بھارت، پاکستان اور اولمپک سیاست: ہنسی کے ساتھ سنجیدہ حقیقت


بھارت نے ایک بار پھر اپنے کھیلوں کے سفارتی ڈپلومیسی کے کھیل میں پاکستان کے خلاف کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، اور وہ بھی ایسے وقت میں جب IOC نے انڈونیشیا کے اسرائیلی ویزا اسکینڈل پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ یہ خبر سن کر سب سے پہلے یہی خیال آتا ہے: بھارت نے کھیل کو سیاست کے سٹیج پر کیسے بدل دیا ہے، اور اب کھلاڑی میدان میں ہیں یا سفارتی محاذ پر؟

سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ بھارت کی وزارت کھیل کو بالکل بھی شرم نہیں آئی کہ وہ پاکستان کے خلاف کھیلنے کی حمایت کر رہی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اولمپک چارٹر ہمیں یہ اجازت دیتا ہے کہ ہم کسی ملک کو “نسلی، مذہبی یا سیاسی وجوہات” کی بنا پر نہیں کھیلنے دیں۔ یہ تو بالکل ویسا ہی ہے جیسے کوئی کہے، "ہم آپ کو بلاو? گے، بس یہ نہیں کہ آپ ہمیں برا بھلا کہیں یا اپنی حکومت کے فیصلے لے کر آئیں۔"

یہ سچ ہے کہ پہلگام حملوں کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات ختم کر دیے تھے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بھارت نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ "کثیرالجہتی مقابلوں" میں کھیلنا جاری رکھے گا۔ مطلب یہ کہ اگر عالمی کھیلوں کا کنونشن ہو، اور وہاں پاکستان آئے، تو بھارت کے کھلاڑی بھی آئیں، لیکن بس ذرا فاصلے پر، جیسے دو پڑوسی جو گلی میں ٹکر نہ لیں۔

اور یہ سب کچھ IOC کے سخت موقف کی روشنی میں ہوا ہے۔ انڈونیشیا میں اسرائیلی کھلاڑیوں کے ویزا بلاک ہونے پر IOC نے عالمی کھیلوں میں پابندیاں لگا دی ہیں۔ بھارت نے یہ دیکھ کر فوراً سوچا: "ہاں، پاکستان کے خلاف کھیلنا ضروری ہے، کیونکہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہمارا Olympic Charter کے ساتھ تعلق خطرے میں پڑ جائے گا۔" یہ وہی Olympic Charter ہے جسے اکثر کھلاڑی پڑھ کر سوتے ہیں، اور وزارت کھیل اسے پڑھ کر سیاست کرتی ہے۔

مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ IOC نے انڈونیشیا کو خبردار کیا کہ وہ عالمی کھیلوں کی میزبانی نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ سب کھلاڑیوں کو داخلہ نہ دے۔ یہ سن کر خیال آتا ہے کہ شاید بھارت بھی سوچ رہا ہے: "کیا ہمیں بھی ایسا کچھ کرنا پڑے گا؟" ویسے، بھارت کی موجودہ حکمت عملی بالکل اسی پیٹرن پر چل رہی ہے: کھیلیں گے، لیکن سیاست کو بھی ہاتھ میں رکھیں گے، اور سب کچھ ایسے کریں گے کہ بعد میں کہیں یہ نہ کہا جائے کہ ہم نے پاکستان کے خلاف کھیلنے کا فیصلہ جذباتی طور پر لیا۔

اب آئیے ذرا کھلاڑیوں کی زندگی پر بھی نظر ڈالیں۔ وہ تو صرف کھیل کے لیے تیار ہوتے ہیں، لیکن اب وہ سیاست کے میدان میں بھی کھیل رہے ہیں۔ وہ سوچ رہے ہیں: "اگر ہم نے اچھا کھیلا تو کیا لوگ ہمیں گلے لگائیں گے یا بو کریں گے؟" USOPC کی طرح بھارت کی ٹیم بھی اسی مسئلے کا سامنا کر رہی ہے، مگر وہ اسے اتنی سنجیدگی سے لے رہی ہے کہ جیسے کھلاڑی نہیں بلکہ سفارتی مشیر ہیں۔

یہاں ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بھارت کی وزارت کھیل نے کہا کہ پاکستان کے بائیکاٹ سے ہمارے Olympic اہداف خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ یہ وہی وزارت ہے جسے کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر صارفین نے خوب تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ تصور کریں: ایک طرف عوام ناراض، دوسری طرف IOC سخت، اور بیچ میں وزارت کھیل کہتی ہے، "ہم صحیح کر رہے ہیں، بس سمجھ لو!" یہ تو بالکل ایسے ہے جیسے کلاس میں استاد کہہ دے، "میں صحیح ہوں، چاہے بچے کچھ بھی کہیں!"

