بنوں کے سپورٹس منصوبے، درخواستیں، خاموش دربار اور وہ باسکٹ بال کورٹ جو خواب میں بھی کرکٹ کھیلتا ہے

کہانی کچھ یوں ہے کہ بنوں کے کھیل، کھلاڑی اور میدان گہری نیند میں نہیں بلکہ گہری نظراندازی میں پڑے ہیں۔ خط پر خط، درخواست پر درخواست اور یاد دہانی پر یاد دہانی، مگر جواب ایسا جیسے کسی ریفری نے سیٹی بجانے سے انکار کر دیا ہو۔ اور وہ بھی ایسے میچ میں جہاں ایک طرف کھلاڑی بھوکے بیٹھے ہیں اور دوسری طرف افسران چائے کے کپ کے ساتھ منصوبوں کو ٹھنڈا ہونے دیتے ہیں۔

محمد نظام الحق صاحب، جو انٹرنیشنل ریفری بھی ہیں اور ضلعی سپورٹس ایسوسی ایشن بنوں کے جنرل سیکریٹری بھی، کئی بار دروازہ کھٹکھٹا چکے ہیں۔ ان کی امید یہ تھی کہ چیف سیکرٹری صاحب کم از کم ایک نظر ڈالیں گے، ایک وقت دیں گے، ایک ملاقات طے کریں گے۔ مگر لگتا ہے بنوں کے کھیلوں کے مسائل وہ واحد موضوع ہیں جو کسی میٹنگ ایجنڈے یا سرکاری ڈائری میں داخلہ نہیں پاتے۔ شاید سیکرٹریٹ کے کمپیوٹر میں بھی ان درخواستوں پر “Not Now” کا مستقل اسٹیکر لگا ہوا ہے۔ چلیں ذرا مسائل پر ایک نظر ڈالیں، اور پھر ہنس لیں تاکہ رو بھی نہ پڑیں۔

سب سے پہلے قاضی محب ہاکی اسٹیڈیم کے ساتھ بنی دکانوں کا کرایہ۔ مسئلہ اتنا سیدھا تھا کہ پانچ منٹ میں حل ہو سکتا تھا۔ مگر ریاستی حکمت نے فیصلہ کیا کہ یہ کام مستقبل کی نسلیں کریں گی۔ جواب ابھی تک غائب ہے، شاید راستہ بھول گیا ہے، شاید ڈاکیا بھی کھیلوں کے منصوبوں کی طرح تاخیر کا شکار ہے۔پھر آتا ہے سولر ٹیوب ویل۔ سوچیں ذرا، ہاکی اسٹیڈیم پانی مانگ رہا ہے، درخواست فائل میں سو رہی ہے اور سورج آسمان سے دیکھ کر ہنس رہا ہے کہ “میں تو مفت کی روشنی دے رہا ہوں، یہ لوگ پھر بھی انتظار کر رہے ہیں۔”

اس کے بعد وہ شاہکار کہانی جس پر فلم بھی بن سکتی ہے: دلاسہ پارک کا باسکٹ بال کورٹ۔ دنیا میں کھیلوں کے میدان کبھی جدید بنتے ہیں، کبھی اپ گریڈ ہوتے ہیں۔ مگر بنوں میں باسکٹ بال کورٹ کرکٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جیسے کوئی صبح اٹھ کر دیکھے کہ اس کی موٹر سائیکل راتوں رات ٹریکٹر بن گئی۔ ثبوت موجود، اسمبلی کی منظوری موجود، ڈیزائن چیخ چیخ کر کہے کہ میں باسکٹ بال ہوں۔ مگر انتظامیہ کہتی ہے نہیں، ہم نے فیصلہ کر لیا ہے، اب یہ کرکٹ ہے، چاہے اس پر چھکا لگے یا گیند واپس ٹوپی پہ آ جائے۔

