یوسی کے کھیل منصوبے کی گمشدگی، نوٹسوں کا میلہ اور محلے کے میدان میں بھینسوں کا جشن

یہ تو سب جانتے ہیں کہ یہ مسئلہ UC لیول اسپورٹس پروجیکٹ کا ہے مگر اس میں مزاح ایسا ہے کہ بندہ ہنستے ہنستے رو پڑے۔ محلے کے لڑکوں نے سوچا تھا کہ اس بار کھیل کا منصوبہ حقیقی ہوگا۔ کرکٹ کی پچ بنے گی، فٹبال گراونڈ تیار ہوگا اور والی بال کورٹ میں واقعی والی بال کھیلی جائے گی۔ لیکن ہوا وہی جو ہمیشہ ہوتا ہے۔ کاغذوں میں منصوبہ زمین سے بھی بڑا اور زمینی حقیقت میں وہ جگہ جہاں آج بھی محلے کے لوگ بھینسیں باندھ کر دعائیں دیتے ہیں کہ شکر ہے کم سے کم سایہ تو ہے۔

مشیر کھیل تاج محمد ترند نے نوٹس لے لیا۔ عوام میں سرگوشیاں شروع ہوئیں کہ اب شاید تاریخ بدل جائے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ نوٹس ہمارے ہاں ایک قسم کا تہوار ہے۔ جس دن نوٹس لیا جائے اس دن دفتر کے لوگوں میں ایک نئی چمک آ جاتی ہے۔ فائلوں پر گرد صاف ہوتی ہے۔ چائے دو دفعہ بنتی ہے۔ اور سب لوگ اتنے مصروف دکھائی دیتے ہیں جیسے اولمپکس کی تیاری ہو رہی ہو۔ ایک صاحب نے تو دوران گفتگو کہا کہ اگر نوٹس لینے پر بھیالٹی میڈل ملتا تو ہم دنیا کے چمپئن ہوتے۔

وزیراعلی نے فوری تحقیقات کی ہدایت کر دی۔ اب عوام سوچ رہی ہے کہ یہ فوری کتنا فوری ہوگا۔ کچھ کہتے ہیں کہ کچھی پکوان کی طرح ہوگا۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ وہ فوری ہے جو گزرے ہوئے بجٹ سال کے بعد سمجھ آتا ہے۔ انسپکشن ٹیم نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ٹیم کے ایک رکن نے بتایا کہ پہلی میٹنگ میں یہ طے ہوا کہ دوسری میٹنگ کب ہوگی۔ دوسری میٹنگ میں یہ طے ہوا کہ تحقیقات بہت سنجیدہ ہیں۔ تیسرے اجلاس میں یہ بحث ہوئی کہ رپورٹ کا رنگ نیلا ہونا چاہیے یا سبز۔

ترند صاحب نے فرمایا کہ بدعنوانی برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہ جملہ پورے ملک میں اتنا چل چکا ہے کہ اب لوگ اسے ملک کا غیر سرکاری قومی نعرہ سمجھتے ہیں۔ محلے کے ایک بزرگ نے کہا کہ اگر اس جملے پر رائلٹی ملتی تو پاکستان آئی ایم ایف نہیں بلکہ سویٹزرلینڈ کو قرض دیتا۔ بانی چیئرمین کے ویڑن کی بات ہوئی تو نوجوانوں نے بس اتنا کہا کہ ویڑن اچھا تھا مگر میدان میں بارش کا پانی ویڑن سے نہیں نکلا۔عوام کے ٹیکس کے پیسوں کے شفاف استعمال کی بات ہوئی۔ شفافیت واقعی نظر آئی کیونکہ پیسہ اتنا شفاف ہے کہ نظر ہی نہیں آیا۔ فنڈز کا داخلہ اتنا خاموش تھا کہ کسی نے آواز نہیں سنی اور فنڈز کا خروج اتنا تیز تھا کہ دھواں تک نہیں بچا۔ انکوائری ٹیم نے یہ جاننے کے لیے الگ کمیٹی بنانے کی تجویز دی کہ فنڈز آئے تھے یا یہ صرف ایک خواب تھا۔

