باتوں کے شہنشاہ، کام کے بھگوڑے ‘پاکستانی کھیلوں کی تباہی کے اصل کردار

کبھی سوچا ہے کہ اگر باتوں سے ملک چلتا تو پاکستان اب تک کھیلوں میں امریکہ، چین اور انگلینڈ کو پیچھے چھوڑ چکا ہوتا۔ ہر زمرے میں سونے کے تمغے، ہر میدان میں گرین ٹی شرٹیں، اور ہوٹل لابیوں میں جب ہاتھ ملانے کو لوگ نہ ملتے تو ہمارے عہدے دار اپنی ہی تصویر کو مخاطب کر کے “شاباش چیمپئن” کہتے اور پھر ایک سیلفی لے لیتے۔ لیکن زندگی اتنی آسان نہیں ایک ہاتھ میں پروٹوکول اور دوسرے میں سلائیڈ بریفس پکڑ کر کسی ملک کو چیمپئن نہیں بنایا جاتا۔

کراچی جاتے ہوئے ٹرین میں خیبر پختونخوا کے کھیلوں کے دستے کے ایک سینئر ذمہ دار نے بڑے مان سے بتایا کہ جب وہ کوریا گئے تھے تو استقبال، رہائش، پروٹوکول سب کچھ لڑکیوں نے منظم طریقے سے سنبھالا تھا۔ نظم و ضبط ایسا کہ کھلاڑیوں کی جوتے کی فیتے کھولتے وقت بھی کوریائی مسکراہٹ برقرار۔ انہوں نے بڑی سنجیدگی سے بتایا کہ “وہاں سب کچھ سسٹم کے مطابق”۔ سوال کیا کہ “ہمارے یہاں ایسا کیوں نہیں” تو سسٹم ساتھ ہی خاموش ہو گیا۔ ایک بتی ٹمٹمائی، ایک کھڑکی کھلی اور باقی سب اپنے اپنے موبائل پر مصروف۔ جیسے سوال پوچھنے کا جرم ایسا ہو جو ماضی کے حریفوں سے بھی نہ پوچھا جائے۔ کیونکہ جن کو ہم نے سالوں سے کرسی پر بٹھایا ہے وہ اس کرسی کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں کھیلوں کے عہدے ایسے بانٹے جاتے ہیں جیسے عید پر سویاں، جو ملا لیا وہ اپنا۔ آپ نے کبھی نوٹ کیا کہ کسی بڑی گیمز سے واپسی پر کھلاڑی تو تھکے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن عہدے دار ایسے ریل بناتے ہوئے آتے ہیں جیسے انہوں نے ٹریننگ کے دوران ورلڈ ریکارڈ بنایا ہو۔ کھلاڑی انتظار کی لائن میں اور یہ بہادر سپہ سالار فرنٹ لائن پر۔ پہلے گاڑی سے نکلتے ہیں، پھر ہوٹل تک آتے ہیں، وہاں سے کانفرنس ہال جاتے ہیں اور آخر میں “ریفریشمنٹ” تک۔ کھلاڑیوں سے ملاقات اگر مجبوری میں ہو بھی جائے تو سوال نہیں جواب دیتے، جواب دیں بھی تو “بہتر ہوگا ہم اس پر کمیٹی بنا دیں”۔

یہاں کھیلیں شