کوہاٹ کی ہاکی ٹرف… کروڑوں کی سرمایہ کاری، مگر استعمال ایسے جیسے گھر کی چھت پر کپڑے سکھائے جاتے ہوں
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
کوہاٹ کی ہاکی ٹرف ایک عجوبہ ہے۔ ایسا عجوبہ جو آج کل کھیلوں کے بجائے تحریروں کا موضوع بنا ہوا ہے۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے بنی یہ ٹرف دراصل ہاکی کے کھلاڑیوں کے لیے تھی، لیکن ”استعمال“ دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہ علاقہ کھیلوں کے ماہرین کے بجائے تجرباتی سائنسدانوں کے ہتھے چڑھ گیا ہو۔ یہاں ہر وہ کام ہو رہا ہے جو دنیا کی کسی ہاکی ٹرف پر نہیں ہوتا۔
اس ٹرف پر کبھی بچے دوڑ رہے ہوتے ہیں، کبھی کوئی استاد اپنے شاگردوں سے کہتا سنائی دیتا ہے، ”چلو بھئی آج 400 میٹر ریس ہاکی ٹرف پر کرواتے ہیں، گھاس نہیں ہے تو کیا ہوا، پاوں ہی مضبوط ہوں گے۔“ کہیں دو دوست فٹ بال کے سنگل میچ کے لیے میدان ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں پہنچ جاتے ہیں اور کہتے ہیں، ”بھائی کیا ٹچ ہے… گیند بھاگتی ہی نہیں، مزہ آ گیا!“
مزیدار بات یہ کہ اگر یہاں سے کسی بے خبر سیر کرنے والے بزرگ کا گزر ہو تو وہ شاید یہی سمجھے کہ یہ کوئی سپورٹس کمپلیکس نہیں، بلکہ کوہاٹ کا نیا ”ملٹی پرپز پارک“ ہے، جہاں دوڑنے سے لے کر سکرٹچنگ تک سب کچھ گارنٹی کے ساتھ ہوتا ہے۔اب آتے ہیں اس سوال پر جو سب کے منہ میں گھوم رہا ہے: یہ سب ہو کیسے رہا ہے؟ بہت آسان ہے۔ کوئی روکنے والا ہی نہیں۔ نگرانی کا وہ نظام جو کروڑوں کی ٹرف کے ساتھ ہونا چاہیے تھا، شاید فائلوں میں موجود کسی خیالی دنیا میں زندہ ہے۔
دنیا بھر میں ہاکی ٹرف پر فٹ بال کھیلنا اس طرح کا جرم سمجھا جاتا ہے جیسے کوئی لائبریری میں لاوڈ اسپیکر لگا کر ڈھول بجائے۔ مگر کوہاٹ میں صورتحال الٹ ہے — یہاں ”جس کا دل چاہے، آ کر جو مرضی کرے“ والا ماحول ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب اس تمام سرکس پر RSO کوہاٹ سے سوال کیا گیا تو وہ بھی ہمارے پاکستانی سیاستدانوں کی طرح ”خاموشی“ کے گول میں پناہ لے گئے۔ جواب نہ دیا، نہ وضاحت کی، نہ کوئی موقف اختیار کیا۔ جیسے ٹرف نہیں، ان کے سامنے کسی نے فلسفے کی کتاب رکھ دی ہو۔ ان کی یہ خاموشی ثابت کرتی ہے کہ بعض سرکاری اہلکاروں کا تعلق شاید ”نو کمنٹ“ کلچر کی یونیورسٹی سے ہے، جہاں ہر سوال کا واحد جواب یہی ہوتا ہے:"ہم جواب دہ نہیں، خدا حافظ!"
یہ وہی خاموشی ہے جو سب سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ کیونکہ جہاں جواب نہیں ہوتا، وہاں غلطی کا اعتراف بھی نہیں ہوتا۔ اور جہاں اعتراف نہیں ہوتا، وہاں اصلاح کا بھی کوئی امکان نہیں ہوتا۔ پھر کروڑوں کا نقصان ہو یا اربوں کا، سسٹم اپنی دلکش نیند میں گہرا سوتا رہتا ہے۔ اب ذرا تصور کریں کہ ٹرف کی اصل حالت کیا ہو گی؟ جس جگہ گیند ایک خاص رفتار سے دوڑنی چاہیے، وہاں اب شاید تختہ بوٹ کی آوازیں گونجتی ہوں۔ جہاں ہاکی اسٹک کی ٹک ٹک سنائی دینی چاہیے، وہاں فٹ بال کے ٹھوکروں کی آوازیں گونجتی ہیں۔ جہاں کھلاڑی اسکلز بناتے، وہاں بچے ایک دوسرے سے ریس لگاتے نظر آتے ہیں۔
اگر کوئی باہر کا انسان یہ منظر دیکھ لے تو ضرور کہے گا "یہ ہاکی ٹرف نہیں، یہ کوہاٹ کا اسپورٹس چڑیا گھر ہے!" لیکن بات مزاح سے آگے بھی ہے۔ یہ ٹرف عوام کے پیسے سے بنی تھی۔ عوام کا پیسہ وہی ہوتا ہے جو ٹیکس، زکوٰاہ، فیسوں اور فنڈز کے نام پر ان کے جیب سے نکالا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ٹرف کوئی کھلونا نہیں، بلکہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں لاکھوں لوگوں کا حق شامل ہے۔ اب جب یہ ٹرف اس طرح استعمال ہو رہی ہے جیسے محلے کے لڑکوں کا خالی پلاٹ ہو، تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ اس کی حفاظت کس کی ذمہ داری تھی؟ کیا متعلقہ افسران کو علم نہیں کہ دنیا بھر میں ٹرف کو سخت قوانین کے تحت محفوظ رکھا جاتا ہے؟ یا پھر علم ہے، مگر دلچسپی نہیں۔ دلچسپی نہیں ہو تو کروڑوں کی ٹرف بھی ردی کاغذ بن جاتی ہے۔
دلچسپی نہیں ہو تو مرمت کا بجٹ بھی ”غائب“ ہو جاتا ہے۔اور دلچسپی نہیں ہو تو عوام کے سوال بھی ریت میں دھنستے جاتے ہیں۔ یہ پورا مسئلہ ایک انتظامی ناکامی سے زیادہ، ایک ذہنی رویے کا عکاس ہے۔ وہ رویہ جس میں ہم اپنے وسائل کی قدر نہیں کرتے۔ اگر ایک ٹرف خراب ہوئی تو نئی بنا لیں گے۔ اگر فنڈ ضائع ہوا تو دوسرا مانگ لیں گے۔ جیسے ریاست کوئی ATM مشین ہو جو کبھی خالی نہیں ہوتی۔ اس واقعے سے کئی سبق ملتے ہیں، مگر افسوس یہ ہے کہ کوئی سبق سیکھنے کے موڈ میں نہیں۔
ہاکی کا نقصان الگ، عوام کے پیسے کا نقصان الگ۔ اور کھلاڑیوں کی محنت و خواب… وہ تو شاید کسی رپورٹ میں بھی شامل نہ ہوں۔ آخر میں ایک اہم سوال چھوڑے جاتے ہیں: اگر کل کو یہ ٹرف مکمل طور پر خراب ہو گئی، اور دوبارہ کروڑوں روپے مانگے گئے، تو کیا پھر بھی کوئی نہیں پوچھے گا کہ پرانی ٹرف کا انجام کیا ہوا تھا؟ یا پھر ہم وہی پرانا فارمولا استعمال کر کے آگے بڑھ جائیں گے: "نیا بجٹ دو، نئی ٹرف بناو، پرانی باتیں بھول جاو!" عوامی وسائل کا احترام ضروری ہے۔ اگر ذمہ داری لینے والے خاموش بیٹھے رہیں، تو پھر عوام بھی سوال پوچھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کوہاٹ کی یہ ٹرف صرف ایک ٹرف نہیں، یہ ہمارے نظام کی کہانی ہے۔ اور سب جانتے ہیں کہ یہ کہانی کتنی لمبی اور کتنی تھکی ہوئی ہے۔
#Kohat #HockeyTurf #SportsComedy #PublicFunds #RSOKohat #Accountability #KPSports #MisuseOfFunds #SportsFacilities #HockeyPakistan #KohatIssues
|