کھیل یا سرکس؟ حیات آباد اسٹیڈیم کی حیران کن کہانی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور: آخری دن حیات آباد اسٹیڈیم میں راولپنڈی اور کراچی کا میچ جاری تھا، لیکن کھیل کے ساتھ ساتھ ایک الگ ہی ڈرامہ بھی چل رہا تھا۔ کھلاڑی میدان میں اپنی پوری جان لگا رہے تھے، لیکن وہ “حقیقی چیلنج” دراصل اسٹیڈیم کی انتظامیہ کی طرف سے پیش کیا جا رہا تھا۔ ہاں، وہی انتظامیہ جسے لگتا ہے کہ کھلاڑی صرف گیند اور بلے کے لیے آئے ہیں، اور پانی، چھاو¿ں یا واش روم جیسی معمولی چیزیں صرف فضول ہیں۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں پویلین کی۔ دونوں پویلینز لاک کیے گئے ہیں، گویا کھلاڑیوں کو پتا ہی نہ چلے کہ انسان بھی ہیں، وہ تو کھیلنے کے لیے آئے ہیں۔ تو سمجھو، کھلاڑی جو دن بھر دوڑتے اور چھلانگیں لگاتے ہیں، اچانک یہ سوچ میں مبتلا ہو گئے کہ “واش روم کہاں ہے؟” اور سنبھالنے والا کوئی نہیں۔ بعض کھلاڑی پانی کی تلاش میں ایسے بھاگ رہے تھے جیسے کسی خزانے کی تلاش میں ہوں، اور اکثر اوقات راستے میں پاو¿ں پھسلنے یا گیند سے لگنے کا خطرہ بھی تھا۔
اب امپائرز کا حال سنو۔ امپائرز روم بھی بند! جی ہاں، وہ کمرہ جو بنیادی انسانی ضروریات اور بازی کے اصولوں کے لیے بنایا گیا تھا، آج “خاص حفاظتی انتظامات” کے تحت لاک کیا گیا۔ نتیجہ؟ امپائرز دھوپ میں میدان کے کنارے بیٹھے ہوئے، ایسے جیسے کسی عوامی جلسے میں عام سامعین۔ سورج کی تپش، پسینہ، اور کبھی کبھی کھلاڑی کی گیند کا چھکا — سب کچھ امپائرز کے حصے میں آیا۔
مستقبل کے یہ کھلاڑی، جو شاید کل پاکستان کے بین الاقوامی ستارے بنیں گے، آج زمین پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے۔ جی ہاں، کروڑوں روپے سے بنی حیات آباد سپورٹس کمپلیکس کی شان و شوکت تو سب نے دیکھی، لیکن سہولیات؟ وہ شاید کسی نے یاد ہی نہ رکھی۔
انتظامیہ کہاں ہیں؟ کیا انہیں پتہ نہیں کہ یہ میچز پی سی بی کے لیے بین الاقوامی کھلاڑی پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں؟ یا وہ سمجھتے ہیں کہ کھلاڑی خود پیدا ہو جائیں گے، سہولتوں کی ضرورت نہیں۔ اگر مستقبل میں بھی ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان یہاں کھیلیں اور بین الاقوامی سطح پر پہنچیں، تو بنیادی سہولیات دینا ناگزیر ہے۔
زمین پر بیٹھ کر کھانے والے کھلاڑی، دھوپ میں پسینہ بہاتے امپائرز، اور تالے سے بند پویلینز — یہ منظر نہ صرف مزاحیہ ہے بلکہ سنجیدہ تنبیہ بھی ہے۔ کروڑوں کی عمارت میں اتنی سادگی؟ یہ شاید کسی کمڈین فلم کا سین لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ہمارا کھیل ہے، ہمارا مستقبل۔ اگر سہولیات نہیں دیں گے، تو پھر سوال یہ ہے کہ مزید میچز یہاں کیسے ممکن ہوں گے؟ اور شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ کھلاڑی اگلے ہفتے بھی “زمین پر کھانے کے مزے” لینے کو تیار ہوں۔
اختتاماً یہ کہا جا سکتا ہے کہ آخری دن کے میچ میں اصل مقابلہ کھلاڑیوں اور امپائرز کی برداشت کا تھا۔ اگرچہ گیند، بلے اور گولز سب موجود تھے، لیکن حقیقی کہانی وہ ہے جو پچھلے حصے میں چھپی ہوئی ہے: پویلینز لاک، واش روم بند، امپائرز دھوپ میں، اور انتظامیہ شاید خوابوں کی دنیا میں۔
یہ صورتحال پاکستان کے کھیلوں کے انتظامی نظام کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے: کیا ہم واقعی کھلاڑیوں اور آفیشلز کی بھلائی کے لیے کام کر رہے ہیں، یا صرف کھیل کے منظر کو دکھاوا سمجھ رہے ہیں؟ حیات آباد اسٹیڈیم کا یہ منظر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کھیل کی خوبصورتی تبھی قائم رہ سکتی ہے جب کھلاڑی اور امپائرز محفوظ، آرام دہ اور سہولیات سے بھرپور ماحول میں کھیل سکیں۔
#SportsManagement #PlayersRights #CricketPakistan #SportsFacilities #HyatabadStadium #KarachiVsRawalpindi #PakistanSports #ShamefulManagement #SportsComedy #CricketHumor
|