بھارت کا اولمپکس خواب اور ڈوپنگ حقیقت: کھیلوں کا "ماما جی" یا کھیلوں کی دنیا کا بحران؟
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
دنیا بھر میں کھیلوں کی سیاست اور سفارت کاری کوئی نئی بات نہیں۔ مگر جب بات بھارت کی ہو تو یہ معاملہ محض سفارت کاری یا کھیلوں کی ترقی تک محدود نہیں رہتا بلکہ "بالادستی" کی ایک ایسی دوڑ بن جاتا ہے جس میں کھیل کے اصول، شفافیت اور دیانتداری کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بھارت ہر بڑے کھیل کے ایونٹ میں اپنے آپ کو "ماما جی" کے طور پر پیش کرتا ہے، گویا ایشیائی کھیلوں، کرکٹ یا اب اولمپکس کے بغیر اس کا وجود ہی ممکن نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب خود بھارت کے اولمپک چیمپئن نیرج چوپڑا کھل کر کہہ دیتے ہیں کہ "ہمارے کھلاڑی سخت محنت کے بجائے ممنوعہ ادویات کا سہارا لیتے ہیں"، تو آخر یہ ملک کس اخلاقی جواز پر 2036 کے اولمپکس کی میزبانی کا خواب دیکھ رہا ہے؟
نیرج چوپڑا صرف ایک کھلاڑی نہیں، بلکہ وہ بھارت کے اولمپک خواب کا سب سے بڑا استعارہ ہیں۔ ٹوکیو 2021 میں سونے کا تمغہ جیت کر انہوں نے تاریخ رقم کی اور پیرس 2024 میں دوبارہ کامیابی نے انہیں "قومی ہیرو" بنا دیا۔ مگر انہی چوپڑا نے اعتراف کیا کہ بھارت میں بڑی تعداد میں کھلاڑی ڈوپنگ کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ محض ایک ذاتی رائے نہیں بلکہ ایک ایسا انکشاف ہے جو بھارت کے اسپورٹس سسٹم کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
اعدادوشمار اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی (WADA) کے مطابق صرف 2023 میں بھارت نے 5,606 ٹیسٹ کیے جن میں سے 213 مثبت آئے۔ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مادہ اسٹینوزولول تھا، جو ایک مشہور انابولک اسٹیرائڈ ہے۔ یہ محض چند حادثاتی کیسز نہیں بلکہ ایک مسلسل بڑھتا ہوا رجحان ہے، اور حیرت انگیز طور پر یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب بھارت اولمپکس 2036 کے لیے اپنی بولی تیار کر رہا ہے۔
بھارت میں کھیل محض کھیل نہیں بلکہ "سرکاری نوکری" کا راستہ ہے۔ ایک میڈل پولیس، فوج یا کسی سرکاری ادارے میں محفوظ مستقبل کی ضمانت دیتا ہے۔ ایسے میں نوجوان کھلاڑی، خاص طور پر نچلے طبقے سے آنے والے، ڈوپنگ کو "خطرہ" نہیں بلکہ "مواقع" سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔ کچھ کوچز کھلے عام ایتھلیٹس کو ممنوعہ ادویات لینے پر اکساتے ہیں، کیونکہ میڈل جیتنے سے ان کی اپنی نوکریاں اور عہدے بھی محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اس پس منظر میں ڈوپنگ بھارت میں ایک فرد کا ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ ایک "سسٹمک مسئلہ" ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایتھلیٹکس اور ریسلنگ جیسے کھیل سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ حال ہی میں 19 ریسلرز معطل ہوئے جن میں ریٹیکا ہوڈا جیسی نوجوان اسٹار بھی شامل ہیں، جو پیرس اولمپکس میں کوارٹر فائنل تک پہنچی تھیں۔
بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (IOC) صاف کہہ چکی ہے کہ کسی ملک کو میزبانی دینے سے پہلے اس کی "اینٹی ڈوپنگ پالیسی اور گورننس" مضبوط ہونی چاہیے۔ مگر سوال یہ ہے کہ بھارت اس معیار پر پورا کیسے اتر سکتا ہے؟ جب ملک کے اپنے سب سے بڑے اسٹار کھلاڑی نظام پر انگلی اٹھا رہے ہیں تو دنیا کیسے یقین کرے کہ 2036 میں وہاں ہونے والے اولمپکس صاف اور شفاف ہوں گے؟بھارت کا ریکارڈ بھی کسی طرح اعتماد پیدا نہیں کرتا۔ 2010 کے دہلی کامن ویلتھ گیمز آج بھی بدعنوانی اور بدنظمی کی بدترین مثال سمجھے جاتے ہیں۔ کھیلوں کے مقامات پر تاخیر، ناقص انتظامات اور اربوں روپے کی کرپشن نے بھارت کو دنیا بھر میں شرمندہ کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا ملک اولمپکس جیسے بڑے ایونٹ کو شفافیت کے ساتھ کیسے مینج کرے گا؟
بھارت کی پالیسی یہ لگتی ہے کہ جہاں بھی کھیلوں کی سیاست ہے وہاں "ہم نہ ہوں"۔ ایشین کرکٹ کونسل کو دیکھ لیں، جہاں ہر بڑے فیصلے کا مرکز بھارت ہے۔ آئی پی ایل نے دنیا بھر کی کرکٹ کو اپنے شیڈول کا یرغمال بنا لیا ہے۔ چھوٹے بورڈز کے لیے بھارتی اثرورسوخ سے نکلنا ناممکن ہو گیا ہے۔ اب یہی رجحان اولمپکس تک پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔اولمپکس 2036 کی بولی میں بھارت اپنے بڑے اسٹیڈیمز اور اربوں ڈالر کی معیشت دکھا کر یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ دنیا کو ایک "سپرفورس" میزبان ملے گا۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا کھیلوں کی ساکھ صرف اسٹیڈیمز اور پیسوں سے بنتی ہے یا صاف اور دیانتدار ایتھلیٹس سے؟
بھارت کا اصل مقصد کھیلوں کو سفارت کاری کا ہتھیار بنانا ہے۔ جیسے ایشین کرکٹ کونسل کے ذریعے پورے خطے کی کرکٹ پر اپنی اجارہ داری قائم کی، ویسے ہی اولمپکس کو بھی اپنی طاقت کے اظہار کا پلیٹ فارم بنایا جا رہا ہے۔ مگر دنیا کے دیگر ممالک، خصوصاً قطر، ترکی اور انڈونیشیا بھی 2036 کی دوڑ میں ہیں۔ ان ممالک نے کم از کم اپنے کھلاڑیوں پر اس سطح کے ڈوپنگ اسکینڈلز نہیں دیکھے۔ ایسے میں اگر بھارت کو میزبانی ملتی ہے تو یہ صرف کھیلوں کا نہیں بلکہ انصاف اور شفافیت کے عالمی اصولوں کا بھی مذاق ہو گا۔
اولمپکس صرف کھیلوں کا میلہ نہیں بلکہ "فیئر پلے" کا عالمی برانڈ ہے۔ مگر اگر ڈوپنگ اسکینڈلز میں ڈوبا ہوا بھارت 2036 کی میزبانی حاصل کر لیتا ہے تو یہ برانڈ اپنی اخلاقی ساکھ کھو دے گا۔ دنیا بھر کے نوجوانوں کو یہ پیغام جائے گا کہ محنت اور دیانتداری ثانوی ہیں، اصل چیز معیشت اور سیاست ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں IOC کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کھیلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتی ہے یا بھارتی پیسے اور سیاسی اثرورسوخ کو ترجیح دینا چاہتی ہے۔
بھارت بلاشبہ ایک بڑی معیشت اور ڈیڑھ ارب لوگوں کا ملک ہے۔ اس کے پاس انفراسٹرکچر بنانے کی صلاحیت بھی ہے اور بڑے ایونٹس کے لیے وسائل بھی۔ مگر کھیل صرف عمارتوں اور بجٹ سے نہیں بنتے۔ کھیل اس جذبے کا نام ہے جو نوجوان ایتھلیٹس کو ایمانداری سے آگے بڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ اگر یہ جذبہ ڈوپنگ اور شارٹ کٹ سے آلودہ ہو جائے تو میڈلز خواہ کتنے بھی آ جائیں، اصل جیت کبھی حاصل نہیں ہوتی۔اولمپکس 2036 کے خواب دیکھنے والا بھارت اگر واقعی دنیا کو متاثر کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے کھلاڑیوں کو صاف اور دیانتدار کھیل کی ضمانت دینی ہوگی۔ ورنہ یہ خواب صرف ایک فریب رہ جائے گا جس میں اسپورٹس کا "ماما جی" اپنی سیاست تو کھیلتا رہے گا لیکن دنیا کھیلوں کو اس کی آنکھوں سے دیکھنے پر کبھی راضی نہیں ہوگی۔
#IndiaSports #Olympics2036 #AntiDoping #NeerajChopra #SportsPolitics #IOC #CleanSports #SportsCorruption #AsianCricketCouncil #FairPlay
|