"خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ: جہاں فزیو کھلاڑیوں کے لیے نہیں، افسران کے لیے ہیں"


کھیلوں کی دنیا میں کھلاڑی پسینہ بہاتے ہیں، محنت کرتے ہیں اور کبھی کبھی درد میں چیختے ہیں۔ لیکن خیبرپختونخواہ کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ایسا نہیں۔ یہاں اصلی پسینہ افسران کے لیے محفوظ ہے، اور کھلاڑی زیادہ تر اس “صحت کی خدمت” کے ناظر ہیں۔ جی ہاں، آپ نے درست پڑھا۔ کئی سالوں تک فزیوتھراپسٹ کا تصور صرف نام تک محدود رہا، جیسے کوئی نایاب جنگلی جانور جو کبھی کبھار دکھائی دیتا ہو، یہاں تک کہ کوئٹہ میں ہونے والے نیشنل گیمز میں پہلی بار اس کی حقیقت سامنے آئی۔

تصور کریں: ایک فزیو اسٹڈیم میں کھڑا، کھلاڑیوں کے پٹھے نرم کرنے، کھینچنے اور درد کم کرنے کے لیے تیار! لیکن یہاں مزاح کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر کھلاڑی اس سے بالکل ناآشنا تھے۔ وہ بھاگتے، جمپ کرتے، وزن اٹھاتے، اور خوشی سے یہ جانتے بھی نہیں کہ راحت صرف چند قدم دور ہے۔ اور افسران؟ وہ تو جانتے تھے، پوری تفصیل، شیڈول، یہاں تک کہ فزیو کے پسندیدہ کافی برانڈ کا علم بھی۔

یہ طنزیہ صورتحال واقعی لذیذ ہے۔ مرد اور خواتین فزیوتھراپسٹ باقاعدہ تنخواہ لیتے ہیں، لیکن ان کی اصل خدمت لگتا ہے کہ افسران کے لیے مختص ہے نہ کہ کھلاڑیوں کے لیے۔ اگر ہم ہر فزیو سے حلف لیں اور پوچھیں کہ کتنے کھلاڑیوں کے سیشن ہوئے اور کتنے افسران کے، تو نتائج بتا دیں گے کہ زیادہ تر وقت افسران کی مصروفیات میں گزرتا ہے۔اس کی وجہ؟ ڈائریکٹریٹ میں ایک عجیب بیماری ہے، جسے میں “کرسی کے عادی پن” کہوں گا۔ طویل بیٹھک، کاغذی کارروائی، اور افسرانہ عیش و آرام کی زندگی میں سب سے بہترین دوا ایک فزیوتھراپسٹ کی مساج کی مہارت ہے۔ کچھ صحت مند افسران، جو کبھی فٹ اور متحرک تھے، اب مساج کی عادت میں مبتلا ہیں۔ پچاس اور پچپن کی دہائی میں بعض نے پہلی بار اپنے بڑھتے ہوئے پیٹ کا احساس کیا اور فوراً فزیو کی خدمات پر انحصار بڑھا دیا۔

لیکن فزیو بھی اپنے اختیار رکھتے ہیں۔ انہیں اپنی پسند کے مقامات پر تعینات کیا جاتا ہے، اور ان کی مہارت بھی پسند کی جاتی ہے۔ تیز ہاتھ رکھنے والے فزیو کی قدر کی جاتی ہے۔ اگر آپ ایک ساتھ بازو پر مساج کریں، دوسری ہاتھ میں کافی پکڑیں، اور تیز رفتاری سے کام مکمل کریں، تو شاید آپ کو اسٹڈیم کے بہترین مقام پر تعینات کر دیا جائے۔ یہ “رفتار اور پسند” کا کھیل فزیو کے لیے بھی زندہ رہنے کی حکمت عملی بن گیا ہے۔افسران کی محبت اور وفاداری بھی قابل دید ہے۔ ایک افسر شاید سرگوشی کرتے ہوئے کہے: “آج کا سیشن کہاں ہے؟ نہیں جانا نہیں! میری کمر درد کر رہی ہے، فائل اٹھانے سے پہلے وارم اپ ضروری ہے۔” اور کھلاڑی؟ وہ فزیو ڈیسک کو اسٹڈیم کے فریم میں ایک عجیب سی چیز سمجھ کر گذارتے ہیں۔ کچھ شاید سمجھتے ہیں یہ کسی جدید واٹر کولر یا عجیب سا ٹرافی ڈسپلے ہے۔

