"افغان مہاجر کھلاڑی: خیبرپختونخوا کے کھیلوں کا غیر مرئی چیلنج"

پشاور، حیات آباد، عبد الولی خان چارسدہ، بنوں، کوہاٹ اور صوابی کے سپورٹس کمپلیکس—یہ وہ مقام ہیں جہاں نوجوانوں کی توانائی اور صلاحیتوں کو منظم کر کے ملک کا چہرہ روشن کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میدانوں میں کئی افغان مہاجرین کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں، خاص طور پر مارشل آرٹس اور باکسنگ میں۔ ان کی تعداد، جنس، کھیل کی سطح اور کوچنگ کے حوالے سے کوئی باقاعدہ سرکاری ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ نہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پاس کوئی مکمل معلومات ہیں، نہ کسی ایسوسی ایشن کے پاس۔ یہ خالی جگہ نہ صرف اعداد و شمار کی کمی بلکہ پالیسی سازی میں ایک سنگین رکاوٹ کی نمائندگی کرتی ہے۔

جب کوئی سرکاری ادارہ یہ نہیں جانتا کہ کتنے افغان مہاجر کھلاڑی مختلف کھیلوں میں حصہ لے رہے ہیں، تو اس کے اثرات تین سطحوں پر واضح ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے، ایتھلیٹس کی حفاظت اور حقوق کمزور رہتے ہیں۔ غیر رجسٹرڈ کھلاڑی قانونی تحفظ، طبی سہولیات اور تربیتی مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔ دوسرا، کوچنگ اور تربیت کے معیار کی پیمائش ممکن نہیں رہتی۔ جب یہ معلوم نہ ہو کہ کون سا کھلاڑی کس سطح کا ہے یا کون سا کوچ کس کھیل میں مہارت رکھتا ہے، تو منصوبہ بندی میں خامیاں آتی ہیں۔ تیسرا، نوجوانوں کے لیے باقاعدہ ترقیاتی راستے بند ہو جاتے ہیں۔ ٹیلنٹ اسکاو¿ٹنگ اور اکیڈمی سطح پر تربیت کے بغیر کھیل صرف وقتی سرگرمی بن کر رہ جاتے ہیں۔

مارشل آرٹ اور باکسنگ میں افغان مہاجرین کی شرکت سب سے زیادہ ہے۔ اس کی وجوہات بھی واضح ہیں۔ یہ کھیل کم لاگت والے ہیں اور زیادہ تر سہولت مراکز پر دستیاب ہیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں انہیں ذاتی تحفظ، خود اعتمادی اور سماجی شمولیت کے لیے ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کچھ مقامی اور بین الاقوامی پروگرام مہاجر خواتین اور بچوں کو نشانہ بنا کر انہی کھیلوں کی تربیت فراہم کرتے ہیں، تاکہ سماجی مفاد اور کمیونٹی انضمام کے پیغامات مضبوط ہوں۔ تاہم، ان کھلاڑیوں کو باقاعدہ شناخت یا قومی مواقع نہیں دیے جاتے، جس سے ان کی محنت اور قابلیت غیر مرئی رہ جاتی ہے۔

کوچز کے حوالے سے صورتحال اور بھی پیچیدہ ہے۔ افغان کوچز غیر رسمی طور پر کئی کلبوں اور جموں میں کام کر رہے ہیں۔ ان کے پاس مہارت اور تجربہ موجود ہے، مگر باقاعدہ سرپرستی، تربیتی لائسنس یا مالی تحفظ نہیں ہے۔ جب سرکاری سطح پر کوئی لائسنس یا معاوضے کا نظام موجود نہ ہو، تو یہ کوچز غیر مستحکم یا رضاکارانہ طور پر کام کرتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نوجوان کھلاڑی ترقی کے قابل ماحول سے محروم رہ جاتے ہیں اور باصلاحیت ٹیلنٹ ضائع ہو جاتا ہے۔

یہ مسائل محض کھیل کی سطح تک محدود نہیں ہیں۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی نے مہاجر کمیونٹیز کی زندگی کو مزید غیر یقینی بنا دیا ہے۔ سرحد پر جھڑپیں، ریپٹری ایشن اور غیر یقینی صورتحال افغان کھلاڑیوں کی شرکت اور مقامی قبولیت پر اثر ڈال رہی ہے۔ ان کھلاڑیوں کی نقل و حرکت محدود ہو جاتی ہے، دستاویزات اور رجسٹریشن کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، اور خوفِ واپسی کے باعث بہت سے نوجوان کھیل سے دور ہو جاتے ہیں۔

