اردو ہندی تنازع :ایک تاریخی اور لسانی مطالعہ
(Dr Saif Wallahray, Lahore)
|
اردو ہندی تنازع : تاریخی اور لسانی مطالعہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ انیسویں صدی کے برطانوی ہندوستان میں اُبھرنے والا ہندی اردو تنازع برصغیر کی لسانی، تہذیبی اور سیاسی تاریخ کا نہایت اہم باب ہے۔ یہ محض زبان کا اختلاف نہیں تھا بلکہ ایک ایسی فکری و ثقافتی کشمکش تھی جس نے آگے چل کر مذہبی اور قومی شناختوں کی تفریق کو گہرا کر دیا۔ اس تنازعے کی جڑیں اس وقت کے نوآبادیاتی نظام میں پوشیدہ تھیں، جہاں زبان کو طاقت، اقتدار اور شناخت کے وسیلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ برطانوی حکومت نے لسانی پالیسیوں کے ذریعے مختلف طبقوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زبان ایک سیاسی علامت بن گئی۔ ہندی اور اردو بنیادی طور پر ایک ہی زبان، یعنی ہندوستانی کے دو اسالیب ہیں۔ ان کی بول چال میں تفاوت کم ہے، لیکن ان کی تحریری صورتیں، ذخیرۂ الفاظ اور تہذیبی پس منظر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے جو قدیم برہمی سلسلے کی ایک شاخ ہے، جبکہ اردو نے عربی فارسی رسم الخط کو اختیار کیا جو اپنے حسن، نفاست اور جمالیاتی پہلو کے باعث برصغیر میں ادبی و فنی روایت کا حصہ بن گیا۔ ہندوستانی زبان کا ارتقا دہلی اور اس کے گرد و نواح میں بولی جانے والی دہلوی بولی سے ہوا۔ دہلی سلطنت اور بعد ازاں مغلیہ سلطنت کے ادوار میں یہ زبان فارسی کے اثر سے مزین ہوئی اور ایک ایسی مشترکہ لسانی روایت وجود میں آئی جس نے شمالی ہند کے مختلف طبقات کو جوڑے رکھا۔ جنوبی ہند میں یہی زبان دکنی کے نام سے پہچانی گئی اور شمال میں اسے ہندی، ہندوی یا ہندوستانی کہا گیا۔ اٹھارویں صدی کے اواخر میں اس زبان کی فارسی آمیز شکل زیادہ مستحکم ہو کر ’’اردو‘‘ کے نام سے معروف ہوئی۔ ’’زبانِ اردوئے معلّیٰ‘‘ کا یہ مفہوم دراصل درباری و لشکری ماحول کی دین تھا، جہاں مختلف لسانی پس منظر رکھنے والے افراد ایک مشترکہ زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ 1837ء میں برطانوی حکومت نے اردو کو شمالی ہندوستان کی سرکاری زبان قرار دیا، جس کے بعد یہ انتظامی، عدالتی اور تعلیمی سطح پر وسیع پیمانے پر رائج ہو گئی۔ اس دور میں اردو ادب نے غیر معمولی ترقی کی، شاعری، نثر، تنقید اور صحافت کے میدان میں اردو نے ایک زندہ اور ہمہ گیر زبان کی حیثیت اختیار کی۔ انیسویں صدی کے وسط میں ہندی کے احیا کی تحریک سامنے آئی، جس کا مقصد دیوناگری رسم الخط کو فروغ دینا اور فارسی و عربی الفاظ سے پاک ایک سنسکرتی لسانی صورت کو معیار بنانا تھا۔ 1893ء میں قائم ہونے والی ’’ناگری پرچارنی سبھا‘‘ نے ہندی کے فروغ کے لیے منظم کوششیں کیں اور 1910ء میں ’’ہندی ساہتیہ سمیلن‘‘ نے اس تحریک کو مزید تقویت بخشی۔ اس کے نتیجے میں اردو اور ہندی کے درمیان ایک واضح لسانی لکیر کھنچ گئی۔ اردو کے ادیبوں نے اپنی زبان میں فارسی و عربی اثرات کو برقرار رکھنے کی وکالت کی، جبکہ ہندی کے حامیوں نے سنسکرتی الفاظ کی شمولیت کو قومی شناخت کے ساتھ جوڑا۔ یوں ایک لسانی اختلاف رفتہ رفتہ مذہبی و تہذیبی تقسیم میں تبدیل ہو گیا۔ 1890ء کے بعد شمالی ہند کے متحدہ صوبہ جات میں یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا۔ ہندی اور اردو کے حامی اس بات پر منقسم تھے کہ سرکاری دفاتر میں کون سا رسم الخط اختیار کیا جائے ، دیوناگری یا نستعلیق۔ 1900ء میں حکومت نے دونوں کو علامتی طور پر مساوی حیثیت دینے کا اعلان کیا، مگر عملی طور پر اردو کی سرکاری حیثیت کمزور پڑنے لگی۔ ہندو رہنماؤں نے ہندی کو قومی زبان کے طور پر پیش کیا، جبکہ مسلم طبقہ اردو کو اپنی تہذیبی اور مذہبی شناخت کا اظہار سمجھنے لگا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جہاں زبان ایک تہذیبی علامت سے بڑھ کر ایک سیاسی و مذہبی نشان بن گئی۔ مہاتما گاندھی نے اس اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش میں ’’ہندوستانی‘‘ کو مشترکہ قومی زبان کے طور پر پیش کیا، جو دونوں رسم الخطوں میں لکھی جا سکتی تھی، لیکن سیاسی حالات اور مذہبی مفادات کے باعث یہ تصور عملی صورت نہ اختیار کر سکا۔ 1947ء کی تقسیمِ ہند کے بعد بھارت نے 1950ء کے آئین میں ہندی (دیوناگری) اور انگریزی کو سرکاری زبانیں قرار دیا، جبکہ اردو رفتہ رفتہ اپنے سرکاری مقام سے محروم ہوتی گئی۔ پاکستان میں اردو کو قومی زبان تسلیم کیا گیا، مگر وہاں بھی علاقائی زبانوں کے مقابلے میں اس کی ترویج ایک الگ بحث بن گئی۔ ماہرین لسانیات کے نزدیک ہندی اور اردو کے درمیان بنیادی فرق محض رسم الخط اور ذخیرۂ الفاظ کا ہے۔ شیخر بندیوپادھیائے کے مطابق، ’’درحقیقت ہندی اور اردو ایک ہی زبان کی دو تحریری صورتیں ہیں؛ فرق صرف یہ ہے کہ ہندی دیوناگری میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ رکھتی ہے، جبکہ اردو فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور فارسی و عربی الفاظ پر مشتمل ہے۔‘‘ بول چال کے درجے پر دونوں زبانوں میں اس قدر قربت ہے کہ ایک کے بولنے والے دوسرے کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں، مگر جب بات تحریر اور شناخت کی آتی ہے تو دونوں کے درمیان ایک تاریخی خلیج حائل ہو جاتی ہے۔ اردو ہندی تنازعہ صرف ایک لسانی قضیہ نہیں بلکہ برصغیر کی تہذیبی تاریخ کا وہ موڑ ہے جس نے زبان، ثقافت اور شناخت کے درمیان حد فاصل کھینچ دی۔ یہ تنازعہ دراصل اس بات کی علامت ہے کہ زبان محض اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ قوموں کی فکری، تہذیبی اور سیاسی خودی کا مظہر بھی ہوتی ہے۔ اردو اور ہندی کی یہ داستان اس بات کا ثبوت ہے کہ زبانیں صرف حروف کا مجموعہ نہیں بلکہ تاریخ اور تہذیب کے آئینے میں قوموں کی اجتماعی یادداشت بھی ہیں۔ |
|