مسائل حل کرنے کی صلاحیت

تحریر: ڈاکٹر محمد سلیم آفاقی

مسائل حل کرنے کی صلاحیت

بلاشبہ زندگی کی مثال ایک پیچیدہ کھیل کی طرح ہے۔ جہاں ہر مرحلے اور موڑ پر نئی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد کے بعد تو صورت حال ایک نیا رخ اختیار کر چکی ہے بلکہ پیچیدہ ہو چکی ہے۔اسی لئے بچوں کو روز مرہ زندگی کے حقیقی مسائل سے نمٹنے کا فن سکھائے بغیر تعلیم کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ دور جدید کے ماہرین طلبہ میں مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ عملی زندگی میں کامیابی حاصل کر سکیں۔

درحقیقت مسئلہ حل کرنے کی مہارتیں صرف کتابی علم تک محدود نہیں، بلکہ یہ سوچنے، تجزیہ کرنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں کو فروغ دیتی ہیں کہ کیسے اساتذہ اور تعلیمی نظام کے ذریعے طلبہ میں مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت پیدا کی جا سکتی ہے اور اس کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے۔

سب سے پہلے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے مقاصد واضح کریں کہ طلبہ کو کون سے مسائل حل کرنے کے ہنر سکھانے ہیں۔ جب بچے جان لیں کہ انہیں کیا سیکھنا ہے تو وہ زیادہ دلجمعی اور دلچسپی کے ساتھ مشق کریں گے۔

سٹوڈنٹس کو سکھائیں کہ کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے سے پہلے اس کی مکمل پہچان اور تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے تدریس میں کئی مشقیں دی جائیں، جیسے مسئلہ کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنا، اور اہم نکات کو سمجھنا۔

کتابی تعلیم کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ عملی سرگرمیاں، گروہی مباحثے، اور پراجیکٹس کا اہتمام کریں۔ مثلاً سائنس کلاس میں طلبہ کو اسی مضمون کے ایسے مسائل پر کام کرنے دیں جو روزمرہ زندگی سے متعلق ہوں۔ یہ طریقہ طالب علموں کو زیادہ متحرک اور تخلیقی بناتا ہے۔

طلبہ کو مختلف حل تلاش کرنے کی ترغیب دیں۔ انہیں یہ سکھائیں کہ کوئی بھی مسئلہ صرف ایک حل نہیں رکھتا بلکہ اس کے کئی حل ہو سکتے ہیں۔ اساتذہ گروپ ورک یا برین سٹورمنگ کے ذریعے کئی حل نکالنے کی مشق کرا سکتے ہیں۔

طلبہ کے اندر تنقیدی سوچ کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ وہ حل کے مختلف پہلوؤں کو پرکھ سکیں، فائدے اور نقصانات کا تجزیہ کر سکیں، اور بہترین حل منتخب کر سکیں۔

مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں غلطیاں اور ناکامی بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ محیط ماحول ایسا ہونا چاہیے جہاں طلبہ اپنی غلطیوں سے نہ گھبرائیں بلکہ انہیں سیکھنے کا ذریعہ سمجھیں۔

تعلیمی ٹیکنالوجی اور آن لائن ٹولز کی مدد سے مسائل کی نمائش اور حل کرنے کی مشق کی جا سکتی ہے۔ مثلاً کمپیوٹر سیمولیشنز، تعلیمی ایپلیکیشنز، اور گیمز طلبہ کو دلچسپ انداز میں مسئلہ حل کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔

طلبہ کی سیکھنے کی صلاحیتوں کا بغور جائزہ لیا جائے اور وقتاً فوقتاً فیڈبیک دیا جائے تاکہ وہ اپنی کمزوریوں اور بہتری کے راستے سمجھ سکیں۔ مسئلہ حل کرنے کی جانچ صرف صحیح یا غلط جواب پر مبنی نہ ہو بلکہ سوچنے کے عمل، حکمت عملی اور عمل درآمد کو بھی پرکھے۔

نصاب میں ایسے مسائل شامل کیے جائیں جو طلبہ کے روزمرہ مسائل سے مطابقت رکھتے ہوں۔ اس سے وہ مسئلہ کی نوعیت کو بہتر سمجھ سکیں گے اور حل تلاش کرنے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔

اساتذہ خود بھی مسئلہ حل کرنے کے جدید طریقوں اور تدریسی حکمت عملیوں سے آگاہ ہوں تاکہ وہ موثر انداز میں طلبہ کو تعلیم دے سکیں۔اس سلسلہ میں والدین کا کردار بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو بچوں کو روز مرہ زندگی میں پیش آ نے والے مسائل کو خود سے حل نہ کریں بلکہ بچوں کو چھوڑ دیں کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت حل کریں البتہ ضرورت پڑنے پر مدد ضرور کریں

مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت کسی بھی تعلیمی نظام کا اہم ستون ہے۔ اگر طلبہ کو مناسب رہنمائی، مشق، اور ماحول فراہم کیا جائے تو وہ نہ صرف تعلیمی مسائل بلکہ عملی زندگی کے پیچیدہ مسائل بھی با آسانی حل کر سکیں گے۔ اس لیے تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ نصاب، طریقہ تدریس، اور تشخیص میں مسئلہ حل کرنے کی مہارت کو مرکزی حیثیت دیں تاکہ ہماری نوجوان نسل ایک کامیاب اور ہنر مند قوم بن سکے۔

 

Dr-Muhammad Saleem Afaqi
About the Author: Dr-Muhammad Saleem Afaqi Read More Articles by Dr-Muhammad Saleem Afaqi: 47 Articles with 54315 views
Dr. Muhammad Saleem Afaqi is a prominent columnist and scholar from Nasar Pur, GT Road, Peshawar. He earned his Ph.D. in Education from Sarhad Unive
.. View More