تین سال گزر گئے… مگر ”منی اسپورٹس کمپلیکس“ اب بھی خواب ہی ہے!
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور کا سورج روز طلوع ہوتا ہے، اسکول کی گھنٹی بجتی ہے، بچے قطار میں کھڑے ہو کر قومی ترانہ گاتے ہیں، مگر گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول نمبر 1 پشاور سٹی کا اسپورٹس گراونڈ اب بھی وہی ہے — خالی، بے رنگ، اور انتظار میں کہ شاید کوئی دن آئے جب یہ ”منی اسپورٹس کمپلیکس“ میں بدل جائے۔
یہ وہی منصوبہ ہے جس کا خواب 2022 میں دیکھا گیا تھا۔ خواب بھی کسی معمولی شخص نے نہیں، بلکہ اسکول کے پرنسپل اور اس وقت کے جنرل سیکرٹری اسکولز اسپورٹس ٹورنامنٹ، نوید اختر اور کلیم محسود نے۔ انہوں نے بڑی امیدوں سے چیئرمین BISE پشاور اور محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کو درخواست بھیجی تھی کہ اسکول کے گراونڈ کو جمنازیم، کورٹ، گراونڈ اور 400 میٹر ٹریک سمیت جدید ”منی اسپورٹس کمپلیکس“ بنایا جائے۔تین سال گزر گئے۔ زمین وہی، گھاس وہی، خواب وہی، اور خاموشی بھی وہی۔
شائد یہ فائل ابھی تک ”پروسس میں“ ہے محکمہ تعلیم میں کوئی فائل "پروسس میں" چلی جائے تو سمجھ لیں وہ بس فائل نہیں، اب وہ تاریخی یادگار ہے۔ اس منصوبے کی فائل بھی شاید اسی کیٹگری میں جا چکی ہے۔ کسی میز کے نیچے، چائے کے کپ کے داغ کے ساتھ، یا کسی نئے افسر کے تبادلے کے کاغذات کے نیچے دبی ہوئی ہوگی۔ انتظامیہ آج بھی ”درخواست“ کے انتظار میں ہیں دیتے ہیں۔ مگر نتیجہ؟ وہی پرانا: "جی، آپ کی درخواست زیرِ غور ہے۔"غور کب ختم ہوگا؟ شاید اس وقت جب موجودہ پرنسپل ریٹائر ہو جائیں، اور ان کے شاگرد ہی محکمے میں نئے افسر بن کر اس فائل کو "ری اوپن" کریں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پشاور بورڈ ہر سال کلاس نہم اور فرسٹ ائیر کے داخلوں میں طلباء سے 150 روپے ”اسپورٹس فنڈ“ کے نام پر وصول کرتا ہے۔ اگر حساب لگایا جائے تو یہ رقم تقریباً ڈھائی کروڑ روپے سالانہ بنتی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ یہ ڈھائی کروڑ آخر جاتی کہاں ہے؟کھیلوں کے میدانوں میں تو نہیں، کیونکہ وہاں گھاس کے بجائے گرد اڑتی ہے۔ طلبہ کی سہولت پر نہیں، کیونکہ وہ تو خود گراونڈ کے لیے ”منتیں“ کرتے پھرتے ہیں۔ شاید یہ رقم بھی کسی بڑے ”پراجیکٹ“ کے انتظار میں ہے، جو کبھی کاغذ سے باہر نہیں نکلتا۔
پشاور کے کھیلوں کے انچارج، سب سے زیادہ خوار لوگ ہیں جو نہ صرف کھیلوں کے میدانوں کو آباد کرنے کیلئے کوششیں کرتے ہیں بلکہ یہ کام مفت میں ان سے لیا جاتا ہے اضافی وقت دینے پر انہیں کو ئی اعزازیہ بھی نہیں ملتا.ڈسٹرکٹ پشاور میں جب اسکولوں کے مابین کھیلوں کے مقابلے شروع ہوتے ہیں، تو کھیلوں کے انچارجوں کا حال دیکھنے والا ہوتا ہے۔ان کے پاس فنڈ نہیں، میدان نہیں، اور سب سے بڑھ کر ”تعاون“ نام کی کوئی چیز نہیں۔ پھر بھی ان کے ذمہ تیرہ مختلف مقابلے ہوتے ہیں، جن کے لیے انہیں کبھی کسی گراونڈ کے مالک کے آگے درخواست، تو کبھی کرایہ دینا پڑتا ہے۔یعنی کھیلوں کے فروغ کے بجائے زیادہ وقت ”زمین“ کے حصول پر خرچ ہو جاتا ہے۔
سچ پوچھیں تو ہمارے کھیلوں کے انچارج اصل میں کھلاڑی نہیں، بلکہ ڈھونڈنے والے مجاہد ہیں۔ کوئی میدان ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں، کوئی فائل، کوئی دستخط۔ ان کی تربیت ”کھیلوں“ سے زیادہ ”کاغذی جنگ“ کے لیے ہوتی ہے۔تین سال میں حکومتیں بدل گئیں، سیکرٹری تبدیل ہو گئے، پرنسپل ریٹائر ہونے کے قریب ہیں، مگر منی اسپورٹس کمپلیکس وہیں کا وہیں۔ شاید پشاور کے حکام کو ”منی“ لفظ ہی پسند نہیں۔ وہ کہتے ہوں گے کہ اگر بنانا ہے تو ”میگا“ کمپلیکس بناو، ”منی“ سے ان کا معیار کم ہوتا ہے۔ مگر افسوس، میگا تو دور، منی بھی خواب بن گیا۔
پشاور کے اسکولوں کے بچے کھیلوں میں حصہ لینا چاہتے ہیں، مگر ان کے پاس جگہ نہیں۔ نہ کوئی مناسب گراونڈ، نہ سہولت۔زیادہ تر بچے سکول کے بعد پشاور صدر یا حیات آباد نہیں جا سکتے، کیونکہ وہ نہ فاصلے برداشت کر سکتے ہیں، نہ اخراجات۔ اگر ہائیر سیکنڈری اسکول نمبر 1 کے گراونڈ کو جدید انداز میں تیار کیا جائے تو یہی بچے کل کے بہترین کھلاڑی بن سکتے ہیں۔ مگر شاید ہمارے فیصلے کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ کھیل کا میدان صرف کرکٹ بورڈ کی ملکیت ہے، اسکول کے نہیں۔
یہ منصوبہ صرف ایک گراونڈ نہیں، ایک علامت ہے — اس بات کی کہ ہمارے تعلیمی ادارے کھیل کو کتنا ”سنجیدگی سے“ لیتے ہیں۔ ہم نصاب میں تو کھیلوں کی اہمیت پر مضمون لکھواتے ہیں، مگر عملی طور پر طالبعلم کو صرف ”خواب“ دیتے ہیں۔نوید اختر اور کلیم محسود نے جب یہ تجویز دی تھی تو ان کا مقصد یہ تھا کہ بچوں کے لیے ایک محفوظ، جدید اور فعال کھیلوں کا مرکز بن سکے۔ مگر تین سال میں اس تجویز کا حال دیکھ کر لگتا ہے جیسے کوئی پرانا اسکول کا نوٹس بورڈ ہو جس پر لکھا ہو: "Coming Soon — Mini Sports Complex" اور نیچے کسی نے چاک سے لکھ دیا ہو: "Since 2022"
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ”کھیلوں کی ترقی“ پر سیمینار ہوتا ہے تو یہی محکمے بڑی خوشی سے آ کر تقریریں کرتے ہیں۔ "ہم نوجوانوں کو کھیلوں کے ذریعے منشیات سے بچائیں گے۔""ہم اسکول لیول پر اسپورٹس کلچر کو فروغ دیں گے۔" اور سامعین تالیاں بجا کر چلے جاتے ہیں۔ پھر وہی فائل، وہی گراونڈ، وہی خاموشی۔لیکن پتہ چل رہاہے کہ یہ سب کھیل نہیں، کاغذی کلچر ہے کیونکہ ہمارے ہاں کھیلوں سے زیادہ ”کھیلوں کے کاغذات“ چلتے ہیں۔ ہر اجلاس میں ”پلاننگ“ ہوتی ہے، ”منظوری“ ہوتی ہے، ”مطالعہ“ ہوتا ہے۔ مگر جب عمل کی باری آتی ہے تو سب کا جواب ایک ہوتا ہے: "جی، فنڈز نہیں ہیں۔" فنڈز نہ ہونے کا بہانہ اس قدر مقبول ہے کہ شاید اب اس پر کوئی کتاب لکھی جا سکتی ہے — ”فنڈز کی کمی اور ترقیاتی خواب“
اگر کبھی محکمہ تعلیم جاگ گیا، اگر کبھی پشاور بورڈ نے وہ ڈھائی کروڑ روپے کھیلوں کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا، اگر کبھی کسی افسر نے فائل سے دھول جھاڑ کر ”منی اسپورٹس کمپلیکس“ کو حقیقت بنانے کا حوصلہ دکھایا — تو شاید ہم بھی یہ کہہ سکیں گے کہ ”دیر آید، درست آید“۔ فی الحال تو حالت یہ ہے کہ بچے گیند لیے میدان ڈھونڈتے پھرتے ہیں، پرنسپل نئی درخواست لکھتے ہیں، اور حکام اپنی فائلوں میں ”کھیل“ کھیلتے ہیں۔تین سال میں حکومتیں بدل گئیں، موسم بدلے، مگر اسکول کا گراونڈ وہی۔ ایسا لگتا ہے جیسے ”منی اسپورٹس کمپلیکس“ نہیں، بلکہ ”منی صبر آزما منصوبہ“ ہو۔ اور اگر یہی رفتار رہی تو شاید 2030 تک گراونڈ کے باہر ایک تختی لگ جائے گی:"یہاں منی اسپورٹس کمپلیکس تعمیر ہونا تھا۔"(عملدرآمد زیرِ غور ہے۔)
#Peshawar #MiniSportsComplex #KPEducation #SportsNeglect #Satire #MusarratUllahJan |