پشاور کے انٹر سکول کھیل: فیتہ کٹ گیا، مگر نظام کب جاگے گا؟


پشاور کے تاریخی سٹی نمبر ون اسکول میں ڈسٹرکٹ پشاور کے بین المدارس کھیلوں کے مقابلوں کا آغاز ہوا۔ یہ تقریب بظاہر ایک خوش آئند اور حوصلہ افزا خبر تھی کہ تعلیمی اداروں میں ایک بار پھر کھیلوں کی سرگرمیاں زندہ ہو رہی ہیں۔ مگر اس خوشی کے پس منظر میں کئی ایسے پہلو ہیں جو ہمارے تعلیمی، انتظامی اور کھیلوں کے نظام کی ناکامیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ فیتہ کٹنے سے کھیلوں کی روح زندہ نہیں ہوتی، اصل زندگی اس وقت آتی ہے جب نظام میں شفافیت، نظم و ضبط اور مقصدیت پیدا ہو۔

افتتاحی تقریب میں سیکرٹری ایلیمنٹری ایجوکیشن خالد خان نے فیتہ کاٹ کر مقابلوں کا باضابطہ آغاز کیا۔ قومی ترانہ بجا، مارچ پاسٹ ہوا، اور رسہ کشی کے مقابلے سے کھیلوں کا پہلا دن شروع ہوا۔ خالد خان نے طلبائ کو نصیحت کی کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیں کیونکہ یہی نوجوان قوم کا مستقبل ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ وہ خود سرکاری تعلیمی ادارے سے پڑھے ہیں اور ان کے نزدیک سرکاری اسکول کسی سے کم نہیں۔ ان کا پیغام حوصلہ افزا تھا، لیکن تقریب کے انتظامی پہلووں اور حقائق نے کئی سوالات کو جنم دیا۔

سب سے اہم مسئلہ فنڈز کا ہے۔ تقریب کے دوران کھیلوں کے کوآرڈینیٹرز اور اساتذہ نے واضح الفاظ میں بتایا کہ ہر سال طلبائ سے کھیلوں کے نام پر فیس لی جاتی ہے جو پشاور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن وصول کرتا ہے، مگر وہ رقم اسکولوں تک نہیں پہنچتی۔ ان کے مطابق تقریباً دو لاکھ طلبائ سے یہ فیس لی جاتی ہے جس کی مجموعی رقم دو کروڑ روپے سے تجاوز کرتی ہے، لیکن اس رقم کا مصرف نامعلوم ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسکول اپنی مدد آپ کے تحت مقابلے کروانے پر مجبور ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ نظام میں شفافیت اور جوابدہی کا فقدان ہے۔ اگر فنڈز بچوں کے کھیلوں پر خرچ نہیں ہو رہے تو پھر یہ رقم کہاں جا رہی ہے؟ اور اس کی نگرانی کون کر رہا ہے؟

یہ سوال صرف فنڈز کا نہیں بلکہ نیت اور ترجیحات کا ہے۔ اگر کھیلوں کے لیے جمع ہونے والی رقوم اسکولوں کو نہیں ملتیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کھیل اب بھی انتظامیہ کے نزدیک ایک ثانوی سرگرمی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہی اسکولوں کے اساتذہ اور طلبائاپنی جیب سے اخراجات کر کے کھیلوں کے میدان آباد کر رہے ہیں۔ یہ جذبہ قابلِ تعریف ہے مگر حکومت کی ذمہ داری سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

انتظامی سطح پر بھی کئی خامیاں سامنے آئیں۔ تقریب کا شیڈول دس بجے کا تھا مگر مہمانِ خصوصی ساڑھے گیارہ بجے پہنچے۔ اس ایک گھنٹے میں درجنوں بچے قطاروں میں کھڑے انتظار کرتے رہے۔ یہ تاخیر معمولی بات نہیں بلکہ ہماری مجموعی انتظامی ثقافت کا عکاس ہے جہاں وقت کی پابندی کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اگر یہی رویہ تعلیمی اداروں میں پروان چڑھتا رہا تو طلبائ کے ذہنوں میں نظم و ضبط کی قدر پیدا نہیں ہو سکتی۔

تقریب کی تیاری بھی اس معیار کی نہیں تھی جو کسی تعلیمی یا سرکاری تقریب کے شایانِ شان ہو۔ کئی اسکولوں نے پچھلے سال کے بینرز پر سفید کاغذ لگا کر 2024 کو 2025 میں بدل دیا۔ بعض بینرز پر انگریزی کے الفاظ غلط لکھے گئے، جیسے “SQUARD” کی جگہ “SQUAD”۔ یہ معمولی غلطیاں نہیں بلکہ اس بات کی علامت ہیں کہ ہم تقریب کی روح پر توجہ دینے کے بجائے صرف خانہ پری کرتے ہیں۔ ایسے مناظر دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تعلیمی ادارے خود اس سطح کی لاپرواہی برتیں تو طلبائ سے کیا توقع رکھی جائے؟