اس کے باوجود، کھیل مہاجر کمیونٹیز کے لیے خود اعتمادی، سماجی انضمام اور مثبت سرگرمی کا ذریعہ بھی ہیں۔ بین الاقوامی ادارے اور بعض مقامی ورکشاپس نے مہاجر خواتین اور بچوں کے لیے کھیل کو طاقتور ذریعہ بنایا ہے۔ یہ تجربات یہ واضح کرتے ہیں کہ مناسب سپورٹس پروگرام سماجی شمولیت کو بڑھا سکتا ہے، بشرطیکہ ان میں شفافیت، حفاظت اور پالیسی مدد موجود ہو۔خصوصی طور پر خواتین افغان مہاجر کھلاڑیوں کا معاملہ زیادہ حساس ہے۔ ان کے لیے تربیتی مراکز محفوظ اور باقاعدہ دستاویزات کے ساتھ ہونا لازمی ہیں۔ غیر رسمی یا غیر سرکاری تربیت محدود مواقع اور ناقص تحفظ فراہم کرتی ہے، جس سے خواتین کھلاڑی محض وقتی سرگرمی تک محدود رہ جاتی ہیں۔ یہ مسئلہ نہ صرف صنفی عدم توازن پیدا کرتا ہے بلکہ سماجی ترقی کے مواقع بھی محدود کر دیتا ہے۔

عملی سطح پر، صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو فوری طور پر ایک بنیادی رجسٹر تیار کرنا چاہیے جس میں کھلاڑیوں کی شناخت، جنس، عمر، کھیل کی سطح اور مہاجر یا مقامی حیثیت شامل ہو۔ افغان کوچز کے لیے باقاعدہ لائسنس، تربیتی سرٹیفیکیٹ اور معاوضے کے نظام کو واضح کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی خدمات قانونی طور پر تسلیم ہوں اور وہ مستقل طور پر کام کر سکیں۔ خاص طور پر خواتین کے لیے محفوظ تربیتی مراکز قائم کیے جائیں اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ شراکت کو مضبوط کیا جائے تاکہ فنڈنگ اور نگرانی شفاف رہے۔سرحدی کشیدگی اور سکیورٹی حالات کے پیش نظر کھیل کے پروگرام میں توازن پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ کھیل کے ذریعے انسانی ہمدردی، نوجوانوں کی تربیت اور سماجی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے باقاعدہ پالیسی اور قانونی فریم ورک لازمی ہے۔

پہلے مرحلے میں، سوال اٹھانا ضروری ہے: کتنے افغان مہاجر کھلاڑی مختلف کھیلوں میں حصہ لے رہے ہیں؟ کتنے مرد اور کتنی خواتین ہیں؟ کون سی سطح کے کھلاڑی ہیں؟ کتنے افغان کوچز باقاعدہ سرپرستی کے تحت کام کر رہے ہیں؟ جب تک یہ سوالات سرکاری سطح پر نہیں اٹھائے جائیں گے، افغان مہاجر کھلاڑی اپنی محنت کے باوجود غیر مرئی رہیں گے۔یہ صورتحال نہ صرف کھیل کی شفافیت کے لیے خطرہ ہے بلکہ نوجوانوں کے مستقبل اور صوبے میں کھیل کی ترقی کے لیے بھی بڑا چیلنج ہے۔ پالیسی ساز، کلب، میڈیا اور کمیونٹی کو مل کر یہ کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ کھیل محض تفریحی سرگرمی نہیں بلکہ شمولیت، حقوق اور مواقع کا ذریعہ بنے۔

یہ وقت ہے کہ ہم افغان مہاجر کھلاڑیوں کی غیر مرئی محنت کو دیکھیں، ان کی شناخت کو یقینی بنائیں اور کھیل کے شعبے میں شفافیت اور قانونی تحفظ فراہم کریں۔ بصورت دیگر، ہزاروں نوجوان جو اپنے خوابوں اور صلاحیتوں کے ساتھ میدانوں میں قدم رکھ رہے ہیں، مستقبل میں صرف اعداد و شمار کی کمی کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔

#AfghanAthletes #KPYouthSports #MartialArts #Boxing #SportsPolicyPK #RefugeeSports #KhyberPakhtunkhwa #YouthEmpowerment #SportsInclusion #AthleteRights

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 816 Articles with 676133 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More