لنڈی کوتل سے جمرود تک: کرکٹ نہیں، سفارش کپ چل رہا ہے!
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبر ضلع میں پی سی بی کے کرکٹ کے ٹرائلز کیا ہوئے، لگتا ہے جیسے کوئی ڈرامہ سیریل چل رہی ہو—اور وہ بھی بغیر ہدایتکار کے! لنڈی کوتل میں تو ایک والد نے احتجاجاً اپنے بیٹے کا کٹ جلا دیا تھا، اب جمرود کے لوگوں نے بھی میدان میں آ کر پورے ٹرائلز کو ”ڈرامہ“ اور ”ظلم“ قرار دے دیا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ یہ کھیل نہیں، بلکہ ”اقرباء پروری لیگ“ ہے، جہاں میرٹ کا بیٹ توڑ کر سفارش کا چھکا مارا جاتا ہے۔
اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب کسی کے 16 سالہ بیٹے کو 19 سال کا کہہ کر باہر نکالا جائے، اور پھر کہا جائے کہ ”بیٹا ابھی چھوٹا ہے“، تو بندہ آخر کرے بھی تو کیا کرے؟ امیر نواز شینواری نے لنڈی کوتل میں بیٹے کا کٹ جلا کر احتجاج کیا تھا، اور اب جمرود والوں نے زبان سے وہی آگ لگا دی ہے—فرق بس اتنا ہے کہ ایک نے راکھ بنائی، دوسرے نے سچ بول دیا۔جمرود والوں کا کہنا ہے: یہ ٹرائلز نہیں، تماشا ہے
جمرود کے شہریوں نے شکایت کی ہے کہ خیبر کے ٹرائلز کا پورا عمل غیر شفاف تھا۔ ان کے مطابق پہلے سے طے شدہ کھلاڑیوں کو منتخب کیا گیا، اور باقیوں کو محض اس لیے بلایا گیا کہ تصویر بنے، بھیڑ لگے، اور "جمہوریت" دکھائی دے۔ ایک نوجوان کھلاڑی نے طنزیہ انداز میں کہا، "ہمیں بلایا صرف اس لیے گیا کہ گراو¿نڈ خالی نہ لگے۔ بس اتنا رول تھا ہمارا۔"اب کوئی ان سے پوچھے، بھائی اگر ٹرائلز پہلے سے طے شدہ تھے تو پھر یہ عوامی دعوت کس لیے؟ شاید اسی لیے کہ عوام بھی دیکھ لیں کہ کرکٹ نہیں، سفارش کپ چل رہا ہے۔
لنڈی کوتل کے امیر نواز شینواری کا دکھ تو پورا ملک سن چکا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ان کے 16 سالہ بیٹے کو 19 سال کا لکھ کر مذاق اڑایا گیا، حالانکہ لڑکا چیلنج کپ میں بہترین کارکردگی دکھا چکا تھا۔اور اب جمرود والے کہہ رہے ہیں کہ "یہ ظلم ہے۔" بس فرق اتنا ہے کہ ایک باپ نے احتجاج میں کٹ جلایا، اور دوسرے باپوں نے صبر کے کٹ پیے۔ کیا خوب تماشہ ہے! ایک طرف لڑکے محنت کر رہے ہیں، دوسری طرف سلیکٹرز چشمہ صاف کر کے ”چچا زاد“ اور ”خالہ زاد“ ڈھونڈ رہے ہیں۔ لگتا ہے خیبر کرکٹ کے ٹرائلز میں کارکردگی نہیں، رشتہ داری کا معیار رکھا گیا تھا۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ ٹرائلز کم اور خاندان کی تقریب زیادہ لگ رہی تھی۔ جہاں ایک کھلاڑی کے ساتھ چچا سلیکٹر اور ماموں کوچ نکل آئے۔ اور پھر جب نتائج آئے تو سب حیران تھے—سوائے ا±ن کے جن کے نام پہلے سے لسٹ میں تھے۔ایک مقامی کھلاڑی نے مزاحیہ انداز میں کہا: "ہم تو سمجھ رہے تھے ٹرائلز ہیں، بعد میں پتہ چلا رشتہ داری کنفرمیشن تھی!" اب سوال یہ ہے کہ جب کھیل کے میدان میں انصاف نہیں، تو پھر کون سا ادارہ بچے گا جہاں امید باقی رہے؟
