کپتان کے صوبے میں کھیلوں کا جنازہ — خیبرپختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن بے یار و مددگار
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبرپختونخوا کو کھیلوں کا گڑھ کہا جاتا تھا۔ یہی صوبہ تھا جہاں سے ہاکی، فٹبال، باکسنگ، اتھلیٹکس، اسکواش اور ویٹ لفٹنگ کے درجنوں نامور کھلاڑی نکلے۔ مگر اب لگتا ہے کہ یہ روایت دم توڑ رہی ہے۔ خیبرپختونخواہ حکومت نے کورونا کے بعد سے مالی وسائل میں کمی کا رونا روتے ہوئے آج تک خیبرپختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا۔ یہ وہی ایسوسی ایشن ہے جو صوبے کی 38 کھیلوں کی تنظیموں کی نمائندگی کرتی ہے۔صوبے میں کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کی یہ صورتحال نہ صرف حیران کن ہے بلکہ قابلِ تشویش بھی۔ کیونکہ دوسری طرف پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں اولمپک ایسوسی ایشنز کو کروڑوں روپے کے فنڈز اور گرانٹس مل رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں کھیلوں کے نام پر آنے والے بجٹ کہاں جا رہے ہیں؟ اور کھیلوں کی وزارت اس خاموشی میں کیوں چھپی ہوئی ہے؟
کورونا کے بعد جب ملک کے تمام شعبے بحران سے گزر رہے تھے، حکومتوں نے بحالی کے لیے مختلف اداروں کو ریلیف دیا۔ مگر خیبرپختونخوا میں اولمپک ایسوسی ایشن کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔پنجاب اولمپک ایسوسی ایشن کو دو کروڑ روپے کی گرانٹ دی گئی، سندھ نے مختلف ایونٹس کے لیے سو کروڑ روپے جاری کیے، بلوچستان نے نیشنل گیمز کی میزبانی کے لیے فنڈز حاصل کیے۔ مگر خیبرپختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن آج بھی "گونگی بہری" بنی بیٹھی ہے — نہ کوئی فنڈ، نہ کوئی پروگرام، نہ کوئی جواب۔جبکہ ہر مرتبہ انہیں میٹنگ میں "ہو جائے گا "کالارا دیکر بہلایا جاتا ہے اور کھیلوں کی تنظیمیںیہ لارا لیکر بیٹھ جاتی ہیں.
یہ ایسوسی ایشن جو کبھی صوبے کے تمام کھیلوں کی روح سمجھی جاتی تھی، اب محض کاغذی دفتر بن چکی ہے۔ نہ کوئی سالانہ میٹنگ، نہ کھلاڑیوں کی تربیت کے کیمپس، اور نہ ہی کسی قومی یا بین الاقوامی ایونٹ میں شرکت کی تیاری۔بیشتر ایسوسی ایشن سے وابستہ کھلاڑی اپنی کوششوں سے مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں اور ریفرنسز سے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے فنڈز لیتے ہیں ‘حیران کن امر یہ ہے کہ سال 2025 میں بارہ سے زائد ایسوسی ایشنز کو ملنے والے سالانہ پانچ لاکھ روپے کے گرانٹ صرف چند کھلاڑیوں کو بیرون ملک دوروں کیلئے ملے ہیں ‘ جوکہ انفرادی طور پر گئے ہیں اور بہت کم فیڈریشن نے انہیں مقابلوں کیلئے بھیجا
