ہماری قومی زندگیوں کے دو اہم مسائل

(محمد حمزہ ٹالپر, حیدرآباد)


ہماری یونیورسٹی آف سندھ عموماً چھٹیوں کے بعد پیر کے دن کھلتی ہے اور وہ ہفتہ ہمارے دوست اور شاید استاد بھی "لائٹ ویک" کے طور پر لیتے ہیں۔ گزرے پیر کو یونیورسٹی موسم گرما کی ڈھائی ماہ پر مشتمل تعطیلات کے بعد معمول کے مطابق شروع ہوچکی ہے۔ وہاں پہلے تین دن یعنی پیر، منگل اور بدھ مجموعی اعتبار سے جشن آزادی کی تقریبات میں گزرے اور اس سے اگلے دن چودہ اگست کی تعطیل رہی۔ جمعہ کو چہلم امام حسین علیہ السلام کی عام تعطیل کے باعث سلسلہ منقطع رہا۔ خیال کرتے ہیں کہ کل کا دن شاید باقاعدہ طور پر پہلا دن ہو جس کے بعد معمول کی زندگی بحال ہو جائے۔ ویسے یہ معمول ہم جیسوں کا تو پچھلے ساڑھے تین سال ہی سے ہے۔ اب ہمارے تو چند ہی ماہ باقی ہیں لہذا آسمانوں سے التجا ہے کہ ہمارے بعد والوں کے لیے آسانیاں رہیں کہ انہیں ابھی مزید سفر کرنا ہے۔ ہم تو جو اکتوبر ء2021 کے آخری یوم داخلے کی غرض سے داخلہ ٹیسٹ کیلئے وہاں حاضر ہوئے تھے وہ بعد میں نئے سال کی پہلی تاریخ کو داخلہ کرانے کے بعد سے تئیس فروری ء2022 کو باقاعدہ طور پر اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کر بیٹھے۔ یہ سفر اب اپنے آخری مراحل میں ہے۔ اسی ہی کی مرہونِ منت ہم نے کچھ شعور پایا ہے ورنہ تو جو اکتوبر ء2021 اور اس سے پہلے ہماری ذہنی سطح ہوا کرتی تھی وہ آپکو یہاں کے تقریباً اکثریتی طالب علموں میں مشترک نظر آئے گی۔ جیسا یہاں کا تعلیمی نظام ہے اسکی تاریکی کا اندازہ ہمیں اپنے تجربے سے آج ہوا ہے جب یہ سفر اختتام پر ہے۔ کیا سمجھتے ہیں کہ سولہ سال کی تعلیم' بلکہ پی ایچ ڈی ڈگریاں حاصل کی گئی ہوں اور اثر اسکا دل و دماغ پر ذرا بھی نہ ہوا ہو تو کیا ہماری ترقی کی رفتار ہوگی؟ کونسی بڑی منازل طے کی جارہیں ہونگی؟ کتنے جدید سوچ کے حامل ترقی پسند موجود ہونگے؟ روشن خیالی کی سطح کیا ہوگی؟ ان سوالات کو اگر واقعتاً اہم سمجھا جائے تو یہ عاجز طالب علم انکے جوابات کا متمنی رہے گا۔ ذہن میں کھٹکتے اس پہلے خیال کو تو ہم ابتدائیے ہی میں عرض کر چکے مگر یہ سوال قائم رہتا ہے کہ جس نظام سے سابقہ ہے وہ کبھی تبدیل بھی ہوگا یا نہیں؟ بقول محترم و مہربان ڈاکٹر پرویز ہودبھائی صاحب کہ "پڑھے لکھے وہ ہیں جنہوں نے خود کو تعلیم دی ہے اور آج کے دور میں جو علمی ذخائر باآسانی موجود ہیں اس سے تو انسان آسمان کو چھو سکتا ہے باقی یہاں جو تعلیم و تدریس کے باب میں نظام ہے وہ انتہائی دردناک حد تک تباہی کے دہانے پر ہے"۔ اکثر ہم یہ سوچتے ہیں کہ ایک تو جہاں نظام کی صورتحال پست ہو اور ساتھ عوام بھیڑ چال میں پھنسی ہو وہاں امید بھی ختم ہو جاتی ہے کہ حالات بدلیں گے اور اجالا ہوگا۔ نادم ہیں مگر عرض کریں کہ یہ بھیڑ چال ہی ہے جس میں ہماری اکثریتی تعداد مملو ہے اور اب سوشل میڈیا کے منفی استعمال نے اس غیر پیداواری رجحان میں اور قوت پیدا کردی ہے جسکے نتائج عدم برداشت، دشنام، بدتمیزی، لاپرواہی اور کوتاہ نظری کی صورت میں ہمارے معاشرے کے فکری ڈھانچے کو اندر ہی اندر سے کمزور کررہے ہیں۔ یہی خرابیاں ہیں جو پھر بڑی سطح پر نمودار ہوکر ہماری اجتماعی ناکامیوں کا سبب بنتی ہیں۔ اہم بات تو یہی ہی سمجھی جاسکتی ہے کہ جب تک اسکا انتظار کریں کہ تعلیم کا نظام بہتر ہو' اس سے یہ بہتر ہے کہ ہم خود کو خود ہی تعلیم دیں اور بہتری کی جانب سفر شروع کریں جس سے شاید اس نظام کی درستگی ہمارے اپنے ہاتھوں سے ہونا ممکن ہو جائے۔