پاکستان کرکٹ بورڈ شاید اسلام آباد یا لاہور میں بیٹھا یہ سب سن کر چائے پی رہا ہے۔ ان کے لیے خیبر کے ٹرائلز شاید اتنے ہی اہم ہیں جتنے موسم کی خبر ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہی علاقے وہ جگہ ہیں جہاں سے اصلی ٹیلنٹ آتا ہے—وہ ٹیلنٹ جو نہ بڑے کلبوں میں کھیلتا ہے، نہ کسی سفارشی کھڑکی سے گزرتا ہے۔ اگر یہی نظام چلتا رہا تو ایک دن PCB کو "Pakistan Cricket Board" نہیں بلکہ "Pakistan Cousin Board" کہنا پڑے گا، کیونکہ سلیکشن صرف کزنز اور جاننے والوں کے لیے ہوگی۔
سوشل میڈیا پر تو جیسے آندھی آ گئی ہے۔ لوگوں نے جمرود اور لنڈی کوتل کے ٹرائلز کو ”ظلم کپ“ کا نام دے دیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا: "یہ کرکٹ نہیں، سفارش کی لیگ ہے۔ یہاں گیند نہیں، تعلقات پھینکے جاتے ہیں۔" ایک اور نے طنز کیا: "ہمارے علاقے میں کرکٹ کھیلنے کے لیے بیٹ کی نہیں، سفارش کی ضرورت ہوتی ہے۔" کچھ لوگوں نے تو مشورہ دیا ہے کہ اگلی بار PCB ٹرائلز کے بجائے "Family Tree" مانگ لے تاکہ وقت بچے۔
لنڈی کوتل کے امیر نواز نے جب اپنے بیٹے کا کٹ جلایا تھا، تو وہ دراصل اپنے بیٹے کے خواب جلا رہے تھے۔ اب جمرود والوں نے آواز بلند کر کے وہی راکھ پورے خیبر پر بکھیر دی ہے۔یہ احتجاج اور آوازیں ایک ہی بات کہہ رہی ہیں: “یہ نظام غریب کے بچوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتا۔” جب سلیکشن کم اور تعلق زیادہ دیکھا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اصلی کھلاڑی باہر، اور ”تعلق والے“ اندر۔
پاکستان میں کھیلوں کا نظام اب ایسا لگتا ہے جیسے کوئی مزاحیہ خاکہ ہو۔ سفارش کے بغیر کھلاڑی کا آگے آنا ایسے ہے جیسے بغیر بجلی کے فریج چل جائے—ممکن تو ہے، مگر صرف خواب میں۔ جمرود کے لوگوں نے صحیح کہا، یہ ظلم ہے۔ اور لنڈی کوتل کے باپ نے وہی ظلم عملی طور پر دکھا دیا۔ اب اگر PCB نے آنکھیں بند رکھیں، تو جلد ہی "PCB" کا مطلب بدل جائے گا: People’s Complaint Bureau!
اگر واقعی کرکٹ میں میرٹ لانا ہے تو ٹرائلز کو ویڈیو پر لائیو دکھایا جائے، عمر کی تصدیق کے لیے بایومیٹرک سسٹم لگایا جائے، اور سلیکشن لسٹ پبلک کی جائے۔ورنہ کل کو ہر گاو¿ں، ہر قصبہ، اپنے اپنے کرکٹ کٹس جلا رہا ہوگا، اور PCB کے دفاتر ”گراو¿نڈ آف فلیمز“ کہلائیں گے۔ لنڈی کوتل کا احتجاج، جمرود کی آواز، اور عوام کا غصہ—یہ سب کسی اتفاقی واقعے کا نتیجہ نہیں۔ یہ ا±س نظام کی پیداوار ہے جو برسوں سے میرٹ کے بجائے سفارش پر چل رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کھیلوں کے ادارے اپنے چہروں سے ”فرشتے“ کا ماسک ہٹا کر آئینہ دیکھیں۔ کیونکہ جب عوام کا صبر ختم ہوتا ہے تو پھر صرف کٹ نہیں جلتے، ادارے بھی جل اٹھتے ہیں۔اگر انصاف نہ آیا تو اگلی بار لوگ کرکٹ کٹ نہیں، بلکہ پورا "ٹرائل سسٹم" جلا دیں گے۔
#سفارش_کپ #ظلم_کپ #PCB #KhyberCricket #لنڈی_کوتل #جمرود #MeritMatters #SportsReform #TalentIgnored #FairPlayPlease
|