ٹوٹے گھر کے بچے

طلاق، علیحدگی، اور گھریلو ناچاقی --یہ صرف دو افراد کی کہانی نہیں، بلکہ ایک پوری نسل کی بربادی کی داستان ہے۔ کسی بھی گھر میں جب میاں بیوی کے درمیان رشتہ ٹوٹتا ہے، تو سب سے گہرا زخم ان معصوم دلوں پر لگتا ہے جو اپنے والدین کو لڑتے دیکھتے ہیں، مگر سمجھ نہیں پاتے کہ وہ کس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔ یہی وہ بچے ہیں جنہیں دنیا ’’ٹوٹے گھر کے بچے‘‘ کہتی ہے۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ تو ہوتی ہے مگر دل کے اندر ایک طوفان چھپا ہوتا ہے۔
پاکستان میں شادیوں کے ٹوٹنے اور گھروں کے بکھرنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ خاندانی نظام، جو کبھی ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد سمجھا جاتا تھا، اب خطرے میں ہے۔ 2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً اسی ہزار سے زائد طلاق کے کیسز عدالتوں میں دائر ہوتے ہیں۔ لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں روزانہ درجنوں کیسز درج ہوتے ہیں۔ پنجاب کی فیملی کورٹس میں ہر دس شادیوں میں سے تقریباً دو شادیوں کا انجام علیحدگی پر ہوتا ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف عدالتوں کے ہیں، جب کہ ہزاروں جوڑے ایسے بھی ہیں جو قانونی طور پر علیحدہ نہیں ہوئے مگر سالوں سے الگ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان تمام ٹوٹے رشتوں کے بیچ میں سب سے زیادہ متاثر وہ بچے ہیں جن کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔
پاکستانی معاشرت میں بچے کا سب سے بڑا سہارا اس کا خاندان ہوتا ہے۔ ماں اور باپ کے درمیان محبت، احترام اور توازن ہی بچے کی شخصیت کا ستون بنتا ہے۔ مگر جب یہی ستون گرنے لگتے ہیں تو بچے کے اندر کی دنیا لرز جاتی ہے۔ ایک ایسا بچہ جس کے والدین میں علیحدگی ہو جاتی ہے، اس کے لیے دنیا اچانک غیر محفوظ بن جاتی ہے۔ اسے سمجھ نہیں آتا کہ وہ کس کے ساتھ ہے۔ عدالتوں کے چکر، ملاقاتوں کے جھگڑے، اور ایک گھر سے دوسرے گھر جانے کی اذیت اس کی معصومیت کو نگل لیتی ہے۔
پاکستان میں ایسے بچوں کی صحیح تعداد معلوم کرنا مشکل ہے کیونکہ اکثر والدین اس مسئلے کو خاندانی شرم سمجھ کر چھپاتے ہیں۔ لیکن سماجی اداروں کے اندازے کے مطابق ملک میں لاکھوں بچے ایسے ہیں جو یا تو طلاق یافتہ والدین کے ہیں یا ایسے گھروں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ماں باپ ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی مسلسل لڑائی میں مبتلا ہیں۔ یہ بچے ذہنی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ طلاق یا علیحدگی کے بعد بچوں پر تین طرح کے اثرات پڑتے ہیں: ذہنی، جذباتی اور سماجی۔
ذہنی اثرات میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچہ خود کو قصوروار سمجھنے لگتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ شاید ماں باپ اس کی وجہ سے الگ ہوئے ہیں۔ وہ احساسِ جرم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بعض بچے چپ اور خاموش ہو جاتے ہیں، اور بعض غصے، چڑچڑاہٹ اور ضد میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایسے بچے اسکول میں تو بیٹھتے ہیں مگر ذہن کہیں اور ہوتا ہے۔ وہ پڑھائی پر توجہ نہیں دے پاتے، نتیجتاً کارکردگی گر جاتی ہے۔ پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں کیے گئے سروے بتاتے ہیں کہ ایسے بچوں کی حاضری، گریڈز اور اعتماد تینوں میں واضح کمی پائی جاتی ہے۔
جذباتی لحاظ سے بھی یہ بچے شدید دباؤ میں رہتے ہیں۔ انہیں یہ خوف ستاتا ہے کہ کل اگر وہ کسی سے محبت کریں گے تو وہ رشتہ بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ وہ دوسروں پر بھروسہ کرنے سے گھبرانے لگتے ہیں۔ اگر والد یا والدہ دوبارہ شادی کر لیں تو وہ اپنے آپ کو مزید تنہا محسوس کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کی جگہ کوئی دوسرا لے چکا ہے۔ یہی احساس بعد میں ان کے رویوں کو متاثر کرتا ہے۔ بہت سے بچے جوانی میں قدم رکھتے ہی یا تو بغاوت کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا پھر اندر ہی اندر ٹوٹ جاتے ہیں۔
