:پاکستان میں سرکاری اداروں میں میرٹ کی پامالی: کھیلوں کے شعبے کی مثال


پاکستان میں سرکاری اداروں میں میرٹ کی پامالی ایک ایسا مسئلہ بن چکا ہے جس سے تقریباً تمام شعبے متاثر ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر حکومت کے زیرانتظام ادارے اس مسئلے کا شکار ہیں، جہاں اکثر اوقات وہ افراد بھرتی کیے جاتے ہیں جو اپنے متعلقہ کام میں ماہر نہیں ہوتے بلکہ اپنی تعلقات داری اور اثر و رسوخ کے ذریعے اہم عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتحال پاکستان کے کھیلوں کے شعبے میں بھی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں کھیلوں کی وزارت میں ہونے والے تجربات کی داستان زیادہ پرانی نہیں۔ یہی صورتحال خیبرپختوتخواہ کی بھی ہ ہے پی ٹی آئی کی ابتدائی حکومت میں بھی کھیلوں کے شعبے میں بڑے عجیب و غریب فیصلے کیے گئے۔ ایک وقت وہ آیا جب ڈی جی سپورٹس اسلام آباد سے ایک شخص کو خیبر پختونخواہ میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اعلیٰ عہدے پر تعینات کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ شخص ایک حادثے میں جاں بحق ہو چکا تھا اور اس کی موت کا ریکارڈ اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال سے تیار ہوا تھا۔ اور انشورنس کی رقم بھی متعلقہ صاحب نے لی تھی لیکن اس کے باوجود اسے پشاور میں اہم عہدہ دیا گیا۔ یہ واقعہ اس بات کا غماز ہے کہ حکومتی اداروں میں کبھی کبھار ایسے لوگ بھرتی کیے جاتے ہیں جو کسی خاص شعبے میں تجربہ نہیں رکھتے۔

حالیہ برسوں میں کھیلوں کی وزارت میں نئے بھرتیوں کا عمل موقوف ہے، اور اس کی جگہ ڈیپوٹیشن پر تعیناتیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں آنے والے افراد اپنے آپ کو دوبئی کا حصہ سمجھنے لگے ہیں، اور انہیں ادارہ چلانے کے بارے میں کوئی حقیقی معلومات نہیں ہیں۔ ڈیپوٹیشن پر آنے والے افراد کے معیار اور ان کی سلیکشن کے بارے میں کبھی کسی نے سوال نہیں اٹھایا۔ اس سلسلے میں کچھ عرصہ قبل، راقم نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے درخواست کی تھی کہ کھیلوںکے ایک ہزار منصوبے کیلئے پراجیکٹ ڈائریکٹریٹ کی تعیناتی کی میٹنگ کب ہوئی تھی اور کتنے افراد نے اس کے لیے درخواست دی تھی، مگر اس کا کوئی جواب نہ ملا۔ حالانکہ جن پر سوال اٹھایا تھا وہ بھی اپن دور پورا کرکے چلا گیا اور اب نئی تعیناتی بھی ہوچکی ہے لیکن نہ نئی تعیناتی کا پتہ چلا اور نہ ہی پرانی .یہ صورتحال شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے اور ادارے کی شفافیت پر سوالات اٹھاتی ہے۔

اس کے علاوہ، سپوزٹس ڈائریکٹریٹ میں اضافی چارج کے ذریعے من پسند افراد کو عہدوں پر تعینات کرنے کا ایک سلسلہ بھی جاری ہے۔ کچھ عرصہ قبل، ایک شخص کو ایسے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا جس کی تعلیمی قابلیت تو اچھی تھی، مگر اسے اپنے کام کی حقیقت میں کوئی سمجھ نہیں تھی۔ اس شخص نے اپنی اس کمی کو چھپانے کے لیے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہلکار کو اپنے ساتھ بھرتی کیا۔ اس کی بدولت، انہوں نے اپنی تنخواہ پچاس ہزار سے بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ کر لی، اور پھر جاتے جاتے اپنے آنے کے دن سے ڈیڑھ لاکھ روپے والی تنخواہ بھی وصول کی ہتمام مراعات اور گاڑی بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اس شخص کے ذریعے کیے گئے فیصلوں کی وجہ سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی زیادہ تر گاڑیوں کا ریکارڈ غائب ہے، اور کوئی بھی نہیں جانتا کہ ان گاڑیوں پر کتنی رقم خرچ ہوئی ہے اور یہ گاڑیاں اس وقت کہاں پر ہیں ہ

کھیلوں کی وزارت کی بدترین کارکردگی کا ایک اور مظاہرہ خاتون ہراسمنٹ کے واقعات ہیں، جو اس وزارت کے تحت کام کرنے والے اہلکاروں کی لاپرواہی کی وجہ سے سامنے آئے۔چارسدہ میں ہونیوالے ایک واقعے پر شکایات پر ایک کمیٹی بنائی گئی تھی، رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی کہ ایڈمنسٹریٹو عہدوں پر ایسے اہلکاروں کو تعینات کرنے پر پابندی ہونی چاہیے۔ مگر آخری رپورٹ پر عمل درآمد نہیں کیا گیا، اور پھر ایک نیا کمیٹی بنائی گئی جس میں باہر سے افراد کو لایا گیا۔ نتیجتاً، سب کچھ ٹائی ٹائی فش ہو گیا اور مسئلہ حل ہونے کی بجائے بڑھ گیا۔

اسی دور میں، سٹورز میں ایسے افراد کو تعینات کیا گیا جو کھیلوں کا سامان اپنے ذاتی مفاد کے لیے تقسیم کرتے تھے، اور ان کے ہاتھوں سارا سامان غائب ہو گیا۔ کوئی ریکارڈ نہیں تھا اور نہ ہی کسی نے اس کی تحقیقات کی۔ اس کے بعد، کھیلوں کی وزارت کے بجائے، پرائیویٹ اداروں نے بہترین نتائج دیے ہیں اور منافع کے لحاظ سے بہتری کی طرف قدم بڑھایا ہے۔یہ تمام مسائل ایک بڑے سسٹم کی ناکامی کی عکاسی کرتے ہیں، جس میں میرٹ کی پامالی، کرپشن اور من پسند تعیناتیاں شامل ہیں۔ ان اداروں میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے تاکہ نہ صرف کھیلوں کا شعبہ بلکہ تمام سرکاری ادارے بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔ ان اقدامات کے بغیر، یہ ادارے مزید بدنام اور غیر موثر ہوتے جائیں گے، اور عوام کا ان پر سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔

پاکستان میں سرکاری اداروں میں میرٹ کی پامالی کی یہ صورت حال کھیلوں کے شعبے تک محدود نہیں بلکہ ہر شعبے میں پھیل چکی ہے۔ ایسے لوگ جو اپنے کام کے ماہر نہیں ہوتے، نہ صرف اداروں کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں بلکہ ان کے ذریعے کرپشن اور ناانصافی کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے حکومت کو شہریوں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے اصلاحات لانی ہوںگی۔

#MeritInPakistan #SportsCorruption #KPAdministration #GovernmentReform #EndNepotism #SportsSectorIssues #KP #TransparencyInGovernment
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 710 Articles with 594521 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More