لان جائنس کا نظریۂ ترفع — تحقیقی و استدلالی مطالعہ
(Dr Saif Wallahray, Lahore)
|
لان جائنس کا نظریۂ ترفع — تحقیقی و استدلالی مطالعہ ----------------------------------------------- ادب کی دنیا میں ترفع یا Sublimity کا تصور وہ فکری محور ہے جس نے فن کے جمالیاتی، روحانی اور انسانی پہلوؤں کو نئی معنویت بخشی۔ لان جائنس نے اپنی مشہور تصنیف On the Sublime میں اس تصور کو فلسفیانہ و تنقیدی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے یہ بتایا کہ فن کی اصل عظمت اس کے اندر چھپی ہوئی بلندیِ احساس میں ہے، نہ کہ محض اس کے ظاہری اسلوب یا فنی صناعی میں۔ یونانی فکر میں جہاں افلاطون نے حسن کو مثالی تصور کے طور پر پیش کیا اور ارسطو نے فن کو فطرت کی تقلید (Mimesis) کے طور پر دیکھا، وہاں لان جائنس نے ان دونوں کے درمیان ایک ایسا فکری راستہ پیدا کیا جس نے فن کو انسانی روح کی رفعت سے جوڑ دیا۔ اس کے نزدیک ادب یا فن محض تخلیق نہیں بلکہ ایک وجدانی تجربہ ہے، جو قاری کی روح کو معمولی احساسات سے بلند کر کے ایک غیر معمولی سطح تک پہنچا دیتا ہے۔ یہی ترفع ہے، یعنی وہ مقام جہاں فن انسان کو اس کی محدودیت سے نکال کر ایک کائناتی وسعت میں داخل کر دیتا ہے۔ لان جائنس نے یہ واضح کیا کہ عظیم فن محض اسلوب کی چابک دستی یا لسانی خوب صورتی سے نہیں بنتا بلکہ اس کی بنیاد اس جذبے پر ہے جو فنکار کے اندر سے پھوٹتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ "زبان کی شوکت ترفع نہیں، جب تک خیال عظیم نہ ہو اور یہی نکتہ اس کے نظریے کا جوہر ہے۔ لان جائنس کا زمانہ پہلی صدی عیسوی کا سمجھا جاتا ہے، جب یونانی خطابت، فلسفہ اور جمالیات کے درمیان فکری بحثیں اپنے عروج پر تھیں۔ اس عہد میں بلاغت کو فن کا اعلیٰ نمونہ سمجھا جاتا تھا، لیکن لان جائنس نے خطابت کے اس رسمی تصور کو چیلنج کیا۔ اس نے کہا کہ عظیم خطیب وہ نہیں جو قواعد پر کامل عبور رکھتا ہے، بلکہ وہ ہے جس کی گفتار انسانی روح کو لرزا دے۔ اس کی نظر میں حقیقی فن وہ ہے جو اپنے اثر سے قاری یا سامع کو وجدانی طور پر متاثر کرے۔ اسی لیے اس نے کہا کہ ترفع کی اصل علامت وہ کیفیت ہے جس میں سامع یا قاری "اپنے آپ کو بھول جاتا ہے۔ یہ بھولنا دراصل ایک وجدانی اتحاد ہے جس میں انسان فن کے ساتھ ایک ہو جاتا ہے۔ لان جائنس کے نظریۂ ترفع کے پانچ بنیادی اصول ہیں جنہیں وہ فن کی عظمت کے بنیادی ذرائع قرار دیتا ہے: عظمتِ فکر، شدید جذبات، حسنِ ترکیب، بلند اسلوب، اور تاثر کی وحدت۔ ان میں سے ہر عنصر فن کے جمالیاتی توازن کو تشکیل دیتا ہے۔ عظمتِ فکر سے مراد یہ ہے کہ فنکار کے ذہن میں بڑے تصورات ہوں جو انسانی شعور کو وسعت دیں۔ شدید جذبات فنکار کے وجدان کو قوت دیتے ہیں، حسنِ ترکیب اور الفاظ کا توازن فن کی تاثیر کو بڑھاتا ہے، اور آخر میں اسلوب کی رفعت اسے لازوال بنا دیتی ہے۔ لان جائنس کے نزدیک ان تمام عناصر کا مقصد یہ ہے کہ فنکار اپنے قاری کو "اپنی حدود سے باہر" لے جائے، یعنی اسے ایک روحانی تجربہ عطا کرے۔ اس کے نظریے کے اثرات بعد میں مغربی فلسفہ اور تنقید میں گہرائی سے محسوس کیے گئے۔ ایڈمنڈ برک نے اپنی تصنیف میں Sublime کو خوف، حیرت اور وسعت سے تعبیر کیا۔ برک کے نزدیک وہ احساس جو انسان کو اس کی کمزوری کا احساس دلاتا ہے مگر ساتھ ہی کائنات کی عظمت کا ادراک بھی دیتا ہے، وہی Sublime ہے۔ اس طرح برک نے لان جائنس کے نظریے کو نفسیاتی اور جمالیاتی بنیادوں پر استوار کیا۔ کانٹ نے Critique of Judgment (1790) میں Sublime کو دو اقسام میں تقسیم کیا: Mathematical Sublime، جو کائناتی وسعت کے احساس سے پیدا ہوتا ہے، اور Dynamical Sublime، جو قدرتی طاقتوں کے سامنے انسانی شعور کی اخلاقی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان دونوں فلسفیوں کے ہاں لان جائنس کی فکر کا عکس نمایاں ہے، کیونکہ وہ فن کو محض خوبصورتی نہیں بلکہ روحانی تجربہ سمجھتا تھا۔ اردو ادب میں بھی لان جائنس کے نظریۂ ترفع کی بازگشت واضح طور پر سنائی دیتی ہے۔ حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں شاعری کے لیے اخلاقی اور انسانی معیار قائم کیے۔ وہ کہتا ہے کہ "شاعری کا مقصد دلوں کو بلند کرنا اور اخلاق کو درست کرنا ہے" — یہ بات لان جائنس کے نظریے سے مطابقت رکھتی ہے کیونکہ دونوں فن کو روحانی بلندی سے جوڑتے ہیں۔ شبلی نعمانی نے الکلام میں خطابت کی تاثیر پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ "خطیب کی ذات کی عظمت اور کردار کی بلندی ہی اس کے کلام میں ترفع پیدا کرتی ہے"، جو براہِ راست لان جائنس کے اخلاقی و فکری اصولوں سے ہم آہنگ ہے۔ اردو شاعری میں غالب، میر، اقبال اور فیض کے ہاں بھی Sublime کی روح ملتی ہے۔ غالب کے ہاں کائناتی حیرت، میر کے ہاں سوزِ دروں، اقبال کے ہاں خودی کی رفعت، اور فیض کے ہاں اجتماعی آزادی کا شعور — یہ سب لان جائنس کے ترفع کے مختلف مظاہر ہیں۔ اقبال نے بالِ جبریل میں کہا: ؎ اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی یہ شعر دراصل اسی Sublime تجربے کی علامت ہے جو عشق کے ذریعے انسان کو روحانی بلندی عطا کرتا ہے۔ لان جائنس کے نظریے پر ایک اہم استدلال یہ بھی ہے کہ وہ فن کو اخلاقیات سے جوڑتا ہے۔ اس کے نزدیک عظیم فنکار وہی ہے جو اپنی روح کی پاکیزگی کو اپنے فن میں منتقل کرے۔ جدید نقادوں نے اس بات پر اعتراض کیا کہ فن کی عظمت اخلاقیات سے نہیں بلکہ تجربے کی شدت سے پیدا ہوتی ہے۔ تاہم لان جائنس کے نزدیک دونوں لازم و ملزوم ہیں، کیونکہ انسان کی روح اگر بلند نہ ہو تو اس کا فن بھی سطحی رہتا ہے۔ ارسطو نے بھی Poetics میں کہا تھا کہ فن کا مقصد جذبات کی تطہیر ہے، اور لان جائنس نے اسی تطہیر کو روحانی ترفع میں بدل دیا۔ فن کی ترفع آمیز تاثیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ قاری یا سامع کو محض متاثر نہیں کرتا بلکہ اسے بدل دیتا ہے۔ لان جائنس کہتا ہے کہ "Sublimity elevates us above ourselves" (On the Sublime, Section 15)، یعنی ترفع ہمیں خود ہماری محدودیت سے بلند کر دیتا ہے۔ یہی وہ فلسفیانہ نکتہ ہے جس نے ادب کو محض اظہار کی بجائے انکشاف کا ذریعہ بنا دیا۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا Sublime ہمیشہ مثبت تجربہ ہے؟ برک کے نزدیک خوف اور دہشت بھی Sublime کا حصہ ہیں، کیونکہ وہ انسان کو کائنات کی ہیبت سے آشنا کرتے ہیں۔ اس طرح Sublime صرف حسن نہیں بلکہ ایک باطنی اضطراب بھی ہے جو شعور کو بیدار کرتا ہے۔ اردو ادب میں غالب کی شاعری اس کی بہترین مثال ہے، جہاں جمال کے ساتھ الم اور حیرت بھی مل کر Sublime تجربہ پیدا کرتے ہیں۔ لان جائنس کے نظریۂ ترفع کی روح کو اگر اقبال کے فلسفے سے جوڑا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے ہاں انسان مرکز تصور غالب ہے۔ اقبال کا خودی کا نظریہ دراصل اسی ترفع کی جدید تعبیر ہے، جہاں انسان اپنی روحانی و اخلاقی قوت کے ذریعے کائنات کو تسخیر کرتا ہے۔ اقبال کے نزدیک بھی فن کی اصل عظمت وہی ہے جو انسان کو اپنی ذات سے اوپر اٹھا کر الوہی شعور کے قریب لے جائے۔ عصرِ حاضر میں جب فن کی تعریف بدل گئی ہے اور Postmodern تنقید نے معنی کے مرکز کو منتشر کر دیا ہے، لان جائنس کا نظریہ ایک استدلالی استحکام فراہم کرتا ہے۔ وہ یاد دلاتا ہے کہ فن کا مقصد صرف تفریح یا اظہار نہیں بلکہ روحانی بیداری ہے۔ Sublime وہ قوت ہے جو قاری کو سوچنے، محسوس کرنے اور بلند ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ تجربہ کسی خاص تہذیب یا زبان تک محدود نہیں بلکہ عالمگیر انسانی قدر ہے۔ لان جائنس کے نظریے کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے فن کو انسان کی اخلاقی، ذہنی اور جمالیاتی ترقی سے جوڑ دیا۔ وہ کہتا ہے کہ "عظیم خیالات عظیم انسانوں کے ذہن میں جنم لیتے ہیں"، اور یہ جملہ فن کی اخلاقی و فکری بنیاد کو ظاہر کرتا ہے۔ جدید تنقید میں اگرچہ ساختیات اور پس ساختیات نے فن کو علامتوں اور متن کے جال میں محدود کرنے کی کوشش کی ہے، مگر لان جائنس کا Sublime ان سب سے بلند ہے کیونکہ وہ فن کو براہِ راست انسانی روح کے ساتھ جوڑتا ہے۔ آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ لان جائنس کا نظریۂ ترفع محض ایک تنقیدی تصور نہیں بلکہ ایک روحانی فلسفہ ہے جو ادب کی اصل روح کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ نظریہ ہمیں بتاتا ہے کہ فن کی معراج اس کے اندر چھپی ہوئی معنویت میں ہے، جو انسان کو معمولی سے غیر معمولی بنا دیتی ہے۔ ادب تبھی زندہ رہتا ہے جب وہ روح کو بیدار کرے، شعور کو وسعت دے، اور انسان کو اپنے آپ سے بلند کر دے۔ یہی Sublime ہے , فن کی وہ رفعت جس سے انسان اپنی ابدی عظمت کا ادراک پاتا ہے۔ |
|