آئی او سی کا دہرا معیار: روس کو نکالا، اسرائیل کو بچایا — کھیل سیاست کے بوجھ تلے دب گئے؟
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (IOC) بار بار یہ دعویٰ کرتی ہے کہ کھیل سیاست سے الگ ہیں اور اس کا کام صرف کھیلوں کو فروغ دینا ہے۔ لیکن جب فیصلوں پر نظر ڈالی جائے تو یہ دعویٰ ایک نعرے سے زیادہ کچھ نظر نہیں آتا۔ روس کو یوکرین پر حملے کے بعد فوری طور پر معطل کر دیا گیا، اس کے کھلاڑیوں کو غیرجانبدار حیثیت میں بھی ترانے، جھنڈے اور قومی شناخت کے بغیر کھیلنے پر مجبور کیا گیا۔ مگر اسرائیل کے معاملے میں، جو غزہ میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیوں اور مبینہ نسل کشی کے الزامات کا سامنا کر رہا ہے، آئی او سی کا رویہ بالکل مختلف ہے۔
2023 میں آئی او سی نے روسی اولمپک کمیٹی کو اس وقت معطل کیا جب اس نے یوکرین کے چار علاقوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس فیصلے کو یہ کہہ کر درست قرار دیا گیا کہ روس نے ایک دوسرے ملک کے اولمپک چارٹر کی خلاف ورزی کی ہے۔لیکن اسرائیل پر ہاتھ کیوں ہلکا رکھا گیا؟ اسپین کے وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے یہ سوال پوری دنیا کے سامنے رکھ دیا: "اگر روس کو نکالا جا سکتا ہے تو اسرائیل کو کیوں نہیں؟ کیا یہ دہرا معیار نہیں ہے؟" ان کا مو¿قف یہ تھا کہ جب تک "بربریت جاری ہے"، اسرائیل کو کسی بھی عالمی پلیٹ فارم پر جگہ نہیں ملنی چاہیے۔
آئی او سی اپنی غیرجانبداری کا دفاع کرتے ہوئے بار بار یہ جواز پیش کرتا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کمیٹیاں تسلیم شدہ ہیں، دونوں کے مساوی حقوق ہیں اور دونوں پیرس 2024 میں ایک ہی اولمپک ولیج میں پرامن طور پر شریک ہوئے۔لیکن یہ دلیل کھوکھلی لگتی ہے، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی کھلاڑی اکثر وسائل، تربیت اور سہولیات کے بغیر محض اپنی شناخت قائم رکھنے کے لیے کھیلوں میں شریک ہوتے ہیں، جبکہ اسرائیل ایک طاقتور ملک کے طور پر فوجی کارروائیوں کے باوجود بلا روک ٹوک شریک رہتا ہے۔
کھیل امن، دوستی اور انسانی اقدار کے فروغ کا نام ہیں۔ لیکن جب ایک ملک پر سختی اور دوسرے پر نرمی برتی جاتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کھیلوں کی روح باقی رہ جاتی ہے؟ جنوبی افریقہ کو اپارتھائیڈ کے دور میں کھیلوں سے نکال دیا گیا تھا، روس کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا، مگر اسرائیل پر وہی اصول کیوں لاگو نہیں ہوتے؟ یہ دہرا معیار نہ صرف کھلاڑیوں کے اعتماد کو مجروح کرتا ہے بلکہ شائقین کے دلوں میں بھی سوالات پیدا کرتا ہے کہ آیا کھیل واقعی غیرجانبدار ہیں یا پھر بڑی طاقتوں کے سیاسی دباو¿ میں فیصلے ہوتے ہیں۔
فلسطینی اولمپک کمیٹی بار بار اسرائیل کو نکالنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ غزہ میں فوجی کارروائیوں سے لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں، اولمپک چارٹر اور اقوامِ متحدہ کی ٹرسٹ (Truce) کی کھلی خلاف ورزی ہوئی۔ اسپین کی حمایت کے بعد یہ مطالبہ مزید مضبوط ہوا، مگر آئی او سی اب تک ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔
آئی او سی نے ماضی میں کئی بار کھیلوں کو سیاست سے الگ رکھنے کے بجائے سیاسی حالات کے مطابق فیصلے کیے۔ 1964 میں جنوبی افریقہ کو اولمپکس سے نکال دیا گیا۔ 1970 سے 1992 تک اپارتھائیڈ کی وجہ سے معطلی جاری رہی۔ 2023 میں روس پر سخت ترین کارروائی کی گئی۔ تو پھر اسرائیل کے معاملے میں ہچکچاہٹ کیوں؟ کیا اس کی وجہ مغربی ممالک کی حمایت ہے؟ یا پھر کھیلوں کے اداروں میں سیاسی اثر و رسوخ؟ کھیلوں کے وکلا اور ماہرین اس تضاد کو کھلے الفاظ میں دہرا معیار قرار دے رہے ہیں۔ اسپین کے اسپورٹس منسٹر نے کہا کہ اگر روس پر پابندی لگ سکتی ہے تو اسرائیل پر بھی لگنی چاہیے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی یہی کہہ رہی ہیں کہ یہ "نسل کشی" کا معاملہ ہے، محض تنازعہ نہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ میلان میں ہونے والا آئی او سی اجلاس کیا فیصلہ کرتا ہے۔ کیا اسرائیل پر بھی وہی معیار لاگو ہوگا جو روس پر کیا گیا، یا پھر کھیلوں کو ایک بار پھر سیاسی طاقتوں کا آلہ کار بنایا جائے گا؟ اگر آئی او سی نے اسرائیل کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا تو اس کی ساکھ مزید کمزور ہو گی اور یہ تاثر مزید گہرا ہو گا کہ کھیل واقعی "غیرجانبدار" نہیں، بلکہ بڑے ممالک کے مفاد کے مطابق چلتے ہیں۔آئی او سی کا دہرا معیار کھیلوں کی روح کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اولمپکس کا مقصد دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہے، لیکن جب انصاف اور اصول سب کے لیے برابر نہ ہوں تو یہ مقصد کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ کھیلوں کی ساکھ اسی وقت بچ سکتی ہے جب آئی او سی تمام ممالک کے لیے ایک جیسا رویہ اپنائے، چاہے وہ روس ہو یا اسرائیل۔
#IOC #DoubleStandards #Olympics #Israel #Palestine #Russia #SportsPolitics #HumanRights #OlympicCharter #Gaza #Accountability #SportsIntegrity
|