اونر کلچر نفسیاتی میکانزم
(Dr Saif Wallahray, Lahore)
|
اونر کلچر نفسیاتی میکانزم ------------------------------------ جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان اور ہندوستان میں رائج اونر کلچر ایک ایسا سماجی نظام ہے جس میں فرد کی آزادی، ذاتی حقوق اور فیصلے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور خاندان، قبیلے یا نسبی شرف کو بالاتر مقام دیا جاتا ہے۔ اس کلچر نے صدیوں پر محیط روایات، سماجی اقدار اور طاقت کے ڈھانچوں کے ذریعے ایک ایسا ماحول تشکیل دیا ہے جہاں انسان اپنی ذاتی شناخت کے بجائے اجتماعی شناخت کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ یہ صرف ایک معاشرتی رجحان نہیں بلکہ ایک نفسیاتی میکانزم ہے جو فرد کے اندرونی شعور کو اس طرح تشکیل دیتا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت سے خوف زدہ ہونے لگتا ہے۔ اونر کلچر کے تحت فرد کی ذاتی خواہشات، ترجیحات اور حقوق کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔ عزت کا تصور اندرونی کردار یا اخلاقی قدروں سے منسلک ہونے کے بجائے ظاہری تاثر، سماجی حیثیت اور روایتی توقعات پر قائم ہوتا ہے۔ عملی زندگی کے بڑے فیصلے,جیسے شادی، پیشہ، لباس یا سماجی میل جول—افراد کے ہاتھ میں نہیں بلکہ خاندان یا قبیلے کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ اگر کسی عمل سے خاندان کی نام نہاد عزت پر خطرہ محسوس ہو تو تشدد، بائیکاٹ یا حتیٰ کہ قتل جیسے اقدامات کو بھی جائز سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح مرد کو عزت کا محافظ قرار دے کر پورے گھریلو نظام کو پدرسری اختیار کے تابع کر دیا گیا ہے۔ اونر کلچر کا استحکام محض سماجی نہیں بلکہ گہرے نفسیاتی عوامل سے بھی جڑا ہوا ہے۔ جب کسی معاشرے میں بقا کا انحصار اجتماعی امیج پر ہو جائے تو فرد لاشعوری طور پر اپنی ذاتی خواہشات کو دبا کر سماجی منظوری حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے اندرونی معیارِ تصمیم کو کمزور سمجھنے لگتا ہے اور بیرونی منظوری، یعنی دوسروں کی تعریف یا قبولیت، کو اپنی قدر و قیمت کا پیمانہ بنا لیتا ہے۔ یہی نفسیاتی میکانزم افراد میں خوف، احساسِ جرم اور خود شک کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ وہ اپنی اصل شناخت کھو بیٹھتے ہیں اور ایک ایسے ذہنی جال میں پھنس جاتے ہیں جہاں ان کے اعمال ان کی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اس بات کے خوف سے طے ہوتے ہیں کہ "لوگ کیا کہیں گے"۔ اس طرح یہ کلچر اجتماعی تحفظ کے نام پر ذہنی غلامی کو فروغ دیتا ہے۔ یہ رویہ تعلیمی، فکری، اور سماجی سطح پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ جب معاشرتی اقدار میں آزادیِ فکر کو جرم سمجھا جائے تو تعلیمی ادارے سوال کرنے کے بجائے تقلید سکھانے لگتے ہیں۔ تنقیدی سوچ، تخلیقی جستجو، اور مکالمے کی فضا دب جاتی ہے۔ گھر کے اندر نافذ آمرانہ نظام قومی سطح پر بھی جمہوریت کے عمل کو کمزور کرتا ہے، کیونکہ جب ہر خاندان میں ایک شخص کو مطلق اختیار حاصل ہو تو ریاستی سطح پر جمہوریت محض دکھاوے کی رہ جاتی ہے۔ اسی طرح معاشی میدان میں بھی جب افراد اپنی پسند کے پیشے اختیار کرنے یا نئی راہیں تلاش کرنے سے روکے جاتے ہیں تو محنت، ایجاد اور جدت کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ نتیجتاً پورا معاشرہ ترقی کے عمل میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ نفسیاتی سطح پر اونر کلچر افراد کی ذہنی صحت پر بھی تباہ کن اثرات ڈالتا ہے۔ احساسِ خوف، دباؤ، افسردگی اور خود اعتمادی کی کمی عام ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر وہ افراد جو روایتی دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، مسلسل سماجی تنقید اور خاندانی دباؤ کا شکار ہو کر اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا سامنا کرتے ہیں۔ بعض صورتوں میں یہ دباؤ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ خودکشی جیسے انتہائی اقدامات سامنے آتے ہیں۔ اونر کلچر کا سب سے خوفناک پہلو غیرت کے نام پر قتل کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس روایت میں انسانی زندگی کی قیمت محض اس لیے کم ہو جاتی ہے کہ کسی نے معاشرتی توقعات کے برعکس قدم اٹھایا۔ یہ طرزِ فکر نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ اخلاقی اور مذہبی اصولوں کے بھی منافی ہے۔ بدقسمتی سے ایسے واقعات کے بعد بعض حلقوں کی طرف سے قاتلوں کو "غیرت مند" قرار دیا جانا اس ذہنیت کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرہ فرد کی آزادی کو تسلیم کرنے کے بجائے اجتماعی کنٹرول کو تقدیس کا درجہ دیتا ہے۔ اونر کلچر کی جڑیں صرف خاندانی یا صنفی نظام میں نہیں بلکہ طبقاتی اور مذہبی تعبیرات میں بھی پیوست ہیں۔ پدرسری نظام مرد کو طاقت، عورت کو تابع اور طبقاتی ڈھانچہ کمزور طبقے کو خاموشی پر مجبور کرتا ہے۔ مذہبی اقدار کی غلط تعبیرات بھی بعض اوقات اس کلچر کو اخلاقی جواز فراہم کرتی ہیں۔ نتیجتاً عزت کا مفہوم طاقت، کنٹرول اور خوف کے امتزاج میں بدل جاتا ہے، جبکہ مساوات، انصاف اور انسانی وقار پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ اس ذہنی و سماجی غلامی سے نجات کے لیے اونر کلچر کو رفتہ رفتہ "ڈیگنیٹی کلچر" یعنی وقار کے کلچر میں تبدیل کرنا ضروری ہے۔ یہ تبدیلی صرف قانون سازی سے ممکن نہیں بلکہ ایک جامع سماجی و تعلیمی تحریک کے ذریعے ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے نصابِ تعلیم میں فردی حقوق، انسانی وقار اور تنقیدی شعور کو شامل کرنا ناگزیر ہے۔ قانونی سطح پر غیرت کے نام پر جرائم کے خلاف سخت سزا اور خاندانی معافیاں ختم کی جانی چاہئیں۔ میڈیا اور سماجی ادارے ایسے رویوں کے خلاف آگاہی مہمات چلائیں جو جھوٹی عزت کے نام پر انسانیت کی تضحیک کرتے ہیں۔ مذہبی و سماجی رہنما بھی اس بحث کا حصہ بنیں تاکہ عزت کا حقیقی تصور اخلاق، کردار اور انسانی ہمدردی سے جوڑا جا سکے۔ اس کے ساتھ خواتین اور کمزور طبقات کی معاشی خودمختاری کو فروغ دینا اس تبدیلی کا بنیادی جز ہے، کیونکہ اقتصادی آزادی فرد کو سماجی دباؤ سے نکلنے کی طاقت دیتی ہے۔ خاندانی مشاورت اور نفسیاتی معاونت کے ذریعے بھی روایتی کنٹرول کے دائرے کم کیے جا سکتے ہیں۔ یہ تمام اقدامات بتدریج ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں مددگار ہو سکتے ہیں جہاں فرد کی عزت اس کے کردار سے پہچانی جائے، نہ کہ خاندان کے نام سے۔ اونر کلچر صرف ایک سماجی ڈھانچہ نہیں بلکہ ذہنوں میں رچی بسی غلامی ہے۔ اس غلامی سے آزادی اسی وقت ممکن ہے جب معاشرہ فرد کو عزت دے، اس کے فیصلوں کا احترام کرے اور اس کے وقار کو اجتماعی مفاد پر ترجیح دے۔ جب تک ہم اپنے اندر کے خوف اور زنجیروں کو نہیں توڑتے، ہم نہ فکری طور پر آزاد ہو سکتے ہیں، نہ جمہوری اور نہ ہی انسانی لحاظ سے ترقی یافتہ۔ حقیقی ترقی اسی دن شروع ہوگی جب "غیرت" کی جگہ "وقار" لے لے گا، اور انسان کو محض خاندان کی عزت نہیں بلکہ اپنی انسانیت کی بنیاد پر قدر دی جائے گی۔ |
|