سترہ گریڈ کی خوشیاں، سولہ گریڈ کی فرصت — سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انوکھی دنیا!



پشاور کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں زندگی بڑی پر لطف ہے۔ یہاں لوگ کھیلوں سے نہیں، عہدوں سے محبت کرتے ہیں۔ بعض کو تو یہ عشق اتنا گہرا ہے کہ اگر انہیں سترہ گریڈ کا افسر کہا جائے تو فوراً بولتے ہیں: “اللہ نہ کرے، اتنا کام کون کرے!”کچھ لوگوں کو کام نہ کرنے کی بیماری لاحق ہے، ایسی کہ کسی حکیم کے پاس اس کا علاج نہیں۔ یہی لوگ سترہ گریڈ کے ہونے کے باوجود سولہ گریڈ کے “ایڈمنسٹریٹر” بن کر خوش ہیں۔ وجہ بڑی سادہ ہے — ایک تو کام نہیں کرنا پڑتا، دوسرے “مینٹیننس” اور “اخراجات” جیسے الفاظ خود بخود مالی خوشبو چھوڑ دیتے ہیں۔

یہ وہی سپورٹس ڈائریکٹریٹ ہے جہاں سولہ گریڈ کے کوچز کے خوابوں میں ڈی ایس او کے عہدے اترتے ہیں۔رات کو تکیے کے نیچے سفارش کا پرچہ رکھ کر سوتے ہیں، صبح اٹھتے ہیں تو کہانی بدل جاتی ہے۔ کبھی کوئی کہتا ہے، “میں نے خود محنت سے ترقی لی ہے”، اور ساتھ ہی مسکرا کر موبائل پر “کسی صاحب” کا شکریہ ادا کر دیتا ہے۔

اب چونکہ ریجنل سطح پر ڈی ایس اوز کے عہدے ختم ہو چکے ہیں، تو موقع پرست طبقے نے نئی چال چل دی۔کچھ نے ایڈمنسٹریٹر کی کرسی سفارش کی لکڑی سے تراشی، کچھ نے اپنے اختیارات کو جادو کی چھڑی بنا لیا، اور کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے دفتر کی چابی سے اپنی تقدیر کا دروازہ کھول لیا۔بس یوں سمجھیں کہ یہاں سیٹنگ کا سیزن کبھی ختم نہیں ہوتا۔ایک صاحب کو دیکھا گیا جو روز صبح آفس آتے ہیں، حاضری لگاتے ہیں، چائے پیتے ہیں، اور فائلوں کے درمیان بیٹھ کر صرف ایک ہی کام کرتے ہیں — “چپ رہنے کا فن”۔کسی نے پوچھا، “صاحب! آپ کا اصل کام کیا ہے؟”بولے: “بس دیکھتا ہوں کہ دوسرے کیا کام کر رہے ہیں، تاکہ میں نہ کروں!”

یہ شاید پاکستان کا وہ واحد محکمہ ہے جہاں “ایکٹنگ بیس چارج” سب سے زیادہ ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی تھیٹر چل رہا ہو — ہر دوسرا بندہ کسی دوسرے کے عہدے پر “اداکاری” کر رہا ہے۔ کوئی سولہ گریڈ میں سترہ کی ایکٹنگ کر رہا ہے، تو کوئی سترہ گریڈ میں سولہ کی۔ باہر سے دیکھو تو سپورٹس ڈائریکٹریٹ لگتا ہے، اندر جاو تو “اسٹیج ڈرامہ ڈائریکٹریٹ” نظر آتا ہے۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے، یہاں اصل کھیل پالیسی، پاور اور پی آر کا ہے۔کھیل کے میدان ویران، مگر دفتر میں “پوزیشن کی جنگ” گرم ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پورا پاکستان اللہ چلا رہا ہے، مگر خیبرپختونخواہ کو اللہ نے خاص توجہ دی ہے — کیونکہ یہاں سب سے زیادہ ایماندار لوگ ہیں۔ اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ پر تو خصوصی نگرانی ہے۔ “یہ واحد محکمہ ہے جو بغیر کام کے بھی چل رہا ہے؟”ایک صاحب نے تو فخر سے کہا، “ہم محنت نہیں کرتے، مگر محنت کشوں کے قریب ہیں۔”دوسرے بولے، “ہم کھیلوں سے محبت کرتے ہیں، اس لیے کام کے بجائے کرسی پر بیٹھے رہتے ہیں تاکہ کھیل کو دور سے دیکھ سکیں۔”

