منفی سوچ — ایک بیماری
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
|
منفی سوچ — ایک بیماری |
|
منفی سوچ — ایک بیماری ہم زندگی میں خوشی اور سکون کی جتنی تلاش کرتے ہیں اتنی شاید ہی کسی اور چیز کی کرتے ہوں۔ مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم خود ہی اپنے سکون کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ہمارے خیالات، گمان اور رویّے — یہی وہ نادیدہ قوتیں ہیں جو یا تو زندگی کو خوبصورت بناتی ہیں یا اسے تلخ کر دیتی ہیں۔ مثبت سوچ زندگی کو آسان بناتی ہے، جبکہ غلط فہمیاں فاصلوں کو جنم دیتی ہیں۔ اگر ہمیں دوسروں میں خوبیاں نظر آنا بند ہو جائیں تو سمجھ لیں کہ ہم منفی سوچ کی "بیماری" میں مبتلا ہیں۔ یہ ایک خاموش بیماری ہے مگر بہت تباہ کن۔ یہ نہ صرف ہمارے تعلقات کو زہر آلود کرتی ہے بلکہ ہمارے اندرونی سکون کو بھی چُرا لیتی ہے۔ قرآن مجید نے اسی حقیقت کو کتنی سادہ مگر گہری بات میں سمیٹا ہے "اِجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ، إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ" (الحجرات: 12) "بہت سے گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہیں۔" ہم میں سے اکثر اپنی رائے، گمان اور سن گن پر فیصلے کر لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ محبت کے رشتے شکوک کے کانٹوں میں الجھ جاتے ہیں۔ ڈیل کارنیگی نے کیا خوب کہا تھا : "دنیا کی آدھی دشمنیاں غلط فہمیوں سے پیدا ہوتی ہیں، اور باقی آدھی ان کے نتیجے میں۔" یہ ایک سچ ہے جسے تسلیم کرنے میں ہمیں دشواری ہوتی ہے۔ ہم دوسروں کے بارے میں گمان بناتے ہیں، لیکن کبھی اپنے گمانوں کا احتساب نہیں کرتے۔ منفی سوچ کا سب سے پہلا نشانہ خود انسان کی اپنی ذات بنتی ہے۔ کارل یونگ نے لکھا تھا: "جو شخص دوسروں میں صرف برائیاں دیکھتا ہے، وہ دراصل اپنی اندرونی کمزوریوں کا عکس دیکھ رہا ہوتا ہے۔" یہی تو اصل بیماری ہے — وہ ذہنی کیفیت جس میں انسان دوسروں میں روشنی دیکھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ وہ تعریف کرنا بھول جاتا ہے، شکرگزاری سے دور ہو جاتا ہے، اور ہر خوشی میں شک کا سایہ تلاش کرتا ہے۔ دوسری طرف مثبت سوچ ہے — جو زخموں پر مرہم رکھتی ہے، گمانوں کو سمجھ میں بدل دیتی ہے، اور انسان کے اندر امید جگاتی ہے۔ نورمن ونسنٹ پیل نے لکھا تھا: "مثبت سوچ مسائل ختم نہیں کرتی، مگر ان کا سامنا کرنے کی ہمت ضرور دیتی ہے۔" سچ یہی ہے کہ مثبت سوچ انسان کو طاقت دیتی ہے۔ یہ دل میں اطمینان پیدا کرتی ہے — وہی اطمینان جس کے بارے میں قرآن نے فرمایا: "أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ" (الرعد: 28) "یادِ خدا ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔" یہ اطمینان صرف عبادت سے ہی نہیں بلکہ طرزِ فکر سے بھی جنم لیتا ہے۔ جب ہم دوسروں کے لیے اچھا سوچتے ہیں، ان کی نیتوں پر شک نہیں کرتے، اور برائی کے بجائے بھلائی دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارا دل خود روشن ہونے لگتا ہے۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے: "بدگمانی محبت کو ختم کر دیتی ہے۔" اور مولانا رومیؒ نے فرمایا: "جو دل میں بدگمانی رکھتا ہے، وہ اپنے اندر کا جہنم جلا رہا ہوتا ہے۔" کتنی بڑی سچائیاں ہیں یہ! ہم روز سنتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ ہم خود کو دانا سمجھتے ہیں، مگر دانائی تو وہ ہے جو دلوں کو قریب کرے، نہ کہ دور۔ ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اپنے خیالات کا معائنہ کریں۔ اگر ہماری گفتگو، سوچ اور فیصلوں میں منفی پن بڑھ رہا ہے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے زندگی مشکل ہونے لگتی ہے۔ جتنی جلدی اس بیماری کا علاج کر لیا جائے، اتنا ہی بہتر ہے۔ علاج کیا ہے؟ دوسروں میں خوبیاں تلاش کرنا۔ شکر گزار رہنا۔ بدگمانی کے بجائے حسنِ ظن اپنانا۔ اور سب سے بڑھ کر، خود سے یہ کہنا: "میں دوسروں کو ویسا ہی دیکھنا چاہتا ہوں، جیسا میں خود ہوں۔" زندگی یقیناً آسان نہیں، مگر اگر سوچ مثبت ہو تو راستے روشن ہو جاتے ہیں۔ خوشی کوئی خارجی شے نہیں، یہ ہمارے اندر کی کیفیت ہے۔ اگر ہم دوسروں میں خوبیاں تلاش کرنے لگیں، ان کی نیتوں کو بہتر سمجھنے لگیں، اور ہر حال میں شکر گزاری کو اپنائیں تو زندگی خود بخود خوبصورت ہو جاتی ہے۔ "زندگی کو خوبصورت بنانا چاہتے ہو تو لوگوں میں خامیاں نہیں، خوبیاں تلاش کرو۔" |
|