کیا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کھیلوں کی ترقی کے لیے ہے یا کمائی کے لیے؟
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبر پختونخوا سپورٹس ڈائریکٹریٹ ایک بار پھر خبروں میں ہے۔ وجہ وہی پرانی — مالیاتی بدانتظامی، کھلاڑیوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور سہولتوں کی کمی۔ تازہ واقعہ عادل خان سوئمنگ پول سے جڑا ہے جہاں انتظامیہ نے تیراکی سیکھنے کے لیے آنے والے افراد سے کلورین کے پیسوں کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ اس وقت سامنے آیا جب ڈائریکٹریٹ نے حال ہی میں صرف اسی سوئمنگ پول سے ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کی آمدن حاصل کی تھی۔
سوال یہ ہے کہ اگر اتنی بڑی رقم وصول کی گئی تو کلورین جیسے بنیادی جز پر بھی عوام اور کھلاڑیوں سے پیسے کیوں لیے جا رہے ہیں؟ حیرت انگیز طور پر حیات آباد سپورٹس کمپلیکس کے سوئمنگ پول کی آمدن علیحدہ پڑی ہے، خیبر پختونخوا سوئمنگ ایسوسی ایشن نے حال ہی میں ڈائریکٹر جنرل سپورٹس کو ایک خط لکھا، جس میں درخواست کی گئی کہ سوئمرز کو تربیت کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ قومی اور بین الاقوامی مقابلوں کے لیے تیاری کرسکیں۔ لیکن جواب میں یہ لکھ کر واپس بھیجا گیا کہ "ایسوسی ایشن کلورین خود لے آئے اور صفائی بھی خود کرے۔"
یہ جواب نہ صرف افسوسناک بلکہ کھلاڑیوں کی تذلیل کے مترادف ہے۔ اگر ایک صوبائی ادارہ جو سپورٹس پالیسی 2018 کے تحت کھیلوں کی ترویج اور سہولتوں کا ذمہ دار ہے، کھلاڑیوں سے خود صفائی کا مطالبہ کرے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان لاکھوں کروڑوں روپے کی مد کہاں خرچ ہو رہی ہے؟اسی سوئمنگ پول میں کئی ایسے افراد لائف گارڈ کے طور پر بھرتی کیے گئے جو افسران کے رشتہ دار تھے۔ ان میں بعض معذور افراد بھی شامل ہیں، اور کچھ تو ٹیوب ویل سے لائف گارڈ بنے اور پھر “کئیرٹیکر” کے عہدے تک جا پہنچے۔ جب سفارش کے زور پر بھرتیاں ہوں تو پیشہ ور کھلاڑیوں اور تربیت کاروں کے لیے جگہ کہاں بچے گی؟
یہی وجہ ہے کہ جب بات اصل سوئمرز کی آتی ہے تو ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کی کمائی بھی "غائب" ہوجاتی ہے۔ پچھلے سال اسی پول سے ستانوے لاکھ روپے جمع ہوئے تھے، لیکن تربیت یافتہ کھلاڑیوں کے لیے نہ تو پانی کا معیار بہتر کیا گیا، نہ ان کے لیے الگ ٹائمنگ رکھی گئی۔اب بات صرف پیسوں یا کلورین کی نہیں رہی۔ جیسے ہی سردیوں کا موسم آتا ہے، سوئمنگ پول بند کر دیا جاتا ہے۔ انتظامیہ کی دلیل ہوتی ہے کہ "سردی میں پانی ٹھنڈا ہوتا ہے"۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قومی کھیل، جن میں سوئمنگ بھی شامل ہے، دسمبر میں کراچی میں منعقد ہوتے ہیں۔
یعنی جب باقی ملک کے کھلاڑی تربیت میں مصروف ہوتے ہیں، خیبر پختونخوا کے سوئمرز کو پول سے ہی باہر نکال دیا جاتا ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں؟ کھیل کوئی موسمی شوق نہیں، بلکہ ایک مستقل تربیت کا عمل ہے۔ اگر صوبائی ادارے کھلاڑیوں کے لیے تربیتی سہولتیں بند کردیں تو وہ ملک کی نمائندگی کیسے کریں گے؟یہ پہلو اس وقت اور اہم ہو جاتا ہے جب سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اندر سالانہ ترقیاتی بجٹ کے تحت کھیلوں کی سہولیات کی دیکھ بھال کے لیے الگ فنڈ مختص کیا جاتا ہے۔ پھر بھی پول بند، کوچ غیر حاضر، اور کھلاڑی بے یار و مددگار۔
