پاکستان کرکٹ بورڈ اور اسلام آباد کلب: آڈٹ رپورٹس کی روشنی میں مالی اور انتظامی بدانتظامی کی کہانی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پاکستان کرکٹ بورڈ (PCB) اور اسلام آباد کلب، دونوں ادارے جن کے نام سن کر کرکٹ اور کلاسک کلب کلچر کے شائقین کے دل خوش ہو جاتے ہیں، حقیقت میں حالیہ آڈٹ رپورٹس کے مطابق مالی بدانتظامی اور قانونی خلا میں پھنستے نظر آ رہے ہیں۔ اگرچہ ان اداروں کا مقصد اپنے ممبران اور عوام کے لیے تفریح اور کھیل کے مواقع فراہم کرنا ہے، لیکن رپورٹس کے مطابق یہ ادارے کبھی کبھار “فنڈز کی چھپکلی” کے کھیل میں لگے ہوئے ہیں، جس میں اربوں روپے کے معاملات عجیب و غریب راستوں سے نکل کر ہاتھ بدلتے ہیں۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق PCB نے 2012 سے 2019 کے دوران اسلام آباد کرکٹ ایسوسی ایشن کو تقریباً 5.529 ملین روپے گراونڈ کرایہ کے طور پر ادا کیے، حالانکہ معاہدے کے مطابق یہ گراونڈ PCB کے استعمال کے لیے مفت تھا۔ آڈٹ واضح کرتا ہے کہ یہ ادائیگی نہ صرف غیر قانونی تھی بلکہ بورڈ کی انتظامیہ کی غفلت بھی عیاں کرتی ہے۔ بورڈ نے موقف اختیار کیا کہ پہلے ہی انکوائری مکمل ہو چکی ہے، لیکن آڈٹ کے مطابق ذمہ داری عائد کرنے اور رقم کی وصولی کی ضرورت ابھی بھی برقرار ہے۔
اسی ڈائمنڈ کرکٹ گراونڈ کے حوالے سے ایک اور معاملہ سامنے آیا: ICA نے مسٹر ناصر اقبال/مسٹر شکیل احمد شیخ کے ساتھ لیز معاہدہ کر کے 3.955 ملین روپے کرایہ ادا کر دیا، حالانکہ یہ زمین کپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی ملکیت تھی۔ آڈٹ کے مطابق، بغیر ملکیت کے تصدیق کے ادائیگی کی گئی، جو ممکنہ طور پر ہڑپ تھی۔ بورڈ انتظامیہ نے یہاں بھی انکوائری کی بات کی، لیکن اصل رقم کی وصولی اور ذمہ داری ابھی تک واضح نہیں۔PCB نے نیوزی لینڈ سیریز کے بین الاقوامی میڈیا رائٹس $99,999 (27.45 ملین روپے) میں M/s Trans Group FZE اور ARY کو دے دی، بغیر کسی کھلی مسابقت کے۔ آڈٹ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ PPRA رولز کے تحت تین ملین روپے سے زائد کی کسی بھی خریداری کے لیے کم از کم دو قومی روزناموں میں اشتہار دینا ضروری تھا، لیکن بورڈ نے یا تو اشتہار نہیں دیا یا صرف ویب سائٹس پر 30 دن کا اشتہار دیا۔ یہ واضح ہے کہ بورڈ نے بین الاقوامی بولی دہندگان کو ایک ساتھ مدعو کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کی، اور اس سے ممکنہ مسابقتی نرخ حاصل نہیں ہوئے۔
اگر کرایہ اور میڈیا رائٹس کے معاملات ہنسی کا باعث بن سکتے ہیں، تو اسپانسرشپ بقایا جات شاید بورڈ کے مالی ہنر کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق، مختلف کمپنیوں سے 5,340.133 ملین روپے بقایا ہیں، جن میں ARY، Blitz Advertising، Trans Group FZE، اور دیگر شامل ہیں۔ بورڈ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 3 ارب روپے وصول ہو چکے ہیں، 1.472 ارب عدالت میں زیر التواءہیں، اور 840 ملین کی وصولی کی کوششیں جاری ہیں۔ یہ نہ صرف بورڈ کے قانونی فنڈز کی عدم دستیابی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ سوال بھی کھڑا کرتا ہے کہ اتنی بڑی رقم کا حساب کتاب کیوں نہیں رکھا گیا۔ اسلام آباد کلب نے 2022 میں اپنے مالی قواعد مرتب کیے، لیکن فائنانس ڈویڑن سے پیشگی منظوری حاصل نہیں کی۔ آڈٹ کے مطابق، یہ PFM ایکٹ 2019 کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ قواعد و ضوابط مالی اثرات رکھتے ہیں اور ان پر عمل درآمد سے قبل فائنانس ڈویڑن کی منظوری ضروری ہے۔ انتظامیہ نے جواب نہیں دیا، اور ڈائریکٹرز آڈٹ کمیٹی کی میٹنگ رپورٹ کے حتمی ہونے تک منعقد نہیں ہوئی۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق، اسلام آباد کلب نے 2023-24 میں کرکٹ گراونڈ، آڈیٹوریم، فٹسال کورٹ اور گالف ہال کی بکنگ سے تقریباً 22.16 ملین روپے حاصل کیے۔ آڈٹ واضح کرتا ہے کہ کلب کے قیام کے مقاصد صرف وفاقی حکومت کے اہلکاروں اور سفارتی عملے کے لیے تفریح اور سہولت فراہم کرنا ہیں، نہ کہ تجارتی آمدنی حاصل کرنا۔ انتظامیہ نے جواب نہیں دیا، اور آڈٹ نے تجویز دی کہ غیر قانونی تجارتی سرگرمیوں کو فوری طور پر بند کیا جائے۔
اگر یہ سب معاملات کسی ناول میں ہوتے تو قارئین شاید ہنس ہنس کر کتاب پھینک دیتے، لیکن یہ حقیقت ہے۔ PCB اور اسلام آباد کلب کے معاملات بتاتے ہیں کہ فنڈز کی چھپکلی کھیلنے کی عادت اب آڈٹ رپورٹس میں واضح ہو چکی ہے۔ اربوں روپے کے بقایا جات، مفت گراونڈ کے لیے ادا کی گئی رقم، جعلی لیز، میڈیا رائٹس کا غیر قانونی الاٹمنٹ، اور تجارتی سرگرمیاں سب مل کر ایک تصویر پیش کرتے ہیں جہاں بورڈ اور کلب کے مالی معاملات ایک مزاحیہ مگر خطرناک سریلز کی طرح نظر آتے ہیں۔
واضح ہے کہ آڈٹ رپورٹس نے ہر کیس میں ذمہ داری عائد کرنے، رقم کی وصولی، اور قانونی منظوری یقینی بنانے کی سفارش کی ہے۔ مگر بورڈ اور کلب کی انتظامیہ کی جانب سے ردعمل یا تو محدود ہے یا بالکل غیر موجود، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ ادارے اپنے قوانین اور مالی اصولوں کو سمجھتے بھی ہیں؟یہ رپورٹ ایک یاد دہانی ہے کہ کھیل اور تفریح کے ادارے، چاہے وہ کرکٹ کے دیوانے ہوں یا کلب کلچر کے شائق، شفافیت، قانونی عمل، اور مالی نظم و ضبط کے بغیر نہیں چل سکتے۔ اور اگر یہ سب کچھ طنزیہ انداز میں دیکھا جائے، تو شاید بورڈ اور کلب کے اہلکار “مالی ماہرین” کی بجائے “فنڈز کے جادوگر” بن گئے ہیں، جو اپنے جادو کے ذریعے اربوں روپے کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کر دیتے ہیں۔
پی سی بی اور اسلام آباد کلب کے مالی اور انتظامی معاملات متعدد آڈٹ رپورٹس میں واضح ہو چکے ہیں۔غیر قانونی ادائیگی، جعلی لیز، غیر مسابقتی میڈیا رائٹس، اسپانسرشپ بقایا جات، مالی قواعد کی غیر منظوری، اور تجارتی سرگرمیاں سب قانونی اور شفاف عمل کی خلاف ورزی ہیں۔آڈٹ نے ہر کیس میں رقم کی وصولی، ذمہ داری عائد کرنے، اور قانونی منظوری یقینی بنانے کی سفارش کی ہے۔بورڈ اور کلب انتظامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ فوری اقدامات کریں، ورنہ یہ ادارے عوامی اعتماد کھو سکتے ہیں، اور یہ سب معاملات مزاحیہ، مگر مہنگے سبق کے طور پر باقی رہ جائیں گے۔
#AuditReport #PCB #IslamabadClub #FinancialMismanagement #CricketCorruption #UnauthorizedPayments #FakeLease #MediaRights #SponsorshipRecovery #FinancialRegulations #Transparency #Kikxnow
|