کھیلوں کے نام پر “ہیومن ہاکی ایکسپریس”: 22 کھلاڑی غائب، سپورٹس حکام کی آشیرباد جاری!
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پاکستانی کھیلوں کی دنیا نے حال ہی میں ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے، اور اس بار ریکارڈ صرف کھیل کے لیے نہیں بلکہ “ایڈونچر اور انسانی اسمگلنگ” کے شعبے میں بھی ہے۔ پہلے فٹسال، پھر اسکواش، اور اب ہاکی۔ لگتا ہے کہ ہمارے کھلاڑی “انٹرنیشنل وینچر ٹور” کے دیوانے ہیں، لیکن این او سی یا اجازت لینے کی عادت نہیں رکھتے۔ نتیجہ؟ 28 کھلاڑی بیرون ملک گئے اور 22 کھلاڑی غائب!
چھ کھلاڑی واپس لوٹے، شاید کھانے، گھر کے سالن یا موبائل ڈیٹا یاد آ گیا۔ باقی 22؟ کسی کو پتہ نہیں۔ شاید وہ نیو زیلینڈ کی ہاکی ٹیم میں شامل ہو گئے، کسی فارم ہاوس میں چھپ گئے، یا پھر “ہیومن ہاکی ایکسپریس” پر اپنی زندگی کا ایڈونچر لے رہے ہیں۔اس اسکینڈل میں ملوث افراد سپورٹس حکام کی آشیرباد سے کام لے رہے ہیں۔ ہاں، وہی آشیرباد جو کھلاڑیوں کے پاس این او سی کے بجائے “خوشبو دار دعا” کی شکل میں آتی ہے۔ یعنی کھلاڑی جاتے ہیں اور حکام پیچھے سے ہاتھ ہلا کر کہتے ہیں: “چلو بھئی، مزہ کرو!” این او سی؟ وہ کیا ہوتا ہے؟ بس کھانے کی بسکٹ میں ڈال دیتے ہیں۔
اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اب تک کسی نے اس پر سوال نہیں کیا۔ نہ میڈیا، نہ حکام، نہ کوئی ریاکشن۔ گویا 22 کھلاڑی غائب ہوئے، لیکن کسی کی آنکھیں بند ہیں، کان بند ہیں، اور قلم بھی کسی فائل میں دب گیا ہے۔اب ذرا کھلاڑیوں کی سوچ پر غور کریں: “ہم ہاکی کھیلنے گئے ہیں، لیکن اگر ہم تھوڑا سا ایڈونچر شامل کریں، تو دنیا بھر میں ہمارا نام بھی آگیا!” شاید یہی سوچ کر 22 کھلاڑی غائب ہوگئے۔ اور چھ کھلاڑی واپس آئے کیونکہ انہیں یاد آیا کہ گھر کا کھانا، ماں کے ہاتھ کا سالن، اور موبائل ڈیٹا سب سے زیادہ ضروری ہے۔
پاکستان میں کھیلوں کی دنیا میں ہر کھیل کے ساتھ انسانی اسمگلنگ کا نیا فارمولا آ رہا ہے۔ فٹسال کے کھلاڑی، اسکواش کے کھلاڑی، اور اب ہاکی کے کھلاڑی – سب نے عالمی سطح پر نعرہ لگا دیا ہے: “ہم کھیلنے بھی آتے ہیں، اور غائب بھی ہوجاتے ہیں!”ذرا سوچیں، اگر کوئی اینکر یہ خبر پڑھے، تو سامعین کا ردعمل کیسا ہوگا:“سر، ہماری ہاکی ٹیم کے 22 کھلاڑی لاپتہ ہیں، اور باقی چھ نے واپسی کے لیے انٹرنیشنل فلائٹ بک کی ہے۔” سامعین: “واہ، ٹورزم کا نیا پروگرام!”
یہ مزاح صرف دکھاوے کا نہیں بلکہ حقیقت کی عکاسی بھی ہے۔ یہ اسکینڈل ہمیں بتاتا ہے کہ کھیلوں کے شعبے میں شفافیت کا معیار اب صرف کاغذ پر ہے۔ کھلاڑی جا رہے ہیں، واپس آ رہے ہیں یا نہیں، یہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور حکام کی آشیرباد مسلسل جاری ہے: “چلو بھئی، مزہ کرو، کوئی بات نہیں!” پاکستانی شائقین اب حیران ہیں: کیا یہ واقعی کھیل ہیں، یا صرف بین الاقوامی کھلاڑیوں کا “ایڈونچر پارک”؟ کل تم نیو زیلینڈ، آج تم واپس، اور کل پھر کسی اور ملک کے لیے نکل پڑو۔ ہر کھیل کے ساتھ نئے ایڈونچر، نئے کھلاڑی، اور نئی کہانیاں۔
اگر کھیلوں کے نام پر کھلاڑی بیرون ملک جا رہے ہیں، تو حکام کو چاہیے کہ این او سی کے ساتھ ساتھ ان کا “ٹریول پلان” بھی چیک کریں۔ اور کھلاڑیوں کو چاہیے کہ وہ واپس آ کر اپنی ماں کے ہاتھ کا سالن بھی یاد رکھیں۔ یہ اسکینڈل بتاتا ہے کہ کبھی کبھی کھلاڑی کھیل نہیں بلکہ “زندگی کے تجربات” لینے کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں۔ یہ سب ہمیں ہنسنے کا موقع بھی دیتا ہے اور سنجیدگی سے سوچنے کا بھی۔ مزاحیہ سنسنی کے باوجود، انسانی اسمگلنگ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اگر حکام نے اس پر سنجیدہ قدم نہ اٹھایا، تو شاید فٹبال، اسکواش اور ہاکی کے بعد کرکٹ بھی اس فہرست میں شامل ہو جائے۔
یہ سب کھلاڑی شاید اپنی “انٹرنیشنل ہاکی مہم” میں اتنے مصروف ہیں کہ واپسی کا پلان ہی بھول گئے۔ یا پھر حکام نے فیصلہ کیا کہ بہتر ہے کہ یہ سب راز ہی رہیں، تاکہ اگلی نسل کے کھلاڑی بھی جانیں کہ کھیلوں کے نام پر بیرون ملک جانا کبھی کبھار “لازمی ایڈونچر” ہوتا ہے۔پاکستانی شائقین کے لیے سوال یہی ہے: کیا یہ واقعی کھیل ہیں، یا بین الاقوامی کھلاڑیوں کا “ایڈونچر پارک”؟ اور سب سے بڑا سوال: کب کوئی اس پر شفاف انکوائری کرے گا؟
#ہیومن_ہاکی_ایکسپریس #HockeyScandal #SportsCorruption #MissingPlayers #PakistanHockey #SarkariAshirbad #InternationalAdventure #SportsDrama #PakistanSports #HockeyGoneWild #HumanHockeyExpress #SportsComedy #PakistanHockeyNews
|