خیبرپختونخوا میں 38 رجسٹرڈ اسپورٹس ایسوسی ایشنز ہیں۔ ہر ایک کو حکومت کی طرف سے پانچ لاکھ روپے یا اس سے زائد سالانہ گرانٹ ملنی چاہیے۔ یہ رقم بظاہر کم لگتی ہے مگر چھوٹے کھیلوں کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ 2020 سے اب تک کسی ایسوسی ایشن کو مکمل گرانٹ نہیں ملی۔ فائلیں دفاتر میں گرد آلود پڑی ہیں اور کھلاڑی خود اپنے اخراجات پر تربیت کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب کھیلوں کے لیے بجٹ مختص ہوتا ہے، تو وہ پیسہ کہاں جاتا ہے؟ کھیلوں کی وزارت کیوں یہ تفصیلات عوام سے چھپا رہی ہے؟ کیا یہ پیسہ جعلی ایونٹس اور بند کمروں کی منظوریوں میں ختم ہو جاتا ہے؟خیبرپختونخوا میں اس وقت جس پارٹی کی حکومت ہے، وہ خود کو “ایماندار” کہتی ہے۔ مگر کھیلوں کے معاملے میں اس ایمانداری کا کوئی عکس نظر نہیں آتا۔جب صوبے کی اولمپک ایسوسی ایشن اپنے ہی صوبائی کھلاڑیوں کو سہولت نہ دے سکے تو پھر ان کھلاڑیوں سے کیا امید رکھی جائے کہ وہ ملک کے لیے میڈل جیتیں گے؟
ایک طرف پنجاب میں کھیلوں کے بورڈ اور ایسوسی ایشنز کے درمیان کوآرڈی نیشن میٹنگز باقاعدگی سے ہو رہی ہیں، فنڈز ریلیز ہو رہے ہیں، کوچز بھرتی ہو رہے ہیں۔دوسری طرف خیبرپختونخوا میں کھیلوں کے میدان ویران ہیں، کوچز دفاتر میں بیٹھے ہیں، اور کھلاڑی مایوسی میں اپنا سامان بیچنے پر مجبورہیں ‘ مختلف کھیلوں سے وابستہ کئی کھلاڑی کھیل چھوڑ کر مزدری کرنے نکل گئے ہیں.
گرانٹ اینڈ ایڈ کی مد میں ملنے والے یہ فنڈز نہ ملنے کی سب سے بڑی قیمت کھلاڑی ادا کر رہے ہیں۔کھیل صرف میدان میں جیتنے کا نام نہیں، بلکہ ایک طویل تیاری، تربیت، خوراک، اور کوچنگ کا تقاضا کرتا ہے۔جب صوبائی سطح پر وسائل بند ہو جائیں تو نہ صرف کھلاڑیوں کا حوصلہ ٹوٹتا ہے بلکہ ان کا مستقبل بھی غیر یقینی ہو جاتا ہے۔
کئی باصلاحیت نوجوان اس لیے کھیل چھوڑ گئے کیونکہ انہیں کوئی سپورٹ نہیں ملی۔ کوچنگ کیمپس بند ہیں، اسپورٹس ڈائریکٹریٹ اس معاملے میں ہیں، اور مقابلوں کے مواقع ختم ہو گئے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ صوبائی حکومت نے کھیلوں کے فروغ کا وعدہ محض نعروں میں چھوڑ دیا ہے۔جہاں کھیلوں میں نرسری سطح سے کھلاڑیوں کی آمد اور تربیت ضروری ہے وہاں پر اب انڈر 23 انڈر 22 اور انڈر 21کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جو صرف پیسوں کا ضیاع ہے.کیونکہ یہ کھلاڑی ان میلوں میں منعقدہ مقابلوں میں حصہ تولیتے ہیں مگر ان کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر کوئی کارکردگی نہیں ہوتی
پنجاب حکومت نے نیشنل گیمز کے لیے اپنے کھلاڑیوں کو دو کروڑ روپے کی گرانٹ دی۔سندھ حکومت نے 2024–25 میں مختلف ایونٹس کے لیے فنڈز جاری کیے، حتیٰ کہ اسپیشل اولمپکس اور وھیل چیئر کرکٹ کے لیے بھی الگ بجٹ مختص کیا۔بلوچستان نے 34ویں نیشنل گیمز کی میزبانی کے دوران اپنے کھلاڑیوں اور ایسوسی ایشنز کو سہولتیں دیں۔صرف خیبرپختونخوا واحد صوبہ ہے جہاں اولمپک ایسوسی ایشن مکمل طور پر مالی بحران میں ہے۔نہ حکومت نے کوئی گرانٹ دی، نہ انکوائری کی، نہ پارلیمانی کمیٹی نے سوال اٹھایا۔یہ صورتحال صرف انتظامی ناکامی نہیں بلکہ کھیلوں کی روح پر کاری ضرب ہے۔
