عادل خان سوئمنگ پول: کلورین، پیشاب اور کروڑوں روپے کا کمال
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور کے عادل خان سوئمنگ پول کی کہانی کسی مزاحیہ ڈرامے سے کم نہیں۔ یہاں نہ صرف کھلاڑی ڈبکیاں لگاتے ہیں بلکہ نوٹ بھی ڈبکیاں لگاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس کھیل کے ذریعے ملک کے لئے میڈلز آنے چاہئیں، وہاں صرف آمدنی کے اعداد و شمار بڑھتے جا رہے ہیں۔گزشتہ سال پول نے ایک شاندار "کارنامہ" انجام دیا: 97 لاکھ روپے کی کمائی۔ جی ہاں، ستانوے لاکھ۔ اس وقت بھی پانی کلورین اور "قدرتی اجزائ " سے بھرا ہوا تھا۔ سوئمرز پانی میں غوطے لگاتے تھے اور ساتھ ساتھ ایک ایسا "کاک ٹیل" بھی پیتے تھے جو ان کی قوت مدافعت کو خود بخود بڑھا دیتا تھا۔ کوئی علیحدہ ویکسین لگوانے کی ضرورت نہیں۔کسی نے کہا کہ پول میں نہانے کے بعد جسم میں اتنی کلورین جمع ہو جاتی ہے کہ اگر سوئمر کسی دن نل کھولے تو صاف پانی کے بجائے کلورین کی خوشبو آتی ہے۔
اب کی بار تو کمال ہی ہوگیا۔ ایک کروڑ بیس لاکھ روپے۔ جی ہاں، 97 لاکھ سے بھی زیادہ۔ گویا ہر سال نہ صرف پانی بڑھ رہا ہے بلکہ آمدنی بھی بڑھ رہی ہے۔ پہلے جب پول صرف 40 سے 45 لاکھ روپے کماتا تھا تو بیس لاکھ مرمت پر لگ جاتے اور باقی بیس لاکھ بچ جاتے۔ اس وقت تربیتی سیشن بھی ہوتے تھے، کھلاڑی زیادہ تھے اور کھیل کا پہیہ کسی حد تک چل رہا تھا۔اب معاملہ الٹا ہے: کھلاڑی کم ہیں، تربیت نہیں، مقابلے غائب، لیکن پیسہ آسمان کو چھو رہا ہے۔یہ پول صرف پیسہ بنانے کا مرکز نہیں بلکہ ایک "رشتہ دار روزگار اسکیم" بھی ہے۔ یہاں ایسے لائف گارڈ بھرتی ہوئے جو خود سوئمنگ سے زیادہ ڈوبنے کے ماہر تھے۔ کچھ ایسے معذور افراد بھی لائف گارڈ بن گئے جنہیں خود سہارا چاہئے تھا۔ پھر اسکول کے لڑکے شام کو پول میں نہا کر تنخواہیں بھی لیتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ گزشتہ سال کے 97 لاکھ کہاں گئے؟ اس سال کے ایک کروڑ بیس لاکھ کہاں جائیں گے؟ پول کی حالت تو وہی ہے: ٹائلیں ٹوٹی ہوئی ہیں، کرسیاں خراب ہیں، انفراسٹرکچر تباہ حال ہے۔ نہ کوئی مرمت، نہ کوئی نیا سامان۔کھلاڑی کہاں گئے؟ تربیتی سیشن کہاں گئے؟ وہ بچے کہاں ہیں جو پاکستان کا نام روشن کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے؟یہاں ہر کوئی ایماندار ہے۔ وقت پر حاضری لگاتا ہے، ڈیوٹی کرتا ہے، لیکن جیسے ہی اپنے بچوں کی بات آتی ہے تو وہ "ڈیلی ویجز" پر دوسرے اضلاع میں بھرتی ہو جاتے ہیں۔ یہاں ایمانداری کا فلسفہ کلورین میں تحلیل ہو جاتا ہے۔
کروڑوں روپے کی آمدنی تو دکھائی دیتی ہے لیکن کھلاڑیوں کے لئے کیا کیا گیا؟ کیا نیا سامان خریدا گیا؟ کیا سوئمنگ کٹس، کپ، چشمے یا تربیتی آلات فراہم کیے گئے؟ کیا کسی کھلاڑی کو پروفیشنل کوچ ملا؟جواب ہے "نہیں"۔کھلاڑی آج بھی اپنی جیب سے سامان خریدتے ہیں۔ اگر کسی نے سوئمنگ کے چشمے پہننے ہوں تو بازار سے اپنی جیب خرچ سے لاتا ہے۔ ادارہ صرف دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ خزانہ بھر رہا ہے۔