بدعنوان عناصر کے لیے محکمہ میں کوئی جگہ نہیں۔ اس جملے نے محکمے کے کچھ افراد کی نیندیں اڑا دیں۔ انہوں نے اپنی کرسیوں پر چادر ڈال کر اعلان کر دیا کہ یہ جگہ پہلے سے بک ہے۔ کچھ سہمے ہوئے چہروں نے دفتر میں پچھلی دیوار کے ساتھ بیٹھ کر سوچا کہ اگر جگہ ہی نہیں رہی تو پھر رشوت کہاں رکھی جائے گی۔اب ذرا UC کے اسپورٹس منصوبے پر پھر سے نظر ڈالیں۔ محلے کے لڑکوں کو بتایا گیا کہ سامان آرہا ہے۔ سامان کی آمد کا سفر اتنا طویل ہے کہ شاید مریخ سے آ رہا ہے۔ سال گزر گیا سامان نہ آیا۔ کرکٹ کے بیٹ کا بجٹ منظور ہوا مگر میدان میں ایک ٹوٹی چھڑی ملی جسے دیکھ کر ایک بچے نے کہا کہ شاید اس سے ہاکی بھی نہیں کھیلی جا سکتی۔ فٹبال کی گیند ملی مگر وہ اتنی بے جان کہ دیکھ کر لگتا تھا جیسے پچھلے سال کے وعدوں کی طرح خالی۔

والی بال کورٹ کے پولز پر محلے والوں نے کپڑے سکھانا شروع کر دیے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کبھی کبھار گیند آ بھی جائے تو محلے کے مستری اسے ٹائر میں ہوا بھرنے کے لیے لے جاتے ہیں۔ بیڈمنٹن نیٹ کے بجٹ سے جو نیٹ آیا وہ اتنا باریک کہ ہوا بھی اس میں سے گزر جائے۔ بچوں نے اسے استعمال کر کے سبزی دھونے کا کام شروع کر دیا۔ کھیل کے کمرے کی چابی اس شخص کے پاس ہے جو پچھلے تیس سال سے ورزش سے دور بھاگتا ہے۔رپورٹ کا انجام پہلے سے لکھا جا چکا ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہوگا کہ مالی بے قاعدگیاں ہوئیں۔ ذمہ داروں کی نشاندہی کر دی گئی۔ کارروائی کی سفارش کر دی گئی۔ فائل کو فولڈر میں رکھ دیا گیا۔ فولڈر کو الماری میں بند کر دیا گیا۔ الماری کو تالے سے سیل کر دیا گیا۔ تالے کی چابی ایک ایسے افسر کے پاس ہوگی جو دو سال بعد ریٹائر ہو جائے گا اور پھر چابی کے بارے میں کہا جائے گا کہ چابی تو تھی ہی نہیں۔

محلے کے نوجوانوں نے اب فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت کھیل شروع کریں گے۔ چندہ ہوگا۔ پچ بنے گی۔ فٹبال میں ہوا بھری جائے گی۔ ایک لڑکے نے کہا کہ حکومت کے انتظار میں بیٹھ رہے تو اگلی نسل بھی ٹک ٹاک پر ہی کھیلتی رہے گی۔ ایک استاد نے کہا کہ کھیل خود عوام نہ سنبھالے تو نوٹس اور انکوائریاں ہی کھیل بنتی رہیں گی۔پورا تماشہ دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ کھیل صحت ہے مگر کرپشن وہ بیماری جو صحت کو کھا جاتی ہے۔ بیماری کا علاج تب ہوگا جب لوگ سوال پوچھنا شروع کریں گے۔ جب UC کے شہری پوچھیں گے کہ منصوبے کہاں گئے۔ پیسے کہاں لگے۔ کھیل کب شروع ہوگا۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک یہی ہوتا رہے گا۔ بچے ٹیپ بال سے آگے نہیں بڑھیں گے۔ فٹبال گراونڈ میں بھینسیں بیٹھیں گی۔ اور ہم جیسے لوگ یہ کالم لکھتے رہیں گے۔

#SportsCorruption #UCLevelIssue #KPSports #FunnyColumn #PublicFunds #WhereIsTheMoney #AccountabilityNeeded #GrassrootsSports #YouthIgnored #SatireColumn

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 863 Articles with 698976 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More