لوٹ کھسوٹ کا موسم اور ہماری بے حسی

لوٹ کھسوٹ کا موسم اور ہماری بے حسی ۔ ہمارے معاشرے میں جس شئے کی موسم کے لحاظ سے ضرورت پڑتی ہے تو اس شئے کو فروخت کرنے والے ہمارے ہی مسلمان بھائ چھری تیز کرکے کاٹنے کو تیار رہتے ہیں یعنی کو انصاف نہیں من مانی قیمتوں پر اڑ جاتے ہیں ۔
لوٹ کھسوٹ کا موسم اور ہماری اجتماعی بے حسی
(صدائے حق)
تحریر یوسف علی ناشاد گلگت ہمارا معاشرہ بظاہر ایک اسلامی معاشرہ کہلاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلامی اصولوں کی جو روح ہمارے اندر ہونی چاہیے وہ کہیں دکھائی نہیں دیتی دین اسلام میں ہر موڑ پر یہ واضح ہدایت موجود ہے کہ مسلمان وہ ہے جو دوسروں پر آسانی کرے لوگوں کی مجبوری کو موقع بنا کر کمائی کا ذریعہ نہ بنائے باہمی تعاون اخلاص اور انصاف کو زندگی کا حصہ بنائے مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں زبانی دعوے تو بلند ہیں لیکن عملی صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے لین دین کاروبار اور روزمرہ ضرورتوں کے معاملے میں ایک عجیب شکل اختیار کر لی گئی ہے ہر شخص نرخ اپنی مرضی سے بڑھاتا ہے صارف کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتا ہے اور جب خریدار مجبور ہو کر اس ناجائز قیمت پر خریداری کرتا ہے تو استحصال کا یہ سلسلہ مزید مضبوط ہو جاتا ہے رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میں تو یہ روش اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے دنیا کے بہت سے ممالک میں رمضان کے دوران اشیائے خوردونوش کے نرخ کم کر دیے جاتے ہیں تاکہ لوگ سستے داموں اپنی ضروریات پوری کر سکیں عبادات پرسکون ماحول میں کر سکیں اور غریب طبقہ پریشانی سے بچ سکے مگر یہاں رمضان کو کمائی کا مہینہ سمجھ لیا جاتا ہے نرخ دگنے کر دیے جاتے ہیں اور کوئی بھی تاجر یہ سوچنے کو تیار نہیں ہوتا کہ وہ کس کے حق پر ڈاکا ڈال رہا ہے روزہ نفس کی تربیت کے لیے ہے لیکن بازاروں میں اس تربیت کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا یہاں صرف نفع کا حساب لگایا جاتا ہے اور باقی سب باتیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں یہی رویہ سردیوں میں گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ بھی روا رکھا جاتا ہے جہاں یخبستہ موسم طویل ہوتا ہے لوڈشیڈنگ کا عذاب چھائی رہتی ہے بجلی بیس بیس گھنٹے غائب رہتی ہے گھروں میں حرارت برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور لوگ ایندھن خصوصاً لکڑی پر انحصار کرتے ہیں مگر جیسے ہی سردی کا آغاز ہوتا ہے لکڑی کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں گرمیوں میں جو لکڑی مناسب نرخ پر ملتی ہے وہی سردیوں میں سونے کے مول بیچی جاتی ہے اس وقت سوختنی لکڑی سترہ سے اٹھارہ سو فی من اور گیلی لکڑی چودہ سو پچاس سے چودہ سو فی من تک فروخت ہو رہی ہے مگر یہ بھی ابتدائی قیمتیں ہیں جیسے جیسے سردی بڑھتی ہے یہ نرخ بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں غریب آدمی بے دست و پا ہو جاتا ہے وہ نہ گھر گرم رکھ سکتا ہے نہ خاندان کو سردی سے بچا سکتا ہے یہ سراسر ظلم ہے اور انتظامیہ کی کمزوری ظاہر کرتا ہے ریاستی رٹ قائم ہوتی تو کوئی تاجر یوں من مانی نہ کرتا مگر سرکار خاموش ہے اور لکڑی فروش اپنے مفاد کے نشے میں مست ہیں ہم یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ آخر ایک مسلمان معاشرہ ہوتے ہوئے بھی ہم رحم دلی انصاف مساوات اور تعاون جیسے بنیادی اصولوں کو کیوں بھول جاتے ہیں کیا ہمارا ایمان صرف زبان تک محدود ہے کیا ہم نے سوچ لیا ہے کہ ناجائز نفع ہی عزت ہے اور دوسروں کی مشکل پر کمائی ہی کامیابی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے یہاں کا مال یہاں ہی رہ جانا ہے نہ سونا ساتھ جائے گا نہ مارکیٹ کے نرخ نہ یہ وقتی فائدے میدان حشر میں جو چیز ساتھ ہوگی وہ صرف نیکی ہے وہی نیکی جو ہم نے کسی انسان کی مشکل آسان کر کے کمائی ہو کسی کے گھر میں راحت پہنچائی ہو کسی غریب کی پریشانی کم کی ہو اگر ہم واقعی مسلمان ہیں تو ہمیں زبان نہیں کردار سے ثابت کرنا ہوگا مقامی انتظامیہ کا بھی فرض ہے کہ لکڑی کے نرخ فوری طور پر معین کرے سخت نگرانی کرے اور یقینی بنائے کہ غریب طبقہ اس لوٹ کھسوٹ کی بھینٹ نہ چڑھے یہ علاقہ پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے سردی طویل ہے غربت عام ہے بجلی ناپید ہے ایسے میں استحصال جرم سے کم نہیں ہمارے اجتماعی رویے ہی معاشرے کا عکس بنتے ہیں اگر ہم انصاف کریں تو معاشرہ عدل پر کھڑا ہوگا اگر ہم رحم کریں تو معاشرہ امن پر چلے گا اور اگر ہم دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھائیں گے تو انہی رویوں کا بوجھ پھر ہماری زندگیوں پر واپس آئے گا آج جو بیوپار خاموشی سے لوگوں کو لوٹ رہا ہے وہ کل کسی اور کے ظلم کے نیچے آ کر یہی پکارے گا کہ کوئی انصاف کرے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر جھانکیں خود احتسابی کریں اور اس سوچ کو بدلیں مہنگافروشی سے پرہیز کریں دیانت داری کو زندگی کا اصول بنائیں اور اپنے علاقے کے لوگوں کو آسانی دیں اللہ ہم سب کو عدل اور رحمت کے راستے پر چلنے کی توفیق دے آمین۔

 

Yousuf ali Nashad gilgit
About the Author: Yousuf ali Nashad gilgit Read More Articles by Yousuf ali Nashad gilgit: 4 Articles with 521 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.