یہ سب ایک بڑی حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے: ترجیحات کی کمی۔ ڈائریکٹریٹ جس کا مقصد کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود ہے، وہاں ترجیح افسران کی راحت ہے۔ فزیو کی کمی نہیں، بلکہ ان کا درست استعمال نہیں ہو رہا۔ تصور کریں ایک ملک جہاں بین الاقوامی مقابلوں کی تیاری ہو رہی ہے، لیکن محنت کش کھلاڑیوں کے بجائے کرسی پر بیٹھے افسران ہی فزیو کے اصلی صارف ہیں۔اور سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی کھلاڑی افسر سے ملاقات چاہے، تو افسر ہمیشہ کسی نہ کسی “اہم” میٹنگ میں مصروف ہوتے ہیں۔ کبھی بجٹ کی بحث، کبھی پلاننگ سیشن، کبھی کاغذی کارروائی—اور کبھی بس آرام سے کرسی پر بیٹھ کر وقت گزارنا۔ کھلاڑی، جو حقیقی میدان میں محنت کرتے ہیں، وہ افسر کے پاس پہنچنے کے لیے کئی بیوروکریٹک دروازے پار کرتے ہیں، فارم بھرتے ہیں، ای میل بھیجتے ہیں، اور پھر بھی اکثر جواب ملتا ہے: “معذرت، مصروف ہوں، بعد میں آئیں۔”

لیکن اسی ڈائریکٹریٹ میں ایک عجیب طنز چھپا ہے: ایک مالشی آ جائے، جو ہاتھ سے مساج کرنے والا ہے، تو اس کے حقوق کھلاڑی سے کہیں زیادہ ہیں۔ وہ براہِ راست افسر کے سامنے جا سکتا ہے، بیٹھ سکتا ہے، اپنا کام کروا سکتا ہے، اور افسر خوشی خوشی اس کا وقت نکالتے ہیں۔ کھلاڑی کی محنت، زخمی پٹھے، یا تھکن کی کوئی اہمیت نہیں، لیکن مالشی کے ہاتھ کی تیزی اور مساج کی مہارت افسر کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔

یہ منظر ایسا لگتا ہے جیسے افسر اور مالشی کے درمیان کوئی خفیہ اتحاد ہو۔ کھلاڑی میدان میں پسینہ بہاتے ہیں، اسٹیمنا دکھاتے ہیں، لیکن افسر کی توجہ حاصل کرنا تو جیسے کسی خزانے کی تلاش ہو۔ مالشی بس ایک ہاتھ ہلائے اور افسر فوراً حاضر، جبکہ کھلاڑی کو بیوروکریسی کے جنگل سے گزرنا پڑتا ہے۔یہ حقیقت اس ڈائریکٹریٹ کی مزاحیہ اور عجیب فطرت کو پوری طرح بے نقاب کرتی ہے: اصل کام کرنے والے، جو محنت اور عزم سے کھیل میں حصہ لیتے ہیں، وہ افسر کے دائرہ اختیار میں چھوٹے ہیں، لیکن وہ شخص جس کا کام صرف مالش کرنا ہے، وہ بالکل مرکزی کردار بن جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسٹڈیم میں مساج کا ڈیسک افسران کے لیے ایک مقدس مقام بن گیا ہے، جبکہ کھلاڑی بس دیوار کے ساتھ اپنے پٹھے کھینچنے پر مجبور ہیں۔

اگر ڈائریکٹریٹ نے کبھی اپنی ترجیحات درست کرنی چاہیں تو شفافیت سے آغاز ہو سکتا ہے۔ کتنے سیشن کھلاڑیوں کے لیے اور کتنے افسران کے لیے ہوئے؟ سادہ ریکارڈ سے اصل صورتحال واضح ہو جائے گی۔ شاید تب پالیسیاں کھلاڑیوں کی فلاح پر مرکوز ہوں اور افسرانہ راحت کو ترجیح نہ ملے۔نتیجہ یہ ہے کہ خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا فزیوتھراپی پروگرام ایک عجیب ثقافتی عادت کی عکاسی کرتا ہے۔ افسران کی عیش و آرام اور کرسی کی محبت کھلاڑیوں کی بہبود پر غالب ہے۔ فزیو پیشہ ور ہیں، مہارت رکھتے ہیں، لیکن کبھی کبھی خود بھی حیران رہ جاتے ہیں کہ آخر یہ کھیل کس لیے ہے۔ اور کھلاڑی؟ وہ انتظار کرتے ہیں، دوڑتے ہیں، کھینچتے ہیں، اور امید رکھتے ہیں کہ ایک دن وہ بھی ان ہاتھوں کا حقیقی فائدہ اٹھا سکیں گے۔

تو اگلی بار جب کوئی پوچھے کہ کیا KP سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو واقعی فزیو کی ضرورت ہے، یاد رکھیں: ہاں، ضرورت ہے۔ لیکن شاید یہ ضرورت افسران کے لیے زیادہ ہے، نہ کہ کھلاڑیوں کے لیے۔ کیونکہ اس عجیب و غریب دنیائے کھیل میں، کھلاڑی شاید سائیڈ لائن پر ہوں، لیکن افسران ہمیشہ سیشن میں مصروف رہتے ہیں۔

#PhysioForThePowerful #kikxnow #musarratullahjan #sports #malishee
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 860 Articles with 697898 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More