پختون یار کی وزارت کا جادو: پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ سے کھیلوں تک کا سفر
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پختون یار، جو طویل عرصے تک پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کے وزیر رہے، اچانک ایک جھٹکے میں وزارت کھیل کے قلمدان سنبھال بیٹھے۔ اور ساتھ ہی، وزارت کھیل کے موجودہ وزیر کو پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کا چارج دے دیا گیا۔ یہ تبدیلی ایسے منظرنامے کو جنم دے رہی ہے جسے دیکھ کر عوام حیران بھی ہیں اور محظوظ بھی۔ ایسا لگتا ہے جیسے وزراءکو ایک بورڈ گیم کی طرح صرف ایک خانہ سے دوسرے خانہ میں منتقل کیا گیا ہو۔
سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ یہ تبدیلی کیوں کی گئی؟ کیا پختون یار کی پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ میں کارکردگی ناقص تھی؟ یا وزیر کھیل کی کارکردگی اتنی شاندار نہیں تھی کہ انہیں کھیلوں کے محکمے سے نکال کر ایک تکنیکی وزارت دی گئی؟ یا پھر یہ صرف ایک سیاسی شطرنج کا کھیل ہے جس میں عوام کی صحت اور کھیلوں کی ترقی دونوں صرف ایک سیٹ میں بٹھا دیے گئے ہیں؟وزارتوں کی یہ تبدیلی اتنی غیر متوقع ہے کہ مقامی شہری بھی اب سر ہلا کر سوال کر رہے ہیں: اگر وزیر کھیل کو اچانک پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ دی جا سکتی ہے، تو کل کوئی اور وزیر کہیں بھی جا سکتا ہے۔ شاید آنے والے دنوں میں ہم دیکھیں گے کہ وزیر خزانہ کو اچانک تعلیمی امور دے دیے جائیں، یا وزیر تعلیم کو پولیس کے کام سونپ دیے جائیں۔ یہ وہی سیاسی جادو ہے جس میں عہدے صرف بطور کھیل یا ٹرافی منتقل کیے جاتے ہیں۔
اب ذرا تفصیل سے دیکھیں کہ پختون یار کو کھیلوں کی وزارت سونپنا کیا معنی رکھتا ہے۔ پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کی وزارت میں وہ پانی کے پائپ لائن، سیوریج اور دیگر بنیادی سہولیات کے چارج میں تھے، جہاں ایک غلط فیصلہ لاکھوں شہریوں کے لیے مسائل پیدا کر سکتا تھا۔ اب وہ کھیلوں کی وزارت کے انچارج ہیں، جہاں کھلاڑیوں کے ٹریننگ کی کوالٹی، کھیلوں کے ایونٹس کی منصوبہ بندی اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیلوں کی ترقی ان کے فیصلوں پر منحصر ہے۔ بظاہر یہ تبدیلی عوام کے لیے اچھی خبر لگ سکتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پختون یار کے پاس کھیلوں کی دنیا کا تجربہ ہے؟ یا انہیں صرف “وزیر” کے رعب اور اختیار کے لیے یہ وزارت دی گئی ہے؟
دوسری طرف، جو وزیر کھیل تھے، انہیں پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کی وزارت سونپ دی گئی۔ یہ وہ وزارت ہے جہاں لاکھوں شہریوں کی صحت اور بنیادی سہولیات پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ اگر یہ وزیر کھیل کی طرز کے مطابق کام کریں تو ہو سکتا ہے کہ ہر ٹرنک میں دوڑ لگانے کی تقریب یا ہر نالے میں فٹ بال میچ منعقد کر دیا جائے۔ یعنی عوام کی صحت اور پانی کی سپلائی پر کھیلوں کی طرح غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیا جائے۔اس پورے منظرنامے میں سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عوام کے پاس اس تبدیلی کی وضاحت کے لیے کوئی واضح دلیل نہیں دی گئی۔ نہ تو وزراء نے خود یہ بتایا کہ تبدیلی کیوں ہوئی، اور نہ ہی حکومتی ترجمانوں نے کوئی وضاحت دی۔ یہ صورتحال طنزاً اس بات کی دلیل بنتی ہے کہ بعض اوقات سیاست میں عوام کی پرواہ سب سے کم ہوتی ہے اور عہدے محض سیاسی کھیل کے پیادے ہوتے ہیں۔