خیبر پختونخوا سپورٹس پالیسی 2018 کے آرٹیکل 6 کے مطابق، "تمام اضلاع میں کھیلوں کی سہولیات کو فعال، قابلِ رسائی اور عوامی مفاد کے لیے استعمال میں لانا صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی ذمہ داری ہوگی۔"اسی پالیسی کے تحت کھلاڑیوں کو فری یا سبسڈی والی تربیت دینا بھی لازمی ہے۔لیکن عملاً کیا ہو رہا ہے؟ کھیلوں کے میدان اور جمنازیم ذاتی ملکیت بن چکے ہیں۔ سپورٹس کمپلیکس میں "فیس" اور "کمرشل رینٹ" کے نام پر عوام سے پیسے لیے جاتے ہیں۔ کھلاڑی، جن کے نام پر یہ بجٹ منظور ہوتا ہے، دروازے کے باہر کھڑے رہ جاتے ہیں۔
اگر ہم پنجاب یا سندھ کی مثال لیں تو وہاں کے اسپورٹس کمپلیکس سال بھر کھلے رہتے ہیں۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد اور حیدرآباد میں انڈور ہیٹنگ والے سوئمنگ پول موجود ہیں جہاں کھلاڑی سردیوں میں بھی تربیت جاری رکھتے ہیں۔پنجاب سپورٹس بورڈ نے تو اپنے بجٹ میں "ونٹر ٹریننگ شڈول" باقاعدہ درج کر رکھا ہے۔ جبکہ خیبر پختونخوا میں کھلاڑی موسم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ایک نوجوان سوئمر نے بتایا، “ہمیں پول استعمال کرنے کی اجازت صرف گرمیوں میں ملتی ہے۔ باقی سال خود گھر میں پانی کے ٹب میں پریکٹس کرتے ہیں۔” یہ بیان شاید مزاحیہ لگے، لیکن حقیقت یہی ہے۔کوچز بھی مایوس ہیں۔ ان کے مطابق، “جب حکومت خود تربیتی ماحول فراہم نہیں کرتی تو کھلاڑیوں سے کارکردگی کی توقع رکھنا ظلم ہے۔”
یہ بھی اہم ہے کہ ڈائریکٹریٹ کی آمدن کہاں جاتی ہے؟ ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کی کمائی کا حساب کب اور کہاں پیش کیا گیا؟ کیا کوئی آڈٹ رپورٹ موجود ہے؟ اگر ہے تو عوام کے سامنے کیوں نہیں لائی جاتی؟گزشتہ پانچ سال میں کھیلوں کے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ ضرور ہوا، مگر میدان ویران ہیں۔ تربیتی مراکز بند اور کھیلوں کے کلب سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہوچکے ہیں۔
اگر صوبائی حکومت واقعی کھیلوں کو فروغ دینا چاہتی ہے تو چند فوری اقدامات ضروری ہیں‘ عادل خان سوئمنگ پول اور دیگر مراکز کا آزاد آڈٹ کرایا جائے‘ کلورین، صفائی اور پانی کے معیار کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری انتظامیہ پر ہو‘ سردیوں میں ہیٹنگ سسٹم یا کورڈ پولز کے منصوبے شروع کیے جائیں تاکہ کھلاڑیوں کی تربیت متاثر نہ ہو ‘ سپیشل کوٹہ بھرتیوں کی جانچ پڑتال کی جائے تاکہ میرٹ کی بحالی ممکن ہو۔کھلاڑیوں کی نمائندہ کمیٹی بنائی جائے جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے فیصلوں پر نگرانی کرے‘
کھیلوں کی ترقی اداروں کے رویے سے جڑی ہے۔ اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ خود کمرشل ادارہ بن جائے تو کھیلوں کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔عادل خان سوئمنگ پول کی کہانی صرف ایک مثال ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں کھیل اب "کاروبار" بن چکے ہیں۔کھلاڑی اب بھی امید رکھتے ہیں کہ کوئی اس غیر منصفانہ نظام کو بدلے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کبھی کھلاڑیوں کے لیے بھی اسی لگن سے کام کرے گا، جیسے اپنی آمدن کے لیے کرتا ہے؟ #kikxnow #digitalcreator #sports #swimming #kpk #Kp #pakistan #sportsnews #clorene
|