جوس اسٹال کی جادو نگری: کھیل، کھلاڑی اور کہانی


خیبرپختونخوا میں کھیلوں کی ترقی کے منصوبے ہمیشہ بڑے بڑے دعووں کے ساتھ شروع ہوتے ہیں۔ کبھی اربوں روپے کے اسٹیڈیم، کبھی شاندار اکیڈمیاں، اور کبھی ایسی تقریبات کہ لگے اب تو ہر محلے سے ایک نیا میسی اور رونالڈو نکلے گا۔ لیکن حیات آباد اسپورٹس کمپلیکس نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ جی ہاں، وہاں کھلاڑیوں کو ایک نئی سہولت دی گئی ہے: جوس اسٹال!یہ کوئی عام جوس اسٹال نہیں۔ یہ وہ اسٹال ہے جس کے بارے میں آر ٹی آئی (Right to Information) کے تحت باضابطہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اتنی اہمیت کیوں؟ آخر یہ اسٹال کوئی عام شربت والا ٹھیلا نہیں، بلکہ بقول انتظامیہ، "ایک مستحق ایتھلیٹ" کی تقدیر کا چراغ ہے۔

سوال نمبر ایک: اجازت کس نے دی؟ عوام پوچھ رہی ہے، کھلاڑی پوچھ رہے ہیں، اور افسران بھی ایک دوسرے کو گھور رہے ہیں کہ "او بھائی، یہ اسٹال لگایا کس نے؟" اگر اجازت کسی افسر نے دی تو نوٹیفکیشن کہاں ہے؟ اگر نوٹیفکیشن ہے تو فائل کس نے دبا لی؟ اور اگر فائل ہی نہیں تو پھر یہ جوس اسٹال آسمان سے اترا تھا یا جنوں نے تعمیر کیا؟سوال نمبر دو: مستحق کھلاڑی یا بزنس مین؟ انتظامیہ کا موقف ہے کہ یہ اسٹال ایک "غریب کھلاڑی" کو دیا گیا تاکہ وہ کھیلوں کے اخراجات پورے کر سکے۔ لیکن اصل مزہ یہاں ہے: کھلاڑی کے پاس کھیل کے لیے پیسے نہیں، لیکن اسٹال بنانے کے لیے انوسٹمنٹ لاکھوں میں۔ واہ رے تقدیر! یہ غریبی تو بڑے مزے کی ہے۔ لگتا ہے ہمارے ہاں "غریب" ہونے کے بھی اپنے ہی معیار ہیں: جیب خالی، مگر اسٹال فائیو اسٹار۔

سوال نمبر تین: کرایہ کہاں ہے؟ کھیلوں کے ادارے فرماتے ہیں کہ اسٹال کرایہ فری دیا گیا ہے۔ سبحان اللہ! یعنی کھلاڑی کھیل کے میدان میں پسینے بہائے، جیتے، ہارے، مگر فائدہ جوس پلانے میں ہے۔ اور کرایہ؟ وہ تو بس ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ عوام پوچھ رہی ہے کہ آخر یہ رعایت پالیسی کے تحت دی گئی یا ذاتی تعلقات کے تحت؟ کیونکہ سرکاری کاموں میں "محبت" کی خوشبو اکثر آتی ہے۔سوال نمبر چار: آڈٹ کہاں گیا؟چونکہ سرکار کے نام پر سب کچھ ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ اس پر آڈٹ کس نے کیا؟ اگر فنڈ استعمال ہوئے تو حساب کتاب کہاں ہے؟ اور اگر پرائیویٹ انوسٹمنٹ ہے تو پھر وہ "غریب کھلاڑی" کون سا لکی ڈرا جیت کر اچانک سرمایہ دار بن گیا؟

یہ کہانی محض ایک جوس اسٹال کی نہیں۔ یہ اس پورے نظام کی عکاسی ہے جہاں کھیل کے نام پر سب کچھ جائز ہے۔ کبھی جعلی کھلاڑی باہر بھجوائے جاتے ہیں، کبھی "اسپورٹس ڈویلپمنٹ" کے نام پر فنڈ کھائے جاتے ہیں، اور کبھی کھلاڑیوں کو لالی پاپ کے بجائے جوس پلا دیا جاتا ہے۔اگر کمپلیکس واقعی کھلاڑیوں کی فلاح چاہتا ہے تو کیا جوس اسٹال لگانا ہی واحد حل تھا؟ کھلاڑی کو کوچ، تربیت یا گرانٹ دینا تو دور کی بات، یہاں تو بس "جوس لو، جوس دو" پالیسی چل رہی ہے۔

ہمارے افسران کی منطق بھی نرالی ہے۔ ان کے نزدیک کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کا مطلب ہے: "بیٹا، تمہارا کھیل تو چمکا نہیں، لیکن یہ لیموں نچوڑو اور شیکر چلاو، قسمت ضرور چمکے گی۔" اب ذرا سوچیں، جس کھلاڑی نے گولڈ میڈل جیتنا تھا، وہ گلاس دھو رہا ہے، اور جو کوچ تربیت دینے آیا تھا، وہ اسٹال پر بیٹھا بل بنا رہا ہے۔یہ کوئی پہلا قصہ نہیں۔ کبھی "کھلاڑیوں کے لیے دودھ" کے نام پر ٹینڈر نکلتا ہے اور دودھ بیچارہ بھی پانی کے ساتھ شریکِ سفر بن جاتا ہے۔ کبھی "فٹبال کے جوتے" کے بجائے آفس میں چپلیں پہنچ جاتی ہیں۔ اور اب جوس اسٹال۔ عوامی زبان میں کہا جائے تو یہ معاملہ ایسا ہے جیسے "اونٹ کے منہ میں زیرا۔" یعنی صوبے کے کھیلوں کے شعبے کے لیے اربوں روپے مختص ہوتے ہیں، لیکن کھلاڑی کو ملا کیا؟ ایک جوس اسٹال، وہ بھی بغیر رسید کے۔

یہ واقعہ سننے میں ہنسی مذاق کا لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ کھیلوں کے شعبے کی بدانتظامی کی بڑی مثال ہے۔ آر ٹی آئی درخواست میں پوچھے گئے سوالات بالکل جائز ہیں۔ اگر سب کچھ شفاف ہے تو کاغذات دکھائیں۔ ورنہ عوام کو جوس کے ساتھ ساتھ پوری کہانی بھی ہضم کرنی ہوگی۔کھلاڑیوں کے لیے پیغام یہ ہے کہ اگلی باری شاید آپ کی ہو۔ ہوسکتا ہے آپ کو بیڈمنٹن کورٹ کے کونے میں "سموسہ ہاوس" یا سوئمنگ پول کے پاس "چائے کیفے" چلانے کا موقع مل جائے۔ اور پھر آپ فخر سے کہہ سکیں گے:"میں ایک قومی کھلاڑی ہوں... اور ساتھ ہی ایک کامیاب اسٹال ہولڈر بھی!"

#SportsCorruption #JuiceStallScandal #HayatabadSportsComplex #KhyberPakhtunkhwa #SportsJournalism #Accountability #RTI #Kikxnow
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 775 Articles with 629429 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More