خون دینے کا دن... اور افسران کا یرقان
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبرپختونخوا سپورٹس ڈائریکٹوریٹ میں گزشتہ دنوں ایک نیک کام ہوا۔ نیک کام اس لیے کہ اس میں خون شامل تھا، اور ہمارے ہاں خون دینا اب تقریباً ویسا ہی نادر کام بن گیا ہے جیسے کسی دفتر میں وقت پر آنا۔ڈائریکٹوریٹ کے لان میں بڑے اہتمام سے "بلڈ ڈونیشن کیمپ" لگایا گیا۔ بینرز لگے، تصویریں بنیں، کیمرے آئے، اور چائے کے کپوں کی خوشبو فضا میں گھل گئی۔ لیکن جیسے ہی انجکشن والے بھائی نے سوئی سیدھی کی، کیمپ کی رونق کچھ پھیکی پڑ گئی۔پہلے روز جن چند بہادر کوچز نے خون دیا، وہ واقعی داد کے مستحق ہیں۔ مگر باقیوں کے چہرے ایسے زرد تھے جیسے پہلے ہی کسی نے ان سے خون کا وعدہ لے لیا ہو۔دوسرے منظر میں نئے بھرتی ہونے والے ڈیلی ویجر ملازمین صفِ اول میں تھے۔ شاید انہوں نے سمجھا کہ خون دینا بھی "ریگولر" ہونے کی ایک شرط ہے۔ کوئی ہاتھ پر پٹی بندھوا رہا تھا، کوئی انجکشن کے انتظار میں اپنے ساتھی سے پوچھ رہا تھا "یار، خون دینے سے سینئرٹی بڑھتی ہے یا نہیں؟"
اب آتے ہیں اصل ہیروو¿ں کی طرف — افسرانِ عالیہ۔گریڈ دس سے انیس تک کے افسران کی فہرست دیکھی گئی تو خون دینے والوں میں صرف دو نام جگمگاتے نظر آئے: ایک ایڈمنسٹریٹر صاحب اور ایک ڈی جی سپورٹس۔ باقی سب شاید خون کے بجائے “بلڈ پریشر” پر بات کرنے آئے تھے۔ایک افسر صاحب سے پوچھا گیا کہ حضور! آپ خون کیوں نہیں دے رہے؟فرمایا: "بھائی، ایک مہینہ پہلے دیا تھا!" یعنی شاید ان کے نزدیک خون دینا بھی یوٹیلیٹی بل کی طرح ہوتا ہے، جو سال میں ایک بار جمع کرانا کافی سمجھا جاتا ہے۔
کچھ نے بڑی سنجیدگی سے بتایا کہ انہیں یرقان ہے، کچھ نے کہا بخار ہے، اور ایک تو کہنے لگے “میرا بلڈ گروپ ابھی ڈھونڈا جا رہا ہے۔”ایک صاحب تو کہنے لگے کہ "اگر خون دے دیا تو دفتر کے کام کون کرے گا؟" جیسے خون دینے سے بندہ فوراً سبکدوش ہو جاتا ہے۔اب مزے کی بات سنیں۔ایک دن پہلے یہی افسران ایک کوچنگ کیمپ میں نوجوان کھلاڑیوں کو “سماجی خدمت” اور “انسانیت کی بھلائی” پر لیکچر دے رہے تھے۔ “بیٹا، قوموں کی ترقی قربانی سے ہوتی ہے!” جیسے فقرے گونج رہے تھے۔ لیکن اگلے ہی دن جب خون دینے کی باری آئی تو وہی قربانی کہیں فائلوں کے نیچے دب گئی۔کوئی بندہ سوئی کے قریب بھی نہیں گیا، اور جو گیا، وہ تصویریں بنوانے تک محدود رہا۔ایسا لگا جیسے یہ ساری سرگرمی “ہیمر تھرو” کی مشق نہیں بلکہ “کیمرہ تھرو” کا مقابلہ ہو۔