کھیلوں میں حصہ لینے والے طلباءکی حالت بھی غور طلب تھی۔ کئی بچے بغیر یونیفارم کے آئے، کچھ رنگ برنگی چپلوں میں ملبوس تھے۔ کچھ طلباء نے شلوار کے ساتھ ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ ان میں سے بہت سے بچے شاید پہلی بار کسی ضلعی سطح کے مقابلے میں شریک ہوئے، لیکن افسوس کہ ان کے لیے نہ تربیت تھی نہ سہولتیں۔ کوچز کی کمی نمایاں تھی، اور زیادہ تر اسکولوں میں اساتذہ ہی کوچ، منیجر اور ریفری کا کردار ادا کر رہے تھے۔
کھیلوں کے دوران بیڈمنٹن، والی بال، کبڈی، اور باسکٹ بال کے مقابلے ہوئے۔ مگر ان میں سے اکثر کھیلوں میں تکنیکی رہنمائی کا فقدان نظر آیا۔ اگر واقعی مستقبل کے کھلاڑی تیار کرنے ہیں تو بنیادی سطح پر کوچنگ اور فٹنس کے پروگرام متعارف کروانا ناگزیر ہے۔ ایک بار کی تقریب سے نہ تو ٹیلنٹ نکھرتا ہے، نہ ہی نظام بہتر ہوتا ہے۔یہ تصویر اس وقت مزید تشویشناک ہو جاتی ہے جب ہم پچھلے برسوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ تقریباً ہر سال یہی تقریبات منعقد ہوتی ہیں، مگر ان کا نتیجہ ایک جیسا رہتا ہے — افتتاح، تقاریر، شکایات، وعدے اور پھر خاموشی۔ اس سال بھی یہی ہوا۔ خالد خان نے یقین دلایا کہ وہ کھیلوں کے فنڈز کے حوالے سے پشاور بورڈ سے رابطہ کریں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ رابطہ محض رسمی کارروائی ہوگا یا کوئی عملی قدم بھی اٹھایا جائے گا؟

پشاور ایک ایسا شہر ہے جس نے پاکستان کو درجنوں قومی کھلاڑی دیے۔ یہاں کے تعلیمی ادارے کبھی کھیلوں کے مرکز ہوا کرتے تھے۔ مگر آج وہی ادارے اپنی مدد آپ کے تحت سرگرمیاں کر رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو آنے والے وقت میں کھیلوں سے وابستہ نوجوان صرف مایوسی کا شکار ہوں گے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کھیلوں کو تعلیم کا لازمی جزو قرار دے۔ اسکولوں کے بجٹ میں کھیلوں کے لیے مختص رقم براہِ راست اداروں کو دی جائے، تاکہ وہ اپنی ضروریات کے مطابق اخراجات کر سکیں۔ ہر ضلع میں ایک شفاف مانیٹرنگ سسٹم قائم کیا جائے جو فنڈز کے استعمال کی رپورٹ تیار کرے۔ کھیلوں کے میدانوں کی بحالی، کوچز کی تربیت، اور طلبائ کو آلات کی فراہمی کے لیے جامع پالیسی بنانا ہوگی۔

یہ بھی ضروری ہے کہ محکمہ تعلیم کے اندر ایک علیحدہ "اسکول اسپورٹس ونگ" قائم کیا جائے جو ضلعی سطح پر کھیلوں کے انعقاد اور نگرانی کا ذمہ دار ہو۔ یہ ونگ صرف تقریبات نہیں بلکہ سال بھر جاری سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کرے، تاکہ کھیلوں کو تسلسل حاصل ہو۔آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کھیل محض جسمانی مشق نہیں بلکہ ایک تربیتی عمل ہے جو نظم و ضبط، اتحاد، اور قیادت کا سبق دیتا ہے۔ اگر ہم اپنے طلباء کو صرف امتحان پاس کرنے والی مشینیں بنائیں گے تو وہ معاشرے میں تخلیقی اور مضبوط کردار کیسے ادا کر سکیں گے؟

پشاور کے انٹر سکول مقابلے ایک امید کی کرن ہیں، مگر اس امید کو حقیقت میں بدلنے کے لیے سنجیدگی، دیانتداری اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ صرف فیتہ کاٹنے سے تبدیلی نہیں آتی، اس کے لیے نظام کو بیدار کرنا پڑتا ہے۔ اگر حکومت اور تعلیمی ادارے واقعی اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں تو یہی بچے کل پاکستان کے کھیلوں کا فخر بن سکتے ہیں۔پشاور کے انٹر اسکول کھیلوں کا آغاز ایک مثبت قدم ہے مگر اس کے پس منظر میں مالی بدعنوانی، انتظامی کمزوری اور سہولیات کی کمی جیسے مسائل چھپے ہیں۔ ان مقابلوں کو کامیاب بنانے کے لیے صرف تقریبات نہیں بلکہ عملی اقدامات درکار ہیں — فنڈز کی شفاف تقسیم، کوچز کی فراہمی، وقت کی پابندی اور مستقل نگرانی ہی وہ عناصر ہیں جو کھیلوں کو حقیقی معنوں میں فروغ دے سکتے ہیں۔
#district #peshawar #sports #schools #musarratullahjan #kpk #kp #pakistan #sportnewsx #kabbadi #badminton #volleyball
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 858 Articles with 697316 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More