دوسرا مسئلہ جو ہمارے ذہن میں ہے کہ جون جولائی جو گرمیوں کے مہینے جانے جاتے ہیں وہ گزر چکے اور انکے گزرتے ہی موسم کے تیور ذرا چند دنوں سے غیر معمولی طور پر بدل گئے ہیں۔ ہفتہ پہلے تک ہمارے حیدرآباد کی دوپہر اور پھر شام اتنی گرم نہ ہوتی تھی۔ اب تو دن چڑھتے ہی جو سختی موسم دکھاتا ہے وہ شام ہونے کے بعد تک حتی رات کے دیرینہ پہروں میں بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ پچھلے سال بھی ان مہینوں میں یہی صورتحال ہی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ جو حرکات ہم انسانوں کی اس دھرتی پر ماحول کو خراب کرنے کی رہیں ہیں ان سے بالاآخر یہی نتائج نکلنے تھے۔ موسمیاتی تغیرات' دنیا میں غربت، آبادی اور جنگوں کے جیسا ہی ایک سنگین خطرہ ہیں۔ انسان نے اگر اسوقت کوئی قدم نہ اٹھایا تو وسائل کی کمی، آبادی کا بے ہنگم طریقے سے بڑھنا اور قتل و غارتگری سے تو دنیا بڑے عرصے سے دو چار رہی ہے اور آج بھی ہے لیکن یہ جو موسمی تبدیلیوں کے باعث خطرات ہیں وہ اتنا تدبر نہیں رکھتے کہ کمزوریوں کے باوجود ہم انسان ذات کے قدم آگے کو چلتے رہیں۔ انکی طرف سے انسانیت کو مہلت نہیں ملے گی لہذا اس سے پہلے کہ ہم کسی ایسی نہج پر پہنچ جائیں' اپنی زندگیوں میں سدھار لانا آج کے حالات میں ایک لازمی امر بن چکا ہے۔ اس تناظر میں آپ کہیں دور نہ جائیں بلکہ ہمارے اپنے ملک کی صورتحال پر غور کرلیں۔ آج کے دن کی خبروں کے مطابق جو بارشوں سے خیبرپختونخوا کے بیشتر علاقوں میں تباہیاں ہوئی ہیں وہ آپ کے علم میں ضرور ہونگی۔ وہاں تاحد نگاہ مناظر میں پانی ہی پانی نظر آرہا ہے۔ خاندان کے خاندان مسائل کی زد میں ہیں۔ یہ ایک صوبے کی موجودہ صورتحال ہے۔ آپ کو چند برس پہلے میرے صوبے سندھ میں آنے والا سیلاب یاد ہے؟ اس سیلاب نے پچھلی تباہیوں کے ریکارڈ توڑے تھے۔ لوگ لاکھوں کی تعداد میں دربدر ہوئے۔ انکے گھر منہدم ہوگئے۔ انفراسٹرکچر کو سنگین نقصان پہنچا۔ وہ تباہی ایسی تھی کہ اب تک اسکا سدباب جاری ہے۔ ہمارا اس مسئلے پر اکثر دوستوں سے ملاقاتوں میں یہ عاجزانہ خیال رہا ہے کہ یہ خطرے کی ابتدائی گھنٹیاں ہیں لہذا حکمت اسی میں ہے کہ ملکی سطح پر غور کا حصہ کچھ اس جانب بھی مختص کیا جائے تاکہ ہم اس خطرے کو بھی نمٹنے کے کچھ قابل ہو سکیں۔ ساتھ ماہرین کی ایسی ٹاسک فورس ہو جسکی سفارشات پر عملی اقدامات کے ذریعے پیش قدمی کی جائے۔ بغیر کسی تیاری کے ایسے ہی چلتے رہے تو پھر ہم خود کو دراصل موسمی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے خطرات کیلئے تیار کررہے ہیں جن کی آمد ہمارا وجود بھی بہا کے لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

 

محمد حمزہ ٹالپر
About the Author: محمد حمزہ ٹالپر Read More Articles by محمد حمزہ ٹالپر: 2 Articles with 607 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.