے، تاکہ ان عظیم پاکستانیوں کو وہ عزت، وہ مقام اور وہ خراجِ تحسین دیا جا سکے جس کے وہ حقیقی طور پر مستحق ہیں۔

آئیے، ان کی قربانیوں، جدوجہد اور بے آواز کامیابیوں کو زندہ کریں

پاکستان، ایک ایسا وطن جہاں بے پناہ صلاحیتیں جنم لیتی ہیں، مگر بدقسمتی سے اکثر وہی چہرے روشنی میں آتے ہیں جو کرکٹ جیسے مقبول کھیل سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ہم نے بطور قوم دیگر کھیلوں کے ان عظیم ہیروز کو نظرانداز کیا، جنہوں نے خاموشی سے ملک کا نام روشن کیا، جھنڈا بلند کیا، مگر بدلے میں صرف گمنامی، تنہائی اور نظام کی ناقدری پائی۔
میں نے یہ سلسلہ "گمنام ہیرو – وہ جو قوم کے اصل فخر ہیں" کے نام سے شروع کیا ہے، تاکہ ان عظیم پاکستانیوں کو وہ عزت، وہ مقام اور وہ خراجِ تحسین دیا جا سکے جس کے وہ حقیقی طور پر مستحق ہیں۔
آئیے، ان کی قربانیوں، جدوجہد اور بے آواز کامیابیوں کو زندہ کریں۔
گمنام ہیرو – شہباز سینیئر: پاکستان ہاکی کا آخری عظیم فنکار
جب بات پاکستان ہاکی کی سنہری تاریخ کی ہو، تو ایک نام دل و دماغ پر چھا جاتا ہے – شہباز احمد سینیئر۔ ایسا کھلاڑی جس کی مہارت، رفتار اور بال کنٹرول نے دُنیا بھر کے میدانوں میں دھوم مچا دی۔ ایک ایسا لیجنڈ جسے خود بین الاقوامی کھلاڑی "ایشیا کا ماراڈونا" کہتے تھے۔
شہباز سینیئر کا طلسماتی انداز
شہباز سینیئر کا کھیل صرف کھیل نہیں تھا، بلکہ ایک فن تھا، ایک آرٹ۔ گیند اُن کے اسٹک سے ایسے جڑی ہوتی جیسے موسیقی ساز سے۔ جب وہ گیند لے کر میدان میں دوڑتے، تو مخالف ٹیم کے دفاعی کھلاڑی صرف انہیں دیکھتے رہ جاتے۔ ان کے "ڈریبل" اتنے دلکش ہوتے کہ شائقین داد دیے بغیر نہ رہتے۔ دنیا کے عظیم کھلاڑی اُن کے کھیل کو سلام کرتے تھے۔ بھارتی ہاکی ٹیم کے کوچ نے ایک بار کہا تھا:
"شہباز احمد کے سامنے کھیلنا ایسے ہے جیسے آپ ہوا کے خلاف دوڑ رہے ہوں۔"
پاکستان ہاکی کی سنہری دور کا سفیر
شہباز سینیئر 1986 سے 1998 تک قومی ٹیم کا حصہ رہے، اور 1994 کا وہ یادگار لمحہ آج بھی پاکستان کے کھیلوں کی تاریخ کا فخر ہے، جب پاکستان نے ان کی قیادت میں ہاکی ورلڈ کپ جیتا۔ یہی وہ وقت تھا جب پاکستان ہاکی عالمی سطح پر اپنا لوہا منوا چکی تھی۔
1990 اور 1994 کے ہاکی ورلڈ کپ میں "بہترین کھلاڑی" کا اعزاز حاصل کیا۔
1992 کے اولمپکس میں پاکستان کو کانسی کا تمغہ دلوایا۔
ان کی قیادت میں پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی، ایشین گیمز اور متعدد بڑے ٹورنامنٹس میں شاندار کارکردگی دکھائی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد خاموشی کا عالم
بدقسمتی سے شہباز سینیئر کو وہ مقام اور عزت پاکستان میں نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ہاکی کو خیر باد کہہ کر بیرون ملک ملازمت اختیار کی۔ کچھ عرصہ سعودی عرب میں کام کرتے رہے، اور پھر واپس آ کر پاکستان ہاکی فیڈریشن میں خدمات انجام دیں، لیکن سسٹم کی نااہلی اور سیاست نے ان جیسے ہیرو کو بھی مایوس کر دیا۔
انہوں نے خود کہا:
"میرے لیے سب سے تکلیف دہ لمحہ وہ تھا جب میں نے اپنی قومی جرسی بیچ کر بچوں کی فیسیں ادا کیں۔"
قوم سے سوال
کیا ہم نے شہباز سینیئر جیسے عظیم کھلاڑی کو وہ عزت دی جس کے وہ مستحق تھے؟ کیا ہمارے نوجوان جانتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب پاکستان ہاکی دنیا پر راج کرتی تھی؟ کیا ہم صرف کرکٹ کو ہی کھیل سمجھ بیٹھے ہیں؟
خلاصہ
شہباز احمد سینیئر صرف ایک کھلاڑی نہیں، ایک دور کا نام ہے، پاکستان کی عظمت کی نشانی ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایسے گمنام ہیروز کو پہچانیں، ان کی کہانیاں نئی نسل تک پہنچائیں، تاکہ آنے والا کل ہمارے ماضی پر شرمندہ نہ ہو۔

 

Adnan Hasan
About the Author: Adnan Hasan Read More Articles by Adnan Hasan: 8 Articles with 835 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.