پی ایس بی پشاور سینٹر اور کے پی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا دنگل۔ کھلاڑی پھر بھی بیچارے
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
یہ کہانی ہے دو اداروں کی۔ ایک طرف ہے پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سینٹر پشاور، جس کے ملازمین کی تنخواہیں اکیس بائیس لاکھ ماہانہ تک پہنچتی ہیں، مگر کام کی فہرست پڑھ کر لگتا ہے کہ شاید یہ صرف کسی روحانی سکون مرکز کے ملازم ہوں۔ دوسری طرف ہے خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ، جو محدود بجٹ اور تھکی ہوئی عمارتوں کے ساتھ بھی کوشش کر رہا ہے کہ جوانوں کو کھیلنے کا موقع مل جائے۔ اور درمیان میں پھنسے ہوئے ہیں کھلاڑی، جو کئی سال سے ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر کوٹ کس طرف سے کھلے گا اور کس طرف سے بند۔
اصل تنازعہ تین دن پہلے اس وقت سامنے آیا جب صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے اچانک پی ایس بی پشاور سینٹر کے مین گیٹ پر تالے لگا دیے۔ ایسا لگا جیسے کسی نے رات کو پرانا ٹی وی کھول کر سی آر ٹی نکال لی ہو۔ صبح ملازمین آئے تو گیٹ پر تالا لٹک رہا تھا اور باہر ایک چھوٹا سا بورڈ لگا تھا جیسے کسی گاو¿ں کی سرحد تبدیل ہوئی ہو کہ اب یہ جگہ صوبائی حدود میں شامل ہو گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اندر بیٹھے ملازمین اب بھی وفاق کی ڈیوٹی پر تھے، اور ان کی تنخواہوں کا حساب لگایا جائے تو پورے علاقے میں دو تین جمنازیم بن سکتے ہیں۔ لیکن جمنازیم تو چھوڑیں، یہاں تو پچھلے پانچ برس میں ایک ڈھنگ کا ٹورنامنٹ بھی نہ ہوا۔
اس فیصلے کی منظوری صوبائی کابینہ نے دے دی تھی، کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد کھیلوں کی ذمہ داری ویسے بھی صوبوں کے پاس ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ کچھ ادارے ترمیم کو سمجھنا نہیں چاہتے اور کچھ ادارے اسے سمجھ کر بھی انجان بنے ہوئے ہیں۔ اس لئے نتیجہ یہ ہے کہ ایک گیٹ کے دو مالک ہیں اور دونوں کو یقین ہے کہ یہ جگہ انہی کی ہے۔
پی ایس بی میں برسوں سے ایک انوکھی پالیسی چل رہی تھی۔ یہاں عام انسان تو دور کی بات، کھلاڑی بھی بغیر فیس کے داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ سات ہزار کی رجسٹریشن اور دو ہزار ماہانہ۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل کا اسپورٹس وِنگ ہو، جہاں داخلے سے پہلے انسان کا بینک اسٹیٹمنٹ چیک ہوتا ہو۔ والی بال، بیڈمنٹن اور دوسرے کھیلوں کے کھلاڑیوں سے یوں فیس مانگی جاتی تھی جیسے واشنگٹن ڈی سی کی کوئی سپورٹس اکیڈمی ہو اور اندر کوچنگ مائیکل فلپس دے رہا ہو۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جہاں کھلاڑیوں پر پابندیاں لگتی رہیں، وہیں ٹیبل ٹینس ہال پرائیویٹ جِم کے نام پر بغیر کسی شرم کے کھلا رکھا گیا تھا۔ بس ایک طرف سے کچے پکے تالے لگا کر تاثر دیا جاتا تھا کہ جگہ بند ہے، مگر اصل کام اندر سے چلتا رہتا تھا۔ جیسے کوئی بچوں کا کمرہ ہو جس کی صفائی صرف باہر سے نظر آئے۔کھلاڑیوں کے ساتھ بھی رویہ ہمیشہ افسوسناک رہا۔ یہاں تک کہ والی بال کے کھلاڑیوں نے احتجاج بھی کیا تھا، لیکن احتجاج کے بعد بھی حل یہی نکلا کہ پہلے سات ہزار جمع کرو پھر دو ہزار ماہانہ دیتے رہو، تب کہیں جا کر کھلاڑی داخلے کے قابل بنتے تھے۔ ایسے حالات میں کھلاڑیوں نے کے پی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں پناہ لی، جہاں کم از کم فیس پندرہ سو رکھی گئی۔ یعنی کم از کم اتنا احساس کہ کھلاڑیوں کو بھی گھر چلانا ہوتا ہے۔
جوڈو ہال کبھی بند، کبھی کھلا۔ سکواش کچھ عرصہ بند، پھر کھولا گیا۔ لیکن پی ایس بی کے ملازمین اور انتظامیہ کے لئے ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ وہ زیادہ فکر مند صرف اس بات کے تھے کہ لیز کب بنتی ہے اور کب ادھار چلتا ہے۔ پانچ برس میں نہ کوئی کھلاڑی پیدا ہوا، نہ کوئی ٹورنامنٹ ہوا، نہ کسی ایسوسی ایشن کو سپورٹ ملی۔ بس اخراجات بڑھتے گئے اور کھیل کم ہوتے گئے۔ جمنازیم سے لے کر دفاتر تک ہر جگہ خرچ تھا، مگر فائدہ کہیں نظر نہیں آتا تھا۔
