اوپن ائیر جم… غلطی مان لی گئی، لیکن نقصان کا حساب کون دے گا؟
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور سمارٹ سٹی کے حالیہ اجلاس میں یہ فیصلہ کہ آئندہ کسی بھی پارک میں اوپن ائیر جم نہیں لگائے جائیں گے، بظاہر ایک درست قدم لگتا ہے۔ لیکن اس فیصلے نے کئی پرانے زخموں کو تازہ کر دیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ اوپن ائیر جم غلط تھے یا ٹھیک۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ صوبے میں کروڑوں روپے کے یہ منصوبے صرف چند ماہ میں ختم ہو گئے، اور آج تک کسی نے نہیں پوچھا کہ عوام کے پیسے کا حساب کون دے گا۔ تحریک انصاف کی سابق حکومت نے کھیلوں کی ایک ہزار سہولیات کے نام سے صوبے میں مختلف مقامات پر اوپن ائیر جم لگوائے۔
ایبٹ آباد، نتھیا گلی، سوات، پشاور اور دیگر اضلاع میں ان کی تعداد کم نہیں تھی۔ ہر جم پر تقریباً اکیس لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ سرکاری دستاویزات میں یہ سب "فراہمیِ سہولت" کے نام پر درج ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر جمز چھ ماہ سے بھی پہلے ناکارہ ہو گئے۔ کچھ پر زنگ لگ گیا، کچھ کے پرزے ٹوٹ گئے، کچھ پر صرف حالت زار دیکھ کر پتہ چل جاتا تھا کہ دیکھ بھال کا کوئی نظام موجود ہی نہیں تھا۔
اب نئی حکومت کہتی ہے کہ اوپن ائیر جم پارکس کے لیے مناسب نہیں، اس لیے آئندہ ایسے منصوبے نہیں لگیں گے۔ ٹھیک ہے، فیصلہ سمجھ آتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مسئلہ اوپن ائیر جم تھا، یا اصل مسئلہ وہ حکومتی نظام تھا جس میں کسی کو نہ منصوبہ بناتے ہوئے سوچا گیا، نہ معیار چیک کیا گیا، نہ نگرانی ہوئی اور نہ احتساب۔ اور پھر جب یہ ناکام ہو گئے تو کسی نے مڑ کر یہ دیکھنے کی بھی زحمت نہ کی کہ اکیس لاکھ روپے کا ایک جم صرف چند ماہ میں کیسے ختم ہو گیا۔ یہی وہ خلا ہے جس پر بات نہیں ہوتی۔
ہمارے ہاں منصوبے بنتے ہیں، اخراجات ہوتے ہیں، افتتاحی تقریب ہوتی ہے، تصویریں لگتی ہیں، اخبارات میں خبریں آتی ہیں، لیکن جب وہی منصوبہ ناکام ہو جائے تو خاموشی چھا جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے سب کچھ خود بخود ہوا ہو۔ کوئی فائل، کوئی ذمہ دار، کوئی چیک اینڈ بیلنس موجود ہی نہ ہو‘ کھیلوں کی ایک ہزار سہولیات منصوبے کے اوپن ائیر جم اسی خاموشی کی بہترین مثال ہیں۔ عوام نے ان پر پیسہ دیا، حکومت نے منصوبہ بنایا، محکمہ کھیل نے جگہیں چنیں، ٹینڈر ہوئے، ٹھیکیداروں نے کام کیا، لیکن ان سب کے باوجود آج کسی کو یاد بھی نہیں کہ یہ منصوبہ تھا کیا۔ اگر آج کوئی پارک میں زنگ آلود مشین دیکھ بھی لے تو بس یہی سمجھ لیتا ہے کہ شاید وقت نے نقصان پہنچا دیا۔ حالانکہ نقصان وقت نے نہیں پہنچایا، نقصان غیر سنجیدہ منصوبہ بندی نے پہنچایا، نقصان نگرانی کی کمی نے پہنچایا۔