ڈائریکٹوریٹ میں ملازمین کی اتنی تعداد ہے کہ اگر سب واقعی خون دیتے تو پشاور کے اسپتالوں کو سال بھر سپلائی مل جاتی۔ مگر وہاں حال یہ تھا کہ خون دینے والوں کو گننے کے لیے کیلکولیٹر کی نہیں، انگلیوں کی گنتی ہی کافی تھی۔ایک سینئر ملازم نے کہا: “صاحب اتنے لوگ ہیں کہ نام لیتے ہوئے سانس پھول جاتا ہے۔”میں نے دل میں سوچا، اگر سب خون دیتے تو شاید ان کا سانس بھی نہ پھولتا، کیونکہ آکسیجن گردش میں رہتی۔چند افسران جو چند دن پہلے تک دفتر میں داخل ہوتے ہوئے "سلام علیکم صاحب" سننے کے عادی تھے، وہ بھی اس دن غائب تھے۔ لگتا ہے خون دینے کا ذکر سنتے ہی ان کی رگوں میں “خون خشک” ہو گیا۔کسی نے مذاق میں کہا کہ “صاحب کا خون وی آئی پی ہے، عام بلڈ بینک میں نہیں جاتا!”ایسا لگ رہا تھا جیسے خون دینے کی جگہ افسران کی “حاضری چیک” ہو رہی ہو۔
اب آتے ہیں اصل ستم ظریفی پر۔کیمپ میں ایسے ملازمین بھی خون دیتے نظر آئے جنہیں پچھلے مہینے کی تنخواہ تک نہیں ملی تھی۔ ان کا خون تو ویسے بھی خشک تھا، لیکن پھر بھی انہوں نے سوئی آگے کر دی۔ایک نے مسکراتے ہوئے کہا: “صاحب، پیسے نہیں ملے، سوچا خون ہی دے دوں، شاید حکومت اسی کو عطیہ سمجھ لے۔”دوسرے نے جواب دیا: “ہم تو خون بھی قسطوں میں دیتے ہیں، پہلی بوتل آج، باقی جب تنخواہ آئے گی!”ایک طرف یہ غیر مستقل ملازمین خون دے کر “خدمت” کی مثال قائم کر رہے تھے، اور دوسری طرف وہ افسران جن کی میزوں پر “انسانیت کی خدمت” کے سرٹیفیکیٹ رکھے ہوتے ہیں، کرسیوں سے بھی نہ اٹھے۔بس “کیمپ کامیاب رہا” کی رپورٹ پر دستخط کر کے چین کی نیند سو گئے۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہی خون کسی فائل کی صورت میں ہوتا تو یقیناً سب افسران اس پر جھپٹ پڑتے۔کیونکہ فائل پر دستخط دینا آسان ہے، خون دینا مشکل۔اور یہ فرق ہی دراصل ہمارے “انتظامی نظام” کی رگوں میں بہتا ہے۔
کچھ کوچز نے ہنستے ہوئے کہا: “ہم تو روز خون دیتے ہیں، کبھی پالیسیوں کی صورت میں، کبھی تبادلوں کی شکل میں۔”ایک بزرگ ملازم نے کہا: “ہمارا کام تو کھیلوں کو زندہ رکھنا ہے، خون دینا تو روزمرہ کا حصہ ہے، بس سوئی کی شکل بدل گئی ہے۔”واقعی، ہمارے کھیلوں کے نظام میں اتنا خون بہہ چکا ہے کہ اگر اسے جمع کیا جائے تو شاید پورا ایک نیا “سپورٹس ہسپتال” بن جائے۔آخر میں یہ کہانی ایک سبق چھوڑ گئی:ہمارے اداروں میں تقریریں زیادہ ہوتی ہیں، عمل کم۔لفظوں میں جذبہ ہے، لیکن رگوں میں نہیں۔خون دینے کی بات آئے تو سب کے چہرے زرد پڑ جاتے ہیں، مگر پریس ریلیز میں سب “پ±رجوش” نظر آتے ہیں۔اگر کبھی کسی دن ان افسران کی رگوں میں واقعی خدمت کا خون دوڑنے لگا تو شاید نہ صرف کیمپ، بلکہ پورا محکمہ صحت مند ہو جائے۔فی الحال تو خون دینے والے وہی “غریب ڈیلی ویجرز” ہیں، جن کے دل بڑے ہیں، جیبیں خالی ہیں، اور رگوں میں انسانیت اب بھی زندہ ہے۔
#KhyberPakhtunkhwa #SportsDirectorate #BloodDonation #Bureaucracy #HumorColumn #Kikxnow
|