چین میں بڑھتی عمر کی مالیات کا ابھرتا ہوا نظام
(SHAHID AFRAZ KHAN, Beijing)
|
چین میں بڑھتی عمر کی مالیات کا ابھرتا ہوا نظام تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
چین میں بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی کے تناظر میں اولڈ ایج فنانس کی اہمیت تیزی سے اجاگر ہو رہی ہے۔ ملک کے مختلف صوبوں اور شہروں نے 15ویں پانچ سالہ منصوبے کے دوران عمر رسیدہ افراد کے مالی تحفظ، نگہداشت اور فلاح سے متعلق جامع حکمتِ عملیوں کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں مالیاتی ادارے، بینک، انشورنس کمپنیاں اور حکومتی محکمے مشترکہ طور پر ایسے ماڈل تشکیل دے رہے ہیں جو بزرگ شہریوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات، نئے صارفی رجحانات اور ’’سلور اکانومی‘‘ کی ابھرتی ہوئی ترجیحات سے ہم آہنگ ہوں۔
چین کا مقصد ایسا پائیدار، کثیر سطحی اور انسان دوست مالیاتی نظام قائم کرنا ہے جو نہ صرف سرمایہ کاری اور پنشن کے محفوظ انتظام کو یقینی بنائے بلکہ صحت، نگہداشت، بحالی اور طرزِ زندگی کی سہولیات کو بھی مربوط انداز میں آگے بڑھائے۔اسی دوران بینکنگ اداروں نے بھی اس ابھرتے ہوئے شعبے میں حکمت عملی، مصنوعات کی جدت اور کاروباری توسیع کو تیز تر کر دیا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2024 کے اختتام تک چین میں 60 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد 310 ملین تک جا پہنچی ہے۔ ان میں سے 4 کروڑ 50 لاکھ سے زائد افراد یا تو معذوری یا ڈیمینشیا کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس صورتحال نے بزرگوں کی دیکھ بھال کے نظام میں مالیاتی شمولیت اور پائیدار سرمایہ کاری کی ضرورت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس خطے میں اولڈ ایج سروسز کی ترقی کا انحصار مالیاتی اداروں اور بزرگوں کی نگہداشت فراہم کرنے والی کمپنیوں کے باہمی تعاون پر ہے۔چینی حکام کے مطابق اس شعبے کی توسیع کو ایسے راستوں پر آگے بڑھایا جانا چاہیے جو پائیدار، قابل تقلید اور عوام کی دسترس میں ہوں۔
چین میں 60 تا 69 سال عمر کے تقریباً 170 ملین افراد ایک ایسی نسل ہیں جن کے طرزِ زندگی اور کھپت کے رجحانات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ 1962 تا 1972 کے درمیان پیدا ہونے والے 280 ملین افراد بھی جلد ہی بزرگی کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور یہ وہ نسل ہے جو معاشی اصلاحات اور کھلے پن کے دور میں پروان چڑھی اور مالی لحاظ سے مضبوط ہے۔ چین کی معمر آبادی ایک "ساختی تبدیلی" سے گزر رہی ہے۔ اب طلب صرف بنیادی مالی تحفظ تک محدود نہیں رہی، بلکہ سمارٹ ٹیکنالوجیز، صحت سے متعلق مصنوعات، اور نگہداشت و بحالی کی جدید سہولیات کی طلب میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔
ایک تازہ سروے رپورٹ کے مطابق معمر افراد کی مالی ترجیحات میں تبدیلی آرہی ہے۔ اب تقاضا صرف سرمایہ کے تحفظ اور منافع تک محدود نہیں رہا بلکہ صارفین ایک ایسے یکجا نظام کے خواہاں ہیں جس میں مالیات، صحت، نگہداشت اور تفریحی خدمات کو یکجا کیا گیا ہو۔
ملک گیر سطح پر کیے گئے اس سروے میں 10,137 افراد کی آراء کو شامل کیا گیا، جن میں 70 فیصد نے خواہش ظاہر کی کہ مالیاتی ادارے نہ صرف رقم کا بہتر انتظام کریں بلکہ انہیں معیاری طبی خدمات تک براہ راست رسائی بھی فراہم کریں۔ تقریباً 60 فیصد افراد نے ایسے مالیاتی پروڈکٹس میں دلچسپی ظاہر کی جو بزرگوں کے نگہداشت مراکز سے منسلک ہوں۔ اسی طرح 50 فیصد افراد نے سفری سہولیات پر مبنی ریٹائرمنٹ سروسز میں دلچسپی کا اظہار کیا۔
چین کا بینکاری نظام اولڈ ایج فنانس کو اپنی بڑی ترجیحات میں شامل کر چکا ہے۔ چائنا کنسٹرکشن بینک نے نہ صرف بزرگوں کی مالیاتی خدمات کے نظام کو فروغ دیا ہے بلکہ قرضوں کی تقسیم میں بھی بزرگوں کی دیکھ بھال کے شعبے کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بینک نے فنانسنگ کے مختلف ذرائع اور مصنوعات کے تنوع میں بھی اضافہ کیا ہے۔
حال ہی میں انڈسٹریل بینک نے اولڈ ایج فنانس پر ایک وائٹ پیپر بھی جاری کیا، جس میں اس شعبے کے مستقبل کا نقشہ پیش کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق آئندہ برسوں میں یہ شعبہ زیادہ نظام یافتہ فنڈ مینجمنٹ، متنوع سرمایہ کاری مصنوعات، شخصی نوعیت کی خدمات، بزرگ دوست ڈیجیٹل خدمات، متنوع فنانسنگ ماڈلز اور سلور اکانومی کی اسمارٹ ترقی کی جانب بڑھے گا۔
چین میں اولڈ ایج فنانس کا بڑھتا ہوا دائرہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ملک ایک ہمہ جہت اور مستقبل بَین نظامِ نگہداشت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مرکزی و صوبائی سطح پر جاری پالیسی اقدامات سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ آنے والے برسوں میں عمر رسیدہ شہریوں کے مالی، صحت اور طرزِ زندگی سے متعلق تقاضوں کو یکجا کر کے ایک مربوط ماڈل تشکیل دیا جائے گا۔ عوام کی بدلتی ہوئی ترجیحات، بڑھتی ہوئی اوسط عمر اور بڑھتی ہوئی نگہداشت کی ضرورتیں اس شعبے کی توسیع کو ناگزیر بنا چکی ہیں۔
مالیاتی اداروں کی شمولیت، جدید مصنوعات کی تیاری، خصوصی سروسز اور اسمارٹ ٹیکنالوجی کی شمولیت ’’سلور اکانومی‘‘ کو نئے امکانات فراہم کر رہی ہے۔ مجموعی طور پر یہ پیش رفت اس امر کا اظہار ہے کہ چین عمر رسیدہ معاشرے کی ضروریات کو نہ صرف وقت پر پہچان رہا ہے بلکہ اُن کے حل کے لیے ٹھوس، پائیدار اور ترقی پر مبنی حکمتِ عملی بھی وضع کر رہا ہے۔ |
|