اب جب پشاور سمارٹ سٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ آئندہ پارکس میں اوپن ائیر جم نہیں لگیں گے، تو اس اعلان نے اس پرانے معاملے کا دروازہ خود ہی کھول دیا ہے۔ کیونکہ اگر یہ مفروضہ مان لیا گیا ہے کہ اوپن ائیر جم واقعی غیر مفید تھے، تو پھر?? یہ پوچھنا بھی ضروری ہے کہ اس وقت یہ منصوبہ کیوں منظور ہوا تھا؟ کون سی رپورٹ تھی جس نے اسے فائدہ مند قرار دیا؟ کس افسر نے ورک پلان پر دستخط کیے؟ کس ٹھیکیدار نے سامان فراہم کیا؟ کس نے معیار چیک کیا، یا کہیں چیک کیا بھی تھا یا نہیں؟
نظام صرف مستقبل کے فیصلوں کی بنیاد پر نہیں چلتا۔ نظام اس وقت بہتر ہوتا ہے جب ماضی کی غلطیوں پر روشنی ڈالی جائے، ذمہ داری طے ہو، اور سیکھا جائے کہ آئندہ ایسا نقصان نہ ہو۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ سب کچھ صرف رپورٹوں تک محدود رہتا ہے، اور وہ رپورٹیں بھی اکثر عوام کے سامنے نہیں آتیں۔ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ منصوبے صرف کھیلوں کے نام پر نہیں لگائے گئے تھے۔ ان کا مقصد عوام کو صحت مند سرگرمیوں کی طرف لانا تھا۔ اگر مقصد واقعی یہی تھا، تو پھر منصوبہ اس طرح کیوں ڈیزائن کیا گیا کہ وہ چھ ماہ بھی نہ چل سکا؟ کیا کوئی feasibility تھی؟ کیا ماحول، موسم، شہر کی حفاظت اور استعمال کے انداز کو ذہن میں رکھا گیا؟ اگر نہیں رکھا گیا تو پھر منصوبہ کن بنیادوں پر شروع کیا گیا؟
حیرت کی بات یہ ہے کہ اب کہا جا رہا ہے کہ اوپن ائیر جم مناسب نہیں۔ لیکن اس نئی تشخیص کا جواب کون دے گا کہ پہلے کیوں مناسب سمجھے گئے تھے؟ اس وقت بھی پارکس کھلے تھے، لوگ وہی تھے، موسم وہی تھا، شہر وہی تھا۔ اگر آج یہ غلط ہیں تو کل کیسے ٹھیک تھے؟یہی وہ بنیادی سوال ہے جو کوئی پوچھنے والا نہیں۔پشاور، ایبٹ آباد اور نتھیا گلی میں جمز کے جو حالات سامنے آئے، وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ منصوبہ نہ صرف خراب سوچ پر بنایا گیا بلکہ اس میں نگرانی اور بعد کی دیکھ بھال کا تصور ہی موجود نہیں تھا۔ حکومتیں بدلتی ہیں، پالیسیاں بدلتی ہیں، مگر منصوبوں کے انجام کا بوجھ عوام کے سر ہی رہتا ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف یہ اعلان نہ کیا جائے کہ اوپن ائیر جم غلط تھے، بلکہ اس بات کی جامع تحقیقات بھی ہوں کہ جن علاقوں میں یہ جمز نصب کیے گئے، ان پر کتنا خرچ ہوا، کس نے ٹھیکہ لیا، کس نے فالو اپ کیا، اور وہ کس طرح چھ ماہ میں ناکارہ ہو گئے۔ اگر یہ سب عوام کے پیسے سے ہوا ہے، تو عوام کو جواب ملنا چاہیے۔پشاور سمارٹ سٹی کا مقصد شہر کو بہتر بنانا ہے، یہ اچھی بات ہے۔ لیکن بہتر شہر صرف نئی اسکیموں سے نہیں بنتے۔ بہتر شہر تب بنتے ہیں جب پرانی غلطیوں کو چھپانے کے بجائے ان پر کھل کر بات کی جائے، اور ذمہ داری سے کام لیا جائے۔آج اوپن ائیر جم کی ناکامی صرف ایک مثال ہے۔ کل کوئی اور منصوبہ سامنے آئے گا۔ اگر آج ہم نے سوال نہیں پوچھے تو کل بھی یہی چکر چلتا رہے گا۔
سوال اب بھی وہی ہے:اخراجات ہوئے، منصوبہ ناکام ہوا، لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں۔ یہ خاموشی کب ٹوٹے گی؟
#Peshawar #SmartCity #OpenAirGym #PublicMoney #Accountability #Sports1000Facilities #KhyberPakhtunkhwa #LocalGovernance #PublicFunds #KPProjects #SportsFacilities #GovernmentOversight
|