خیبرپختونخوا میں کھیلوں کے میدان ایک ایک کر کے اجڑ رہے ہیں۔ میدان تو بن رہے ہیں مگر کھلاڑی ختم ہورہے ہیں . بجٹ کی بندش نے نہ صرف اولمپک ایسوسی ایشن کو مفلوج کیا بلکہ ضلع، تحصیل اور تعلیمی سطح کے مقابلے بھی ختم کر دیے۔کھیلوں کی وزارت نے عوامی سطح پر کبھی وضاحت نہیں دی کہ کیوں گرانٹ روکی گئی، یا کب بحال ہوگی۔یہ وہی صوبہ ہے جہاں ایک وقت میں نیشنل گیمز کے میڈل سب سے زیادہ جیتے جاتے تھے۔اب حالت یہ ہے کہ کھلاڑی یونیفارم اور جوتے تک خود خریدتے ہیں۔اگر یہی صورتحال رہی تو آنے والے سالوں میں خیبرپختونخوا کے کھلاڑیوں کا بین الاقوامی سطح پر نام و نشان مٹ جائے گا۔
کھیلوں سے وابستہ حلقوں کے سوالات جو جواب مانگتے ہیںکہ خیبرپختونخوا کے کھیلوں کے بجٹ میں اولمپک ایسوسی ایشن کا حصہ کہاں جا رہا ہے؟ اس فنڈ کے اجراءمیں کون سے افسران یا سیاسی شخصیات رکاوٹ ہیں؟ کیا صوبائی اسمبلی میں اس معاملے پر کبھی سوال اٹھایا گیا؟ اگر38 رجسٹرڈ ایسوسی ایشنز موجود ہیں، تو وہ بغیر فنڈ کے کیسے زندہ ہیں؟یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب صرف ایک "انکوائری" نہیں بلکہ ایک جامع آڈٹ مانگتا ہے۔کھلاڑی کب تک قربانی دیں گے؟
کھیلوں کے لیے فنڈز بند کر دینا صرف اعداد و شمار کی بات نہیں — یہ نوجوان نسل کے خوابوں سے کھیلنا ہے۔ایک ایتھلیٹ جو صبح و شام تربیت کرتا ہے، جب اسے معلوم ہو کہ حکومت کے پاس اس کے لیے کچھ نہیں، تو اس کے حوصلے کی موت واقع ہو جاتی ہے۔اسی لیے آج خیبرپختونخوا کے کئی ٹیلنٹڈ کھلاڑی دوسرے صوبوں یا نجی اداروں کی نمائندگی کرنے لگے ہیں۔یہ صوبے کے لیے شرمناک مگر افسوسناک حقیقت ہے۔
کھیل حکومتوں کی ترجیح نہیں رہے۔ خیبرپختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن کی خاموشی، حکومت کی بے حسی اور فنڈز کی غیر شفاف تقسیم نے اس صوبے کی اسپورٹس سسٹم کی بنیاد ہلا دی ہے۔اگر یہ صورتحال نہ بدلی تو آنے والے برسوں میں "کھیلوں کا صوبہ" محض ایک تاریخی جملہ رہ جائے گا۔اب وقت ہے کہ حکومت خیبرپختونخوا کھیلوں کے بجٹ کو شفاف کرے، اولمپک ایسوسی ایشن کو بحال کرے، اور نوجوان کھلاڑیوں کو وہ سہولتیں دے جو ان کا حق ہیں۔ورنہ ایک دن یہی کھلاڑی، جن سے تمغوں کی امید لگائی جاتی ہے، میدان چھوڑ جائیں گے — اور کھیلوں کا جنازہ ہم سب کے سامنے ہوگا۔
#KPSports #OlympicCrisis #YouthNeglect #SportsBudget #SportsReform #AthletesRights #KPKUpdates #PakistanSports #SportsCrisis #KPOlympics #KhyberPakhtunkhwa #SportsCorruption #PakistanSports
|