بٹ گرام تحصیل گراونڈ منصوبہ: ایک دہائی کی تاخیر، فائل میں بدلتے بیانیے اور سیاسی خاموشی


بٹ گرام تحصیل playground منصوبہ، جسے 2013-14 کے اے ڈی پی پروگرام کے تحت خیبر پختونخوا میں کھیلوں کے میدانوں کی تعمیر کے لیے منظور کیا گیا تھا، ایک دہائی سے زائد عرصے سے تنازع، قانونی پیچیدگیوں اور فنڈز کے باوجود تعطل کا شکار ہے۔ اس منصوبے پر جاری دو مختلف سرکاری مراسلوں نے نہ صرف منصوبے کے بیانیے میں واضح تبدیلی ظاہر کی ہے بلکہ یہ بھی سوال اٹھایا ہے کہ موجودہ صوبائی مشیر کھیل، جو اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، اس معاملے میں عملی پیش رفت کیوں نہیں کر رہے۔

بٹ گرام کے لیے منتخب سائٹ نجی زمین تھی، جس کی خریداری کے لیے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کی گئی۔ زمین کی کل رقبہ 36 کنال 19 مرلہ تھی اور اس کے لیے ڈپٹی کمشنر بٹاگرام کے اختیار میں تقریباً 4 کروڑ 75 لاکھ روپے جمع کرائے گئے۔ سیکشن 4 کا نوٹیفکیشن 16 جنوری 2014 کو جاری ہوا، بعد ازاں سیکشن 6 اور سیکشن 17 کے نوٹیفکیشن بھی اجرائ ہوئے، اور ایوارڈ 26 مارچ 2021 کو دیا گیا۔

لیکن زمین مالکان نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا۔ ہائی کورٹ ایبٹ آباد بینچ نے کمشنر ہزارہ کو ہدایت دی کہ وہ اعتراضات سن کر فیصلہ کریں۔ بعد میں پشاور ہائی کورٹ نے دوبارہ کمیٹی کو موقع دیا کہ دونوں فریقین کو سن کر فیصلہ کیا جائے۔ یہ قانونی پیچیدگیاں منصوبے میں ایک ابتدائی تعطل پیدا کر گئیں، جو کئی برسوں تک جاری رہا۔سب سے اہم پہلو وہ ہے کہ محکمے کی فائل میں صرف ایک ماہ کے اندر اندر بیانیہ کس طرح بدل گیا۔

پہلا مراسلہ:لہجہ سخت اور تحقیقی تھا۔منصوبے میں سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔سفارش کی گئی کہ متعلقہ افسران کے خلاف مکمل انکوائری کی جائے اور ذمہ داری کا تعین ہو۔ قانونی مراحل، نوٹیفکیشن اور ایوارڈ کی تفصیلات سمیت زمین کے حصول کے عمل کو نمایاں کیا گیا۔

جبکہ دوسرا مراسلے میں جو صرف ایک ماہ بعد جاری ہوا، اور لہجہ نرم ہو گیا۔منصوبے کو اب تنازع اور مالی رکاوٹوں کا شکار قرار دیا گیا۔سفارش کی گئی کہ زمین کو ڈی نوٹی فائی کیا جائے اور منصوبے کو لینڈ ریونیو ایکٹ 1894 کی دفعہ 48 کے تحت نمٹایا جائے۔افسران کے کردار پر کم زور اور مسئلے کی وجہ حالات اور مالی مشکلات قرار دی گئی۔

یہ تبدیلی سوالات کھڑے کرتی ہے کہ کیا واقعی منصوبے میں بے ضابطگیاں موجود تھیں، یا بیانیہ دباو، مفاہمت یا اندرونی فیصلوں کی بنیاد پر بدل گیا؟ فائل کے ایک ماہ میں بدلتے موقف نے شفافیت اور ذمہ داری کے بارے میں شبہات پیدا کر دیے ہیں۔یکم فروری 2023 کو کمشنر ہزارہ کی سربراہی میں اجلاس ہوا جس میں دونوں فریقین کو سننے کے بعد سائٹ کا جائزہ لیا گیا۔ اسسٹنٹ کمشنر بٹاگرام نے تین متبادل سائٹس کی نشاندہی کی، لیکن وہاں تعمیراتی لاگت ضرورت سے زیادہ پائی گئی۔ اس کے نتیجے میں سائٹ کا حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔

ڈائریکٹوریٹ آف سپورٹس نے صورتحال کا جائزہ لے کر تجویز دی کہ مسلسل تنازع اور مالی مسائل کی وجہ سے موجودہ مقام کو ڈی نوٹی فائی کیا جائے، اور معاملے کی مکمل انکوائری کی جائے کیونکہ فنڈز کے باوجود منصوبہ عملی طور پر نہیں بڑھ سکا۔یہ معاملہ اب سیاسی نقطہ نظر سے بھی اہم ہو گیا ہے۔ موجودہ صوبائی مشیر برائے کھیل اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ عوامی توقع یہ ہے کہ مشیر اپنے حلقے کے اہم کھیل منصوبے پر توجہ دیں گے، قانونی تعطل اور مالی رکاوٹیں ختم کریں گے اور منصوبے کو عملی شکل دیں گے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک دہائی کے بعد بھی منصوبہ زمین پر نہیں پہنچا۔ نوجوان کھلاڑی اور علاقائی کھیل کے شائقین مناسب میدان سے محروم ہیں، جبکہ فنڈز اور قانونی اقدامات مکمل ہو چکے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر موجودہ مشیر فعال ہوتے تو کیا فائل کا لہجہ ایک ماہ میں بدلتا اور منصوبہ ڈی نوٹی فائی کی تجویز پر آتا؟

4 کروڑ 75 لاکھ روپے سے زائد فنڈز ڈپٹی کمشنر کے پاس موجود تھے۔زمین خریداری کے نوٹیفکیشن اور ایوارڈ قانونی طور پر مکمل ہو چکے تھے۔لیکن منصوبہ عملی طور پر تعطل کا شکار رہا۔اس تعطل کی وجہ سے نہ صرف علاقائی نوجوانوں کے کھیل کے مواقع محدود ہوئے بلکہ سرکاری فنڈز کا شفاف اور موثر استعمال بھی مشکوک نظر آتا ہے۔

ایک ماہ کے اندر فائل کے بیانیے میں تبدیلی نے افسران کی ذمہ داری اور شفافیت پر سوال اٹھا دیے۔ موجودہ مشیر کھیل کا علاقائی تعلق ہونے کے باوجود عملی پیش رفت نہ ہونا عوامی توقعات کے برعکس ہے۔منصوبے میں مالی وسائل موجود ہونے، قانونی کارروائی مکمل ہونے اور کمیٹی اجلاسوں کے باوجود بھی عدم تکمیل نے منصوبے کو صرف کاغذوں تک محدود کر دیا۔

یہ معاملہ محکمے کی شفافیت، افسران کی ذمہ داری اور سیاسی نمائندگی کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے۔ فائل کے دو مختلف بیانیے، تنازعات اور مشیر کی غیر فعالیت، سب اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ منصوبے کے حقیقی مقاصد اور عوامی فائدے کو کس طرح نظرانداز کیا گیا۔

#BatagramGround #KPSports #CorruptionInSports #ADP2013_14 #LandAcquisition #InvestigativeJournalism #KPNews #DelayedProjects #SportsInfrastructure #PoliticalAccountability #TransparencyInKP #YouthSports


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 875 Articles with 704845 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More