دنیا کے بڑے سوئمرز کو پروفیشنل ڈائٹ پلان ملتا ہے۔ پروٹین شیک، سپلیمنٹس، خاص خوراک۔ لیکن ہمارے کھلاڑیوں کو کیا ملتا ہے؟ ایک ہی ڈائٹ: "گھر جا کے جو ملے کھالو۔" اگر کھلاڑی کے حصے میں آلو کی ترکاری آگئی تو شکر۔ ورنہ پانی پی کر سو جاو۔ اب اس ڈائٹ کے ساتھ عالمی مقابلوں میں میڈل جیتنے کی توقع رکھنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے پیشاب بھرے پول میں ڈبکی لگا کر خوشبو آنے کی امید رکھنا۔ کیا کھلاڑیوں کو کسی بڑے مقابلے کے لئے تیار کیا گیا؟ کیا کسی کوچنگ کیمپ کا انعقاد ہوا؟ کیا کسی انٹرنیشنل ایونٹ میں بھیجنے کے لئے منصوبہ بنایا گیا؟جواب پھر "نہیں"۔
ہمارے عہدیداروں کے نزدیک مقابلہ صرف کاغذ پر ہوتا ہے۔ عملی طور پر کھلاڑی بس پول میں چھلانگ لگاتے ہیں، تیرتے ہیں اور گھر چلے جاتے ہیں۔ اگر کہیں نمائندگی کرنی بھی ہو تو انہی "رشتہ دار لائف گارڈز" کو آگے کر دیا جاتا ہے۔یہ صرف پشاور کا قصہ نہیں۔ مردان ‘ چارسدہ ‘ کوہاٹ ‘ حیات آباد میں بھی سوئمنگ پولز ہیں۔ کبھی وہاں کھلاڑیوں کا رش رہتا تھا۔ اب وہاں پانی کے بجائے مایوسی تیرتی ہے۔ کھلاڑی اپنی جیب سے سامان خریدتے ہیں، جیب سے فیس دیتے ہیں اور آخر میں خالی ہاتھ لوٹتے ہیں۔ وہاں بھی آمدنی لاکھوں میں ہے لیکن انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ نہ سہولت ہے نہ حوصلہ افزائی۔
آج صورتحال یہ ہے کہ سوئمنگ پول کھیل کا مرکز نہیں بلکہ کاروبار کا مرکز بن گیا ہے۔ پیسہ ہر سال بڑھ رہا ہے لیکن کھیل پیچھے جا رہا ہے۔ سوئمرز کی تربیت، سہولتیں اور مستقبل سب کچھ برباد ہو رہا ہے۔اگر کبھی "سوئمنگ پول بجٹ رپورٹ" شائع کی جائے تو شاید یوں ہوگی کلورین: 50% قدرتی اجزاء (پیشاب وغیرہ): 30% کھلاڑیوں پر خرچ: 0% عہدیداروں کی خوشیاں: 20%
دسمبر اور جنوری میں سب سے زیادہ مقابلے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ پیسہ پول کو گرم کرنے پر لگایا جا سکتا ہے تاکہ کھلاڑی آسانی سے پریکٹس کریں؟ نہیں۔ کیونکہ گرم پانی تو شاید کھلاڑیوں کو مل جائے، لیکن عہدیداروں کی جیبیں پھر ٹھنڈی پڑ جائیں گی۔نئے سال کے آنیوالے کھیلوں کے مقابلوں میں سوئمنگ کا ذکر تک نہیں ۔ حالانکہ چارسدہ، پشاور اور کوہاٹ سمیت مردان میں بڑے پول ہیں۔ لیکن چونکہ ڈائریکٹریٹ کے لئے یہ کھیل اہم نہیں، اس لئے کھلاڑی نظر انداز ہو گئے۔
ہاں، عوام کو ایک فائدہ ضرور ہے۔ اگر کوئی شہری اس پانی میں نہا لے تو ایک ساتھ سوئمنگ، امیونائزیشن اور الرجی ٹیسٹ سب ہو جاتے ہیں۔ کوئی بیماری ہو تو بس ایک غوطہ لگائیں، کلورین اور باقی اجزاء مل کر علاج کر دیتے ہیں۔آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ عادل خان سوئمنگ پول کھیل کے بجائے کاروبار کی علامت بن گیا ہے۔ یہاں کھیل کا نہیں بلکہ کیش کا میڈل جیتا جا رہا ہے۔ کھلاڑی اپنی محنت سے لڑتے ہیں مگر ڈائریکٹریٹ کے لئے اصل "گولڈ میڈل" وہ کیش ہے جو ان کی جیبوں میں جاتا ہے۔اگر یہی حال رہا تو مستقبل میں سوئمنگ پول کو "کلورین بینک لمیٹڈ" کہا جائے گا، جہاں نہ کھلاڑی ہوں گے نہ مقابلے، صرف نوٹوں کے غوطے لگائے جائیں گے۔
#SportsCorruption #SwimmingPakistan #KhyberPakhtunkhwa #SportsJournalism #SwimmingPool #CorruptionExposed #SportsMismanagement #PakSports #KPKSports #AthletesNeglected #ComedyCriticism #Satire
|