خیبرپختونخوا سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ڈیلی ویج ملازمین کا بحران: مفت کام، زبانی برطرفی اور اقربا پروری کا کھیل
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور: خیبرپختونخوا کے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں اس وقت درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں ڈیلی ویج ملازمین بے یقینی، بے توقیری اور بدانتظامی کا شکار ہیں۔ کم و بیش تین سو سے زائد کوچز، سیکیورٹی گارڈز، کلاس فور ورکرز اور مختلف دفاتر میں خدمات انجام دینے والے اہلکاروں کو جون 2025 کے اختتام پر برطرف کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے — جن میں وہ ملازمین بھی شامل ہیں جنہوں نے 2023–24 میں مکمل ایک سال مفت خدمات سرانجام دیں۔کم از کم 22 ملازمین نے عدالت سے حکمِ امتناعی حاصل کیا ہے، جس کے بعد ڈائریکٹریٹ ان کو قانونی طور پر فارغ نہیں کر سکتا۔ ان ملازمین کا موقف ہے کہ وہ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے خدمات انجام دے رہے ہیں، مگر ہر سال بغیر کسی تحریری معاہدے کے فارغ کر دیے جاتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، سال 2023–24 میں ان ڈیلی ویج سے مکمل ایک سال بغیر تنخواہ کے مفت کام لیا گیا۔
پچھلے مالی سال میں ڈیلی ویجز ملازمین کی تنخواہیں سرکاری طور پر 36,000 روپے مقرر تھیں، لیکن ابتدائی دو ماہ میں صرف 32,000 روپے ادا کیے گئے۔ بقیہ 8,000 روپے دینے کا وعدہ کیا گیا، جو تاحال وفا نہ ہو سکا۔ اسی طرح کوچز اور کلاس فور ملازمین کو یکساں تنخواہ دی گئی، حالانکہ بیشتر کوچز اعلیٰ تربیت یافتہ اور تجربہ کار تھے۔بیشتر کوچز اور ڈیلی ویجز ملازمین کو سخت ڈیوٹیوں پر مامور کیا جاتا ہے، جبکہ بعض افسران کے پسندیدہ افراد کو اے سی دفاتر میں آرام دہ ماحول فراہم کیا جاتا ہے — بعض کو تو صرف “نام کی تعیناتی” دے کر تنخواہیں دی گئیں۔ نہ ان کو تعیناتی کا نوٹیفکیشن دیا جاتا ہے، نہ برطرفی کا تحریری نوٹس؛ سب کچھ زبانی طور پر ہوتا ہے۔
تحقیقات سے انکشاف ہوا ہے کہ کچھ مستقل ملازمین، جنہیں کلاس فور یا سیکورٹی اسٹاف کے طور پر بھرتی کیا گیا، افسران کے گھروں میں ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ ان کی رہائش، تنخواہیں، حتیٰ کہ بجلی اور گیس کے اخراجات بھی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ ادارہ برداشت کر رہا ہے۔کئی ڈیلی ویج ملازمین سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے بھرتی کیے گئے — جو ادارے میں نہ کبھی آئے، نہ کوئی کام کیا، مگر باقاعدگی سے تنخواہ لیتے رہے۔ بعض ملازمین ایسے بھی ہیں جو کسی اور سرکاری ادارے میں ملازمت کر رہے ہیں، مگر یہاں بھی بغیر NOC کام جاری ہے۔ کئی مستقل ملازمین صبح کے اوقات میں اسکولوں میں کھیلوں کے انچارج ہیں، اور دوپہر بعد یہاں حاضری دیتے ہیں۔
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں تعینات بعض افسران نے ملازمین کی مصنوعی قلت ظاہر کرنے کے لیے بعض مستقل ملازین کو عمران خان کرکٹ سٹیڈیم میں تعینات کر دیا — حالانکہ یہ اسٹیڈیم ابھی تک صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے حوالے ہی نہیں ہوا۔ وہاں کی صفائی، کٹائی اور دیگر کام ٹھیکیداروں کی ذمہ داری ہے، مگر سرکاری ملازمین کو وہاں استعمال کیا جا رہا ہے۔ماضی میں ہر سال فارغ کیے گئے ملازمین میں کچھ کو بغیر تنخواہ کے کام پر رکھا گیا، کچھ کو 50,000 روپے دے کر "منہ بند" کر دیا گیا، اور کچھ کو نامعلوم افراد کے کھاتے میں ڈال کر ان کے حقوق غصب کر لیے گئے۔ یہ سب کچھ ڈی جی خالد محمود کے دورسے شروع ہوا ا، جہاں ادارے کے من پسند افراد کو مکمل تحفظ دیا گیا، جبکہ باقیوں کے ساتھ ظلم ہوا۔
حالیہ اطلاعات کے مطابق، برطرفی کے نوٹس جاری کرنے کے باوجود کئی کوچز کو کہا گیا ہے کہ وہ ڈیوٹی پر آئیں اور انہیں فارغ نہیں کیا گیا سوال یہ ہے کہ اگریہ ڈیلی ویج ملازمین ہیں تو پھر انہیں کس طرح ملازمت کیلئے بغیر کسی نوٹیفیکیشن کے تو انہیں کام پر کیوں بلایا جا رہا ہے؟ کیا یہ صرف دو چار ماہ بعد دوبارہ فارغ کرنے کی چال ہے؟اب یہ تمام صورت حال نئے ڈی جی کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔ اگر وہ اپنے آنکھوں سے اس معاملے کو دیکھیں ‘ کیونکہ ہر نئے آنیوالے ڈی جی کو مخصوص لوگ اپنے آنکھوں کے ذریعے سپورٹس ڈائریکٹریٹ دکھاتے ہیں اور اسی میں وہ اپنا کام نکال لیتے ہیںاور ہر کھیل کمپلیکس، ہر دفتر میں خوشامدی اور بااثر افراد افسران کو اپنے رشتہ داروں اور تعلق داروں کی تقرریوں کے لیے قائل کرنے میں لگے ہیں۔ موجودہ انتظامیہ کے لیے یہ معاملہ سنبھالنا آسان نہیں لگتا۔
یہ بحران صرف انتظامی بدانتظامی نہیں بلکہ انسانی وقار، لیبر قوانین، اور پبلک فنانس کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ واقعی کھیلوں اور کھلاڑیوں کی خدمت کے لیے کام کر رہا ہے، تو اسے پہلے اپنے اندر کے کھیل بند کرنا ہوں گے۔
|