پاکستانی کھلاڑی بھی شاید اب سوچ رہے ہوں: "بھارت آئے گا، لیکن کیا وہ کھیل کے لیے آئے گا یا سیاست کے لیے؟" اور بھارت بھی سوچ رہا ہوگا: "ہم آئے ہیں، لیکن کھیلیں گے یا IOC کی ہدایات پر عمل کریں گے؟" یہ سب کچھ ایک سچویشن کامیڈی شو کی طرح لگتا ہے، جس میں سب کردار بہت سنجیدہ ہیں لیکن حقیقت میں سب ہنسنے پر مجبور ہیں۔

اب بات کرتے ہیں بین الاقوامی قوانین کی۔ IOC نے کہا کہ: "تمام اہل کھلاڑی بغیر کسی امتیاز کے بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیں، چاہے وہ کسی بھی ملک سے ہوں۔" یہاں سب سے مضحکہ خیز حصہ یہ ہے کہ یہ اصول بھی سیاسی ماحول میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ اگر کوئی ملک ویزا نہ دے، تو پابندی لگ جاتی ہے، اور اگر کوئی ملک بائیکاٹ کرے، تو Olympic Charter یاد آ جاتا ہے۔ بس ایسا لگتا ہے کہ قوانین اور سیاست کا رشتہ اب کھیل کے میدان میں ایک مزاحیہ ڈرامہ بن چکا ہے۔

مزید طنزیہ پہلو یہ ہے کہ بھارت کا موقف اپنے آپ میں ایک کلاسیکی کمڈی سین ہے پہلگام حملے ہوئے، تو پاکستان کے ساتھ تعلقات ختم کیے۔ پھر کثیرالجہتی مقابلوں میں پاکستان کے خلاف کھیلنا جاری رکھا۔ IOC کی پابندیوں اور Olympic Charter کو حوالہ دے دیا۔ اور آخر میں کہہ دیا: "ہم صحیح کر رہے ہیں، ہمارے Olympic اہداف محفوظ ہیں۔" اس پورے منظرنامے میں سب سے دلچسپ حصہ وہ ہے کہ کھلاڑی اس سب میں پھنس گئے ہیں۔ وہ نہ صرف کھیل کے دباو کا سامنا کر رہے ہیں بلکہ سیاست کے پیچیدہ میدان میں بھی اپنا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ اور عوام؟ وہ سوشل میڈیا پر تبصرے کر رہے ہیں کہ "یہ کھیل ہے یا سیاسی ڈرامہ؟"

اب سوچیں: اگر یہ سب کچھ ہالی ووڈ فلم کا منظر ہوتا تو کیا ہوتا؟ ہر کھلاڑی ایک جاسوس، ہر کھیل ایک مشن، اور ہر میچ سیاست کا حصہ۔ اور آخر میں، جیتنے والا نہیں بلکہ وہ ہوگا جس نے سب سے بہتر طریقے سے Olympic Charter اور سیاسی مفادات کا توازن بنایا۔ آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ بھارت کی وزارت کھیل نے شاید صحیح قدم اٹھایا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کھیل اور سیاست کا ملاپ ایک مزاحیہ، سنجیدہ اور تھوڑا پیچیدہ منظر پیش کرتا ہے۔ کھلاڑی میدان میں ہیں، لیکن سیاست بھی میدان میں ہے، اور عوام بیٹھ کر سب کچھ دیکھ رہے ہیں، کبھی ہنس کر، کبھی حیرت سے۔

یہ سب کچھ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کھیل صرف فیلڈ تک محدود نہیں رہا، بلکہ اب یہ سفارتی، قانونی اور سیاسی میدان بھی بن چکا ہے۔ اور جی ہاں، اس سب میں سب سے زیادہ مزاحیہ کردار شاید وہ قوانین اور چارٹر ہیں، جو سنجیدہ ہونے کے باوجود، کبھی کبھار سب کو ہنسنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ تو اگلی بار جب کوئی اولمپک کھیل دیکھیں، تو بس یہ یاد رکھیں: کھلاڑی رن کر رہے ہیں، گیند اڑ رہی ہے، اور سیاست اپنے پیچھے جتنا بھی مزاح پیدا کر رہی ہے، بس وہ سب کھیل کا حصہ ہے!

#pakistan #india #sports #cricket #kabbadi #games #olympic #charter #kp #musarratullahjan
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 831 Articles with 687257 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More