اب آتے ہیں اس نئے ڈرامے کے دوسرے کردار کی طرف۔ پی ایس بی کے کچھ سابق افسران جنہوں نے اپنے وقت میں کھلاڑیوں سے ایسا سخت رویہ رکھا کہ گویا وہ نیلوفر کا پل بند کرا رہے ہوں۔ سکواش کھلاڑیوں کو بغیر فیس کے اندر آنے سے روکتے تھے اور عام بات چیت ایسے کرتے تھے جیسے کوئی شہنشاہ عدالت لگا کر بیٹھا ہو۔ لیکن جب ریٹائر ہوئے تو سیدھا کے پی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا رخ کیا تاکہ مفت میں پریکٹس بھی ہو جائے اور پھر کوچنگ کا چانس بھی مل جائے۔ مگر کھلاڑیوں نے اس رویے کو یاد رکھا تھا اور انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ یہ صاحب اگر کوچ لگے تو ہم کھیلنا چھوڑ دیں گے۔
یہی ہمارے نظام کی سب سے دلچسپ مگر تلخ حقیقت ہے۔ جو لوگ اپنے وقت میں کھلاڑیوں کو دروازے کے باہر رکھتے تھے وہ ریٹائرمنٹ کے بعد درخواست لے کر انہی کھلاڑیوں کے پیچھے پھرتے نظر آتے ہیں۔اب صورتحال یوں ہے کہ یہ زمین جو کبھی ایک ڈیری فارم تھی اور گلبرگ ریلوے لائن تک پھیلی ہوئی تھی، آہستہ آہستہ لیز، کٹوتیوں اور فیصلوں کے ہاتھوں دو اداروں میں تقسیم ہو گئی۔ کے پی ڈائریکٹریٹ نے لیز بروقت کی، کام بھی کسی حد تک بہتر کیا اور فیسیں بھی کم رکھیں۔ جب کہ پی ایس بی انتظامیہ نے سب کچھ 'کل دیکھیں گے' کے فارمولے پر چلایا۔
اب جب صوبہ آگے آیا، تو پی ایس بی کے ملازمین کی نوکریاں بھی خطرے میں ہیں۔ تنخواہیں بھاری ہیں، کام نہ ہونے کے برابر۔ کھلاڑی پیداواری صفر۔ رہی سہی کسر یہ کہ وفاقی ادارے کے اہلکار اپنی جگہ کو اپنا قلعہ سمجھتے تھے۔ مگر اب قلعے کا دروازہ ہی کسی اور نے کھول دیا، اور جو دروازہ پہلے بند تھا وہاں سے اب عام لوگ بھی اندر جا سکتے ہیں۔ وہی پی ایس بی جو کبھی کھلاڑیوں سے بغیر پیسے کے بات نہیں کرتا تھا، آج خود غیر یقینی میں بیٹھا ہے۔
لوگوں نے اس اقدام کو اہل اقدام قرار دیا ہے۔ لیکن کھلاڑی اب بھی الجھن میں ہیں۔ نہ ان کا کوئی نیا فائدہ ہوا ہے، نہ کوئی واضح اعلان آیا کہ مستقبل کیا ہوگا۔ البتہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ پر ایک نئی ذمہ داری ضرور آ گئی ہے کہ اب انہیں اس جگہ کی سیکیورٹی بھی سنبھالنی پڑ رہی ہے۔پی ایس بی کا ابھی تک کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ یہ بھی نہیں بتایا کہ تالے کیوں لگے، گیٹ کیوں کھلا، ماضی میں کھلاڑیوں کے ساتھ جو ہوتا رہا وہ کیوں ہوا۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ یہ جگہ ان کی ہے، صوبے کا اس میں کوئی کام نہیں۔ ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ لیز کا سلسلہ ابھی چل رہا ہے۔ یعنی وہی کل پر چھوڑ دینے والی پالیسی جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ آخر پچھلے پانچ برسوں میں کھلاڑیوں کے لئے کیا ہوا؟ اگر ہر کھیل سے وابستہ لوگ پیسے ہی دیتے رہے، اگر ہال پرائیویٹ جم بنتے رہے، اگر جوڈو، سکواش اور ٹیبل ٹینس کے کھلاڑی دربدر ہوتے رہے تو پھر یہ سارا ڈھانچہ کھڑا رکھنے کا فائدہ کیا تھا؟اب تالے کھل گئے ہیں، کچھ گیٹ بند ہیں، کچھ کھلے، کچھ پرانی دشمنیاں تازہ ہیں اور کچھ نئی سیاست شروع ہو گئی ہے۔ لیکن کھلاڑی آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں کل تھے۔ میدان ایک ہے، لڑائی دو اداروں کی ہے، لیکن کھیل کا نقصان صرف کھلاڑی کا ہے۔
وقت بتائے گا کہ یہ فیصلہ صوبے کے حق میں جاتا ہے یا نہیں۔ لیکن اگر بڑے ادارے بڑے فیصلے کرتے وقت کھلاڑیوں کو یاد رکھ لیں تو شاید انہیں یہ صورت حال نہ دیکھنا پڑے۔ ابھی کے لئے کہانی اتنی ہے کہ پشاور میں کھیل کم اور تنازعہ زیادہ نظر آ رہا ہے، اور دونوں طرف لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ کھیل کے میدان میں آخر کب کھیل شروع ہوگا۔
#psb #peshawar #pakistan #kpsports #directorate #sportnews #mojo #Mojoports #kpsports
|