اور آخر میں بنوں سپورٹس کمپلیکس جمنازیم کا بجلی بحران۔ وہاں کھلاڑی نہیں بلکہ تاریں تھکی ہوئی ہیں۔ سولر پینل کی درخواست جمع ہو چکی ہے، مگر جواب وہی روایتی۔ شاید کسی فائل پر مکڑی نے جالا بھی ڈال لیا ہو۔ کھلاڑی جم میں پسینہ بہانے جائیں تو جنریٹر ہنس کر کہتا ہے “آج نہیں بھائی۔”اصل سوال یہ ہے کہ کھیل آخر کس جرم میں سزا پا رہے ہیں۔ کیا نوجوان ہونا جرم ہے؟ کیا کھیل مانگنا گستاخی ہے؟ کیا ترقی کی خواہش بغاوت ہے؟ یا پھر بنوں بہت دور ہے، اتنا دور کہ آواز سیکرٹریٹ تک پہنچ ہی نہیں پاتی؟

محمد نظام الحق صاحب کی درخواست بس اتنی ہے کہ چند لمحے دے دیے جائیں۔ ایک ملاقات، ایک سننا، ایک نوٹ، ایک حکم۔ مگر شاید حکومتی کیلنڈر میں کھیلوں کی کوئی تاریخ نہیں، شاید فیصلہ سازوں کا خیال ہے کہ بنوں کے نوجوان ایسے ہی گزارہ کر لیں۔ یا شاید وہ سمجھتے ہیں کہ کھیل خود ہی اگتے ہیں جیسے برسات میں جنگلی گھاس۔طنز یہ بھی ہے کہ حکومت نوجوانوں کو منشیات سے دور رکھنے کی بات کرتی ہے، پھر کھیل کے میدان بند چھوڑ دیتی ہے۔ کہتی ہے صحت مند سرگرمیوں کی ضرورت ہے، پھر بجلی اور پانی روک دیتی ہے۔ کہتی ہے ٹیلنٹ کو آگے لانا چاہیے، پھر کورٹ کرکٹ میں بدل دیتی ہے۔

اگر یہی رفتار رہی تو مستقبل کچھ یوں ہوگا: ہاکی اسٹیڈیم گھاس کی تلاش میں ہوگا باسکٹ بال کھلاڑی گیند لے کر جگہ ڈھونڈ رہے ہوں گے فٹبالرز نالیوں میں کھیل رہے ہوں گے اور افسران کہیں گے “ہم فائل دیکھ رہے ہیں، صبر کریں” بنوں کے کھلاڑی محنت کرتے ہیں، بین الاقوامی سطح تک پہنچتے ہیں، ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مگر بدلے میں ملتا ہے انتظار، خاموشی، تاخیر اور بے حسی- یہ کالم شاید ہلکے پھلکے انداز میں لکھا گیا ہے مگر حقیقت سخت ہے۔ کھیل مذاق نہیں، یہ مستقبل ہے۔ نوجوان مذاق نہیں، یہ سرمایہ ہیں۔ میدان مذاق نہیں، یہ معاشرتی سانس ہیں۔

وقت آ گیا ہے کہ چیف سیکرٹری صاحب کم از کم اتنا تو کریں کہ دروازہ کھول دیں، درخواست سن لیں، اور ان منصوبوں کو الماری سے نکال کر زمین پر لے آئیں۔ اگر فیصلے ہو جائیں تو میدان چل پڑیں گے، روشنی واپس آ جائے گی، پانی بہہ اٹھے گا، اور بنوں کے نوجوان پھر سے سانس لے سکیں گے۔کیونکہ یہ ان کا اپنا شہر ہے اور اپنے شہر کا حق زیادہ ہوتا ہے ہورنہ تاریخ لکھے گی “کرکٹ نے باسکٹ بال کورٹ کو کھا لیا اور فائل نے کھیل کو شکست دے دی” مگر امید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اور اگر کبھی یہ کالم چیف سیکرٹری صاحب تک پہنچ جائے تو شاید وہ ہنس کر کہیں “چلو اب بات سن ہی لیتے ہیں” کیونکہ کبھی کبھی مزاح وہ دروازہ کھول دیتا ہے جو سنجیدگی نہیں کھول پاتی۔

#BannuSports
#KPYouth
#SportsDevelopment
#BasketballToCricket
#StadiumIssues
#SolarProjectPending
#SportsAdministration
#ListenToBannu
#SupportAthletes
#FixTheSystem

 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 882 Articles with 710155 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More