مزاحیہ پہلو یہ بھی ہے کہ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی وزیر کو مستقبل میں “وزارت بدل بھائی” کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ واقعی، وزارتوں کی یہ تبدیلی اب صرف ایک معمولی عمل یا طنز کا حصہ لگتی ہے۔ عوام کی سوچ میں یہ سوال گھوم رہا ہے کہ کیا یہ تبدیلی کارکردگی کی بنیاد پر ہے، یا صرف کسی نے دفتر میں چائے پیتے ہوئے فیصلہ کر دیا کہ آج پختون یار کھیلوں کے وزیر بنیں، اور وزیر کھیل پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کے وزیر؟
اگر ہم اس صورتحال کا تجزیہ کریں تو چند دلچسپ نتائج نکلتے ہیں: پختون یار کی نئی ذمہ داریاں: اب انہیں کھلاڑیوں کی تربیت، کھیلوں کے پروگرامز اور قومی ایونٹس کی منصوبہ بندی پر دھیان دینا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کے پاس اس نوعیت کا کوئی تجربہ ہے؟ یا انہیں بس وزیر کا رعب دکھانے کے لیے یہ وزارت دی گئی ہے؟ وزیر کھیل کی نئی ذمہ داریاں: اب وہ پانی کی لائنوں، سیوریج، پبلک ہیلتھ کے منصوبوں اور شہریوں کی صحت کے معاملات دیکھیں گے۔ اگر وہ کھیلوں کی طرح ہر مسئلے کو فٹ بال یا کرکٹ کے میچ میں بدلنے لگیں تو شہریوں کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ عوامی ردعمل: شہری سر ہلا کر دیکھ رہے ہیں اور طنزاً یہ سوال کر رہے ہیں کہ کب یہ سلسلہ ختم ہوگا۔ شاید کل کوئی اور وزیر بھی اپنی وزارت چھوڑ کر کسی اور شعبے میں چلے جائیں، اور عوام صرف ہنس کر دیکھیں۔
جب وزارتیں اس طرح صرف سیاسی یا ذاتی بنیادوں پر تبدیل کی جاتی ہیں، تو پالیسی کی مستقل مزاجی متاثر ہوتی ہے۔ کوئی طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں ہوتی، اور عوام کے مسائل پس منظر میں رہ جاتے ہیں۔ اس پورے معاملے میں سب سے مزاحیہ پہلو یہ ہے کہ یہ تبدیلی نہ تو عوام کی زندگی بہتر بناتی ہے، نہ ہی وزرائ کی کارکردگی کا اندازہ لگاتی ہے۔ بلکہ یہ صرف ایک دلچسپ سیاسی کھیل کے طور پر سامنے آتی ہے، جس میں عوام کے مسائل صرف پس منظر کی شکل میں موجود رہتے ہیں۔ اور سب سے آخر میں، عوام بس یہ سوچتے رہ جاتے ہیں: “آج وزیر کہاں ہیں، اور کل وہ کہاں ہوں گے؟”
یہ صورتحال ایک سبق بھی دیتی ہے: عوام کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ سیاسی کھیل کی پیچیدگیوں کو سمجھیں اور وزراءکی کارکردگی اور تبدیلیوں پر نظر رکھیں۔ ورنہ وزارتوں کی یہ تبدیلیاں صرف طنز اور مزاح کے لیے ایک زبردست مواد فراہم کرتی رہیں گی۔آخر میں ایک طنزیہ نکتہ: اگر آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہا، تو عوام جلد ہی یہ کہنے لگیں گے کہ: “وزارت بدل بھائی، اب صحت بھی کھیل، اور کھیل بھی صحت بن گیا ہے!”
#ministry #sports #kpk #kp #pakistan #change #nayapkistan #games
|