یہاں تنخواہ اور عہدہ کبھی ایک لائن پر نہیں آتے۔کچھ سولہ گریڈ کے ہیں مگر سترہ کے مزے لے رہے ہیں، کچھ سترہ کے ہیں مگر سولہ کے سائے میں سکون ڈھونڈ رہے ہیں۔یہ وہ واحد جگہ ہے جہاں “کام زیادہ، درجہ کم” نہیں بلکہ “کام کم، درجہ زیادہ” کا اصول نافذ ہے۔افسروں کے کمرے ایسے سجے ہوئے ہیں جیسے کسی فلم کے سیٹ ہوں۔پرانی فائلیں میز پر رکھی ہیں، اوپر “مصروف ہوں” کا بورڈ لگا ہے۔اندر سے چائے کی خوشبو اور فون پر “جی جی سر، ہو جائے گا” کی آواز آتی ہے — حالانکہ کچھ ہونا نہیں ہوتا۔

یہاں عہدے صرف قابلیت سے نہیں، رشتوں سے ملتے ہیں۔ کسی کا بھتیجا سپورٹس آفس میں بیٹھا ہے، کسی کا سالہ ایڈمنسٹریٹر ہے، اور کچھ ایسے ہیں جو “دوستی” کو ترقی کا زینہ بنا لیتے ہیں۔ جب عہدہ مل جاتا ہے تو فائلوں میں نام چھپا کر بیٹھ جاتے ہیں — تاکہ کوئی یاد نہ دلائے کہ کام بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں اگر کوئی نیا بندہ کام کرنے لگے تو دوسرے افسر اسے فوراً سمجھاتے ہیں:“بھائی، زیادہ کام کرو گے تو تمہیں ترقی نہیں، دشمنی ملے گی۔ آرام سے رہو، اللہ کے نام پر سب چل رہا ہے۔”

یہاں ایمانداری کا مطلب ہے بغیر کام کے بھی کرسی سنبھالے رکھنا۔ فائل پر دستخط کرنا بھی عبادت سمجھا جاتا ہے — بشرطِ یہ کہ فائل کسی اور نے تیار کی ہو۔ جو بندہ چھٹی پر ہو، وہ زیادہ بااثر سمجھا جاتا ہے، کیونکہ وہ “غیر حاضر ہو کر بھی نظام کا حصہ” ہے۔ایک بزرگ ڈی ایس او صاحب کہتے ہیں: “یہ عہدے عارضی ہیں، مگر چائے کا کپ مستقل۔” ان کا فلسفہ پورے آفس میں پھیلا ہوا ہے۔ ہر نیا افسر آتے ہی پہلا سوال یہی کرتا ہے: “چائے کہاں سے آتی ہے؟” سپورٹس ڈائریکٹریٹ اب کھیلوں کا مرکز نہیں، عہدوں کا میلہ بن چکا ہے۔ یہاں ہر دوسرا بندہ یا تو Acting Charge پر ہے یا Acting کر رہا ہے۔فائلوں میں ترقی کے خواب، مگر گراونڈ میں گھاس بھی اداس ہے۔

کچھ افسران نے تو خود کو “پراجیکٹ سپیشلسٹ” بنا لیا ہے، حالانکہ پراجیکٹ صرف ان کے چائے کے وقفے تک محدود ہے۔ کام کی بات ہو تو کہتے ہیں: “کھیلوں کا معاملہ حساس ہے، پہلے کمیٹی بنائیں گے۔”اور وہ کمیٹی پھر کمیٹی ہی رہتی ہے، رپورٹ کبھی نہیں آتی۔ اللہ ہمارے ان سپورٹس افسران کو مزید حوصلہ دے کہ وہ اسی طرح بغیر کام کے بھی نظام کو “خوش اسلوبی” سے چلائیں۔ان کے چائے کے کپ کبھی خالی نہ ہوں، ان کی فائلیں ہمیشہ بند رہیں، اور ان کے ایکٹنگ چارج ہمیشہ قائم رہیں۔کیونکہ اگر یہ واقعی کام کرنے لگے، تو پورا نظام ہل جائے گا۔

#SportsDirectorate #KPComedy #OfficePolitics #ActingCharge #KikxnowSatire #PeshawarBureaucracy #NoWorkFullPerks #SatiricalColumn #MusarratUllahJan
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 824 Articles with 680503 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More