سماجی لحاظ سے ایسے بچوں کو معاشرہ بھی آسانی سے قبول نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں "ٹوٹے گھر کے بچے" کہنا ایک طرح کی برانڈنگ بن چکی ہے۔ اسکولوں میں، رشتہ داروں کے درمیان، حتیٰ کہ دوستوں کے حلقے میں بھی انہیں مختلف نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ رویہ ان کے اندر احساسِ کمتری کو مزید بڑھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے بچے یا تو حد سے زیادہ حساس ہو جاتے ہیں یا بے پروا۔ دونوں صورتوں میں نقصان ان کی شخصیت کو ہوتا ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بچہ ماں اور باپ دونوں کا حق دار ہے۔ قرآن نے واضح طور پر کہا ہے کہ "ماں اپنے بچے کو دو سال دودھ پلائے اور باپ اس کا خرچ برداشت کرے۔" اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی علیحدگی کے باوجود بچے کے حقوق ختم نہیں ہوتے۔ مگر ہمارے معاشرے میں اکثر والدین طلاق کے بعد بچوں کو ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ والد بچے کو ماں سے ملنے نہیں دیتا، یا ماں بچے کے دل میں باپ کے لیے نفرت پیدا کرتی ہے۔ یہ رویہ دراصل بچے کے جذباتی قتل کے مترادف ہے۔
عدالتی نظام بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ فیملی کورٹس میں بچوں کی کسٹڈی کے فیصلے برسوں چلتے ہیں۔ بعض اوقات ماں کو صرف دو گھنٹے ملاقات کا حق دیا جاتا ہے، اور بعض اوقات والد کو مہینوں تک اپنے بچوں سے ملنے نہیں دیا جاتا۔ اس دوران بچے ایک ذہنی قید میں رہتے ہیں۔ انہیں ہر روز وہ ماں یاد آتی ہے جو پاس نہیں، اور وہ باپ جو صرف تصویروں میں رہ گیا ہے۔
نفسیاتی ماہرین کے مطابق ایسے بچے بڑے ہو کر دو انتہاؤں میں سے کسی ایک طرف چلے جاتے ہیں۔ یا تو وہ محبت سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں، یا وہ محبت کے لیے حد سے زیادہ محتاج۔ دونوں صورتوں میں ان کے رشتے غیر متوازن رہتے ہیں۔ کئی بچے بڑے ہو کر اپنی شادیوں میں وہی غلطیاں دہراتے ہیں جو ان کے والدین نے کی تھیں۔ اس طرح ایک نسل کی غلطی دوسری نسل کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔
پاکستان میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی جامع ریاستی پالیسی موجود نہیں۔ تعلیمی نصاب میں خاندانی نظام، والدین کی ذمہ داریوں یا ازدواجی تربیت کے مضامین نہیں پڑھائے جاتے۔ اسکولوں اور کالجوں میں کبھی یہ نہیں بتایا جاتا کہ ازدواجی زندگی کیا ہے، اور اختلافات کو کیسے سنبھالا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان نسل عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی غیر تیار ہوتی ہے۔ وہ شادی کو ایک خواب سمجھتے ہیں مگر جب حقیقت سامنے آتی ہے تو خواب بکھر جاتا ہے۔
میڈیا نے بھی اس مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ڈرامے اور فلمیں محبت اور علیحدگی کو ایک تفریحی موضوع بنا دیتی ہیں۔ مگر یہ نہیں دکھاتیں کہ علیحدگی کے بعد ایک بچے کی راتیں کیسے گزرتی ہیں، یا وہ اسکول میں دوستوں کے سامنے اپنے والدین کی بات چھپانے کی کتنی تکلیف جھیلتا ہے۔ میڈیا اگر چاہے تو اس موضوع کو اصلاحی زاویے سے پیش کر سکتا ہے۔ کامیاب شادیوں، سمجھوتے اور صبر کے واقعات دکھائے جا سکتے ہیں تاکہ معاشرے میں رشتوں کی اہمیت دوبارہ اجاگر ہو۔
اسلام نے ہمیشہ خاندان کو معاشرتی بنیاد کہا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو۔” مگر آج ہم نے گھر کو ترجیح دینے کے بجائے دنیا کے معیاروں کو ترجیح دے دی ہے۔ ماں باپ جب خود ہی رشتے میں برداشت کھو بیٹھیں تو اولاد کہاں سے سیکھے کہ محبت اور احترام کیا ہوتے ہیں؟ ریاست کو چاہیے کہ ایسے بچوں کے لیے نفسیاتی مشاورت اور کونسلنگ کے ادارے قائم کرے۔ اسکولوں میں ایسے پروگرامز شروع کیے جائیں جہاں علیحدگی کے شکار بچوں کو اعتماد، جذباتی استحکام اور معاشرتی تعلقات بہتر بنانے میں مدد دی جائے۔ عدالتوں کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہر فیصلے کے پیچھے ایک بچے کا مستقبل ہوتا ہے۔ طویل مقدمات، تاخیر سے فیصلے اور غیر منصفانہ ملاقات کے اوقات صرف والدین نہیں، نسلوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ “ٹوٹے گھر کے بچے” دراصل معاشرے کے ٹوٹے ہوئے ضمیر کی علامت ہیں۔ وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم نے خاندان جیسے مقدس ادارے کی حفاظت نہیں کی۔ جب ہم نے اللہ کے احکامات اور نبی ﷺ کے طریقوں سے منہ موڑ لیا تو گھروں سے سکون بھی رخصت ہو گیا۔ اب وقت ہے کہ ہم رشتوں کی بنیاد دوبارہ ایمان، محبت اور صبر پر رکھیں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہم سے یہی پوچھیں گی کہ ہم نے انہیں محبت سے محروم کیوں کیا؟ ایک بچے کے لیے ماں اور باپ دونوں کا وجود آکسیجن کی طرح ہے، اور جب ہم یہ آکسیجن چھین لیتے ہیں تو زندگی باقی تو رہتی ہے، مگر سانس نہیں آتی۔
Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 137 Articles with 156619 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More