"کھیلوں میں خواتین کے خلاف جنسی اور صنفی تشدد میں خطرناک اضافہ – کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ میں آغا خان یونیورسٹی کی تحقیق"


کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ میں خواتین کھلاڑیوں کے خلاف جنسی اور صنفی بنیادوں پر ہونے والے تشدد میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے، آغا خان یونیورسٹی کی ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے۔ یہ رپورٹ، جس کا عنوان ہے "کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ میں کھیلوں میں خواتین کے خلاف جنسی اور صنفی بنیادوں پر تشدد"، 748 افراد کے سروے اور 32 قومی اسپورٹس فیڈریشنز و ایسوسی ایشنز سے حاصل کیے گئے 18 تفصیلی انٹرویوز پر مبنی ہے۔

تنزانیہ میں 62 فیصد افراد نے کہا کہ وہ خود یا کوئی جاننے والا اس قسم کے تشدد کا شکار ہو چکا ہے۔ کینیا میں یہ شرح 69 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو 2022 میں 43 فیصد تھی۔ یوگنڈا میں 18 سے 44 سال کی عمر کی 48 فیصد خواتین نے بتایا کہ وہ یا ان کی جاننے والی کسی خاتون کو کھیلوں سے وابستہ ماحول میں جنسی یا صنفی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔یوگنڈا میں ایک منفرد رجحان یہ بھی سامنے آیا کہ ایک تہائی سے زائد خواتین نے تماشائیوں کو سب سے زیادہ بدسلوکی کرنے والے افراد کے طور پر شناخت کیا، جو عوام میں کھیلوں کے دوران مناسب رویے کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی فوری ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔

تحقیق کے مطابق 82 فیصد خواتین کھلاڑی مردوں کے مقابلے میں صنفی تشدد کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ سب سے عام تشدد کی قسم زبانی بدسلوکی ہے، اس کے بعد جذباتی، جسمانی اور جنسی تشدد آتا ہے – جس میں اکثر کوچز، ٹیم آفیشلز اور بعض اوقات تماشائی بھی ملوث ہوتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پیشہ ور اور مقابلہ جاتی سطح پر کھیلنے والی خواتین کھلاڑی زیادہ خطرے میں ہوتی ہیں۔ خاص طور پر کینیا اور یوگنڈا میں یہ دیکھا گیا کہ بعض خواتین کھلاڑیوں کو مواقع کے بدلے جنسی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کیا گیا۔ایگنیس تیروپ (Agnes Tirop) ان کھلاڑیوں میں شامل تھیں جنہیں صنفی تشدد کے باعث جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔

اگرچہ یہ تشدد بڑے پیمانے پر رپورٹ ہوا ہے، لیکن صرف 17 فیصد افراد نے ذاتی طور پر تجربہ ہونے کی تصدیق کی، جبکہ 25 فیصد نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کیا، جو اس مسئلے کے گرد موجود خوف اور بدنامی کے ماحول کی نشاندہی کرتا ہے۔تحقیق میں شامل ایک خاتون نے کہا،"یہ آپ کی آواز چھین لیتا ہے۔ آپ خود پر شک کرنے لگتے ہیں، اپنی قدر، صلاحیت، اور یادیں سب مشکوک لگنے لگتی ہیں۔ اگر آپ بول بھی پڑیں تو یا تو کچھ نہیں ہوتا یا آپ کو ہی سزا دی جاتی ہے۔ تب وہ خاموشی ایک ایسا زخم بن جاتی ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔ آپ صرف کھیل ہی نہیں کھوتے بلکہ وہ خودی بھی گنوا بیٹھتے ہیں جو پہلے تھی۔"

رپورٹ کے مطابق بہت سی متاثرہ خواتین ریٹائرمنٹ کے بعد مکمل طور پر کھیلوں سے کنارہ کش ہو جاتی ہیں، کیونکہ وہ نہ تو صدمہ برداشت کر پاتی ہیں اور نہ ہی اس نظام کا حصہ بننا چاہتی ہیں جو انہیں تحفظ فراہم نہیں کرتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کھیلوں میں تجربہ کار خواتین رہنما اور سرپرست کم ہو جاتے ہیں، اور مردانہ اجارہ داری مزید مضبوط ہو جاتی ہے۔ڈاکٹر ہیبسن اوویلا (Dr. Hebson Owilla)، جو کہ تحقیق کے مرکزی محقق اور آغا خان یونیورسٹی کے گریجویٹ اسکول آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سے وابستہ ہیں، نے سرکاری اعلامیے میں کہا:

"یہ نتائج کھیلوں میں صنفی تشدد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ مسئلہ صرف اعدادوشمار کا نہیں، بلکہ اس بات کا ہے کہ اب کیا اقدامات کیے جائیں۔ اس میں کھیلوں کی فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز کو خواتین کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے مدد دینا شامل ہے۔"رپورٹ میں فوری اقدامات پر زور دیا گیا ہے، جن میں حکومتوں، اسپورٹس فیڈریشنز اور سول سوسائٹی سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ آگاہی، تعلیم، سخت سزاو¿ں اور کوچز کے لیے لازمی تربیت جیسے اقدامات کریں، تاکہ کھیلوں کے ماحول کو محفوظ بنایا جا سکے۔

مشرقی افریقہ پر گزشتہ ایک سال سے خاص نظر ہے، کیونکہ معروف لمبی دوڑ کی کھلاڑی ربیکا چیپٹیگی (Rebecca Cheptegei) کو ان کے سابق ساتھی نے آگ لگا دی تھی، اور وہ چند دنوں بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں۔ وہ خطے کی چوتھی خاتون ایتھلیٹ تھیں جنہیں قتل کیا گیا، جن میں ایگنیس تیروپ بھی شامل ہیں۔


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 709 Articles with 592834 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More