گراونڈز تو بن رہے ہیں، مگر کھلاڑی کہاں گئے؟
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے اپنے پہلے اجلاس میں اعلان کیا کہ صوبے کے ہر ضلع میں کھیلوں کے میدان بنائے جائیں گے۔ سننے میں یہ اعلان بہت خوش کن ہے۔ ایک ایسا صوبہ جہاں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، وہاں اگر کھیلوں کے مواقع بڑھائے جائیں تو یہ خوش آئند قدم ہے۔ لیکن بات صرف اعلان تک محدود ہے یا اس کے پیچھے کوئی حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی ہے، یہ سوال اٹھانا ضروری ہے۔
سوال یہ نہیں کہ گراونڈز بننے چاہئیں یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعلیٰ صاحب کو علم ہے کہ تقریباً ہر ضلع میں پہلے سے ہی کھیلوں کے میدان موجود ہیں؟ جہاں نہیں ہیں، وہاں یقیناً ضرورت ہے، لیکن صوبے کے اصل مسئلے کا تعلق گراونڈز سے نہیں بلکہ کھلاڑیوں کی کمی، نظام کی بگاڑ، اور کھیلوں کی سیاست سے ہے۔پچھلے چند برسوں میں خیبرپختونخوا میں کھیلوں کے ڈائریکٹوریٹ کے تحت بے شمار عمارتیں، جمنازیم، کورٹ اور اسٹیڈیم تعمیر کیے گئے۔ لیکن اگر ان گراونڈز کا دورہ کیا جائے تو ایک خوفناک حقیقت سامنے آتی ہے گراونڈز آباد نہیں، کھلاڑی غائب ہیں۔ گراونڈ بن گیا، عمارت کھڑی ہوگئی، مگر وہاں سے کھیل کی روح نکل گئی۔
یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کھیل کا مطلب صرف بلڈنگ بنانا ہے یا کھلاڑی پیدا کرنا؟ اگر عمارت ہی سب کچھ ہوتی تو خیبرپختونخوا کھیلوں میں پاکستان کا سب سے آگے صوبہ ہوتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کھیلوں کا نظام زوال پذیر ہے، اور بدعنوانی اس کی جڑ بن چکی ہے۔کبھی کسی نے سروے کیا کہ کرکٹ کے علاوہ کون سا کھیل ہے جس میں کھلاڑیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے؟ شاید کسی نے نہیں۔ سچ یہ ہے کہ صرف کرکٹ زندہ ہے، وہ بھی ذاتی سرمایہ کاری کی وجہ سے۔ اس کے بعد اگر کسی کھیل میں کچھ سرگرمی نظر آتی ہے تو وہ سکواش ہے۔ لیکن سکواش میں دلچسپی اس لیے نہیں کہ کھلاڑی آگے بڑھ رہے ہیں، بلکہ اس لیے کہ یہ کھیل بیرون ملک نکلنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔
دیگر کھیلوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ ہاکی، والی بال، ایتھلیٹکس، بیڈمنٹن اور کبڈی جیسے روایتی کھیل نچلی سطح سے غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں مقابلے نہیں ہوتے، نرسری لیول پر خاموشی ہے، اور جو بچے کھیلنے کے خواہشمند ہیں، ان کے پاس سہولیات نہیں۔وجوہات سب کے سامنے ہیں‘ کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کو فنڈز نہیں دیے جا رہے۔ کھیلوں کا سامان عام کھلاڑی کی پہنچ سے باہر ہو گیا ہے۔نرسری سطح کے مقابلے منعقد نہیں کیے جا رہے۔ نچلی سطح پر ترقیاتی بجٹ کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔اور سب سے اہم، کھیلوں کے محکمے میں اب ایسے لوگ داخل ہو چکے ہیں جو کھیل نہیں، ٹھیکہ داری سمجھتے ہیں۔
کھیلوں کے ڈیپارٹمنٹ میں ایسے ملازمین موجود ہیں جو خود فرمز کے مالک ہیں۔ وہ ٹھیکے دوسروں کے نام پر لیتے ہیں، مگر کام کہیں اور سے نکلوا لیتے ہیں۔ کھیلوں کا ایک ہزار سہولیات منصوبہ بنایا گیا، مگر ہر عمارت کی لاگت چار گنا زیادہ دکھا کر فنڈز وصول کیے گئے۔ کئی گاڑیاں غائب ہوئیں، پراجیکٹ تین سال سے فنڈز کے بغیر چل رہے ہیں، اور کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ مالی بے ضابطگیاں کہاں جا کر ختم ہوں گی۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں جعلی بھرتیوں کا معاملہ ایک مثال ہے۔ چھ ماہ کی تنخواہیں ادا ہوئیں، پھر فائل بند کر دی گئی۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ یہ سب کس کے حکم پر ہوا۔ نہ ہی یہ واضح ہوا کہ پٹرول اور فنڈز کون استعمال کر رہا تھا۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ کھیلوں سے وابستہ ہیں، جو روزانہ گرمی میں ٹریننگ کرتے ہیں، جو کھلاڑی ہیں — ان کے پاس نہ کوئی سہولت ہے نہ مدد۔ لیکن جو دفتر میں بیٹھ کر خوشامد کرتے ہیں، وہی ترقی پاتے ہیں۔ انہیں فنڈز بھی ملتے ہیں، بیرون ملک دورے بھی، اور ریفرنس بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اب کھیلوں کا محکمہ ریفرنس کلچر میں بدل چکا ہے۔ وزیراعلیٰ صاحب، آپ کی نیت پر شاید شک نہ ہو، لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ کھیل اب صرف تعمیراتی منصوبہ نہیں، ایک سماجی نظام کا آئینہ ہے۔ اگر آپ نے صرف ٹھیکیداروں کی بات مانی تو پھر وہی ہوگا جو پچھلے ادوار میں ہوا — بلڈنگ بنے گی، افتتاح ہوگا، مگر اندر ویرانی چھا جائے گی۔آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت صوبے میں 32 فٹسال گراونڈز تعمیر ہونے جا رہے ہیں، جبکہ 8 ضم اضلاع میں بھی یہ منصوبے شامل ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ فٹسال گراونڈ ان علاقوں میں کیوں بن رہے ہیں جہاں زمین کی کوئی کمی نہیں؟ وہاں اصل ضرورت کھلاڑی پیدا کرنے کی ہے، نہ کہ مزید تعمیراتی منصوبوں کی۔
کھیلوں کے شعبے میں اب اعتماد کی بحالی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اگر حکومت واقعی تبدیلی چاہتی ہے تو اسے صرف گراونڈ نہیں بلکہ پالیسی بنانی ہوگی۔ ایک ایسی پالیسی جو نرسری لیول سے لے کر صوبائی اور قومی سطح تک کھلاڑیوں کو تحفظ دے، ان کی تربیت، مالی مدد اور مواقع کو یقینی بنائے۔یہ بھی ضروری ہے کہ ایک آزاد آڈٹ اور تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے جو پچھلے پانچ برسوں کے اسپورٹس فنڈز، ٹھیکوں اور پراجیکٹس کا مکمل جائزہ لے۔ عوام کا پیسہ عوام کے بچوں کے کھیلوں پر خرچ ہونا چاہیے، نہ کہ ٹھیکیداروں کے بینک اکاونٹس میں۔
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو چاہیے کہ وہ اس نئے دور کا آغاز حقیقت پسندی سے کریں، اعلان بازی سے نہیں۔ کھیل صرف میدان نہیں، ذہن اور جسم کی تربیت ہیں۔ اگر اسپورٹس پالیسی بدعنوانی سے پاک نہ ہوئی تو خیبرپختونخوا کے میدانوں میں صرف ویرانی رہے گی، اور نوجوانوں کے خواب دفاتر کے کاغذوں میں دفن ہو جائیں گے۔وقت ہے کہ اس نظام کو ٹھیک کیا جائے، فنڈز کے دروازے ان پر کھولے جائیں جو واقعی کھیل کے سپاہی ہیں، نہ کہ ان پر جو کھیل کو ٹھیکہ سمجھ کر چلاتے ہیں۔ کیونکہ گراونڈ تو بن جائیں گے، مگر کھلاڑی کہاں سے آئیں گے؟
#کھیلوں_کا_زوال #خیبرپختونخوا_کھیل #سہیل_آفریدی #اسپورٹس_ڈائریکٹریٹ #کھیل_یا_ٹھیکیداری #بدعنوانی_کے_گراونڈ #مسرت_اللہ_جان #ککسناو
#KPKSports #SportsCorruption #SohaibAfridi #SportsDownfall #KikxnowInvestigates #GhostAthletes #SportsPolitics #SaveSportsInKP #MusarratUllahJan
|