"قطر کا خواب: 2036 اولمپکس صرف ایک ایونٹ نہیں، مشرقِ وسطیٰ میں ترقی اور اتحاد کا منصوبہ ہے"
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
سال 2022 کے فیفا ورلڈ کپ کے بعد خلیجی ملک قطر عالمی کھیلوں کے میدان سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا — اب اس کی نظریں اولمپکس کے پانچ رنگوں پر جمی ہوئی ہیں۔ ایک حالیہ اہم سربراہی اجلاس میں، شیخہ ہند بنت حمد آل ثانی نے دوحہ کی 2036 اولمپک گیمز کی بولی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایونٹ ملک میں زندگیوں کو بدلنے والا ثابت ہو سکتا ہے۔اگرچہ جرمنی نے یورپ میں اولمپکس کی میزبانی کے لیے اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے اور بھارت کی بولی پاکستان کے ساتھ تناو¿ کی وجہ سے کمزور ہوئی ہے، بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ یورپ میں دوبارہ اولمپکس اب شاید 2040 کی دہائی میں ہی ہوں۔ جرمن اولمپک اسپورٹس کنفیڈریشن (DOSB) کے رکن، فولکر بوفیر نے اپریل کے آخر میں اعتراف کیا کہ "2036 یورپ کی باری نہیں۔"
اگرچہ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (IOC) نے ابھی باضابطہ طور پر قطر کی بولی کی تصدیق نہیں کی، مگر بہت سے بین الاقوامی میڈیا ادارے پچھلے سال کے اختتام پر یہ کہہ چکے ہیں کہ "دوحہ اور 2036" لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔ اگرچہ بولی وقتی طور پر خاموش ہے، لیکن ہار نہیں مانی گئی۔ اب ایک بار پھر قطر کے اعلیٰ عہدیدار عالمی مقابلے کی اس غیر مستحکم دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔قطر کی میزبانی کی خواہش صرف کھیلوں تک محدود نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار سماجی، تعلیمی، اور ثقافتی اثرات مرتب کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ یہی مرکزی پیغام تھا محترمہ شیخہ ہند بنت حمد آل ثانی کا، جو قطر فاو¿نڈیشن کی نائب صدر اور IOC کی اولمپک ایجوکیشن کمیشن کی رکن بھی ہیں، جب انہوں نے 'Olympism365 Summit: Sport for a Better World' میں خطاب کیا۔
"یہ کوئی راز نہیں کہ قطر 2036 کے اولمپکس اور پیرالمپکس کی میزبانی کا خواہاں ہے،" انہوں نے اقوام متحدہ، اولمپک ڈیلیگیٹس، اور دیگر اداروں کے سامنے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ "ایک ایسی شخصیت کے طور پر جو تعلیم پر مبنی ادارے کی قیادت کر رہی ہوں، میں جانتی ہوں کہ اولمپکس جیسے ایونٹ کی میزبانی کیا تبدیلی لا سکتی ہے۔"قطر کی آبادی 27 لاکھ سے کچھ زائد ہے، مگر اس کی عالمی ساکھ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 1984 لاس اینجلس اولمپکس سے شرکت کا آغاز کرنے والے قطر نے اب تک 9 اولمپک تمغے جیتے ہیں، جن میں سے 4 حالیہ ٹوکیو اور پیرس مقابلوں میں حاصل کیے گئے۔ اونچی چھلانگ کے ماہر معتز برشیم جیسے کھلاڑی قطر کی اسپورٹس ساکھ کو عالمی سطح پر لے گئے۔ 2022 میں فیفا ورلڈ کپ نے جہاں تعریفیں سمیٹیں، وہیں مزدوروں کے حقوق اور LGBTQ+ مسائل پر تنقید بھی ہوئی۔ تاہم، یہ ایونٹ قطر کو بڑے مقابلوں کا سنجیدہ امیدوار ثابت کرنے میں کامیاب رہا۔
شیخہ ہند نے قطر فاو¿نڈیشن، Education Above All، اور IOC کے اشتراک سے شروع کی گئی نئی پہل "Circle In" متعارف کرائی، جو ایشیا، شمالی افریقہ، اور مشرقِ وسطیٰ میں کھیل کے ذریعے سماجی ترقی کو فروغ دے گی۔یہ صرف باہر سے کچھ تھوپنے کا منصوبہ نہیں۔ ہم مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر حل نکال رہے ہیں،" انہوں نے کہا۔"Circle In" کا مقصد ابتدائی طور پر 50 ہزار بچوں کی زندگیوں میں بہتری لانا، اور 5 ہزار کوچز، اساتذہ اور رہنماو¿ں کی تربیت ہے۔ اس منصوبے میں خواتین کھلاڑیوں کے لیے دروازے کھولنے، تحفظ اور پائیداری کے اصول شامل کرنے، اور طویل مدتی منصوبے تیار کرنے پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ قطر فاو¿نڈیشن کا "تھراپیٹک رائیڈنگ پروگرام" — جو آٹزم کے شکار بچوں کے لیے ہے — اس نظریے کی زندہ مثال ہے کہ کس طرح کھیل کو سماجی شمولیت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
شیخہ ہند کے مطابق، قطر میں کھیل کا تصور عالمی علم کی منتقلی اور مقامی ثقافت و اقدار سے ہم آہنگی پر مبنی ہے۔ "اتنے بڑے ایونٹ کی میزبانی تب ہی کامیاب ہوتی ہے جب وہ میزبان ملک کی شناخت کا آئینہ بن جائے،" انہوں نے کہا۔Circle In کا نام خود ایک علامتی پیغام ہے — کھلاڑیوں کے درمیان اتحاد، مشاورت، اور تعاون۔ "یہ صرف اسٹیڈیم بھرنے کا معاملہ نہیں بلکہ انسانوں کو جوڑنے کا طریقہ ہے،" انہوں نے زور دیا۔جرمنی اپنی بولی کے حوالے سے IOC کی منظوری اور ادارہ جاتی حمایت حاصل کر چکا ہے۔ بھارت بھی لوزان میں IOC کی Future Hosts Commission سے ملاقات کی تیاری کر رہا ہے۔ ادھر قطر نے اپنی جدید اسپورٹس سہولیات، لاجسٹک کارکردگی، اور صاف منصوبہ پیش کیا ہے جو اولمپک اقدار سے ہم آہنگ ہے۔
جرمن DOSB کے سربراہ تھامس ویکرٹ نے کہا کہ ان کا داخلی انتخابی عمل ایک مضبوط شہر منتخب کرے گا، لیکن مقابلہ صرف یورپ تک محدود نہیں۔ قطر اپنی بولی کو ایک "نئے موقع" کے طور پر پیش کرتا ہے — ایسا موقع جو ماضی کی بنیاد پر نہیں بلکہ مستقبل کی پائیدار کامیابیوں پر مبنی ہو۔قطر کی 2036 اولمپکس کی خواہش صرف عالمی اسٹیج پر جلوہ گر ہونے کا شوق نہیں بلکہ ایک ایسا وڑن ہے جو تعلیم، سماجی شمولیت، اور علاقائی ترقی کے اصولوں پر قائم ہے۔ یہ بولی — جیسا کہ شیخہ ہند نے بیان کیا — افتتاحی تقریب سے آگے جا کر ایک ایسی میراث قائم کرنے کی کوشش ہے جو مشرقِ وسطیٰ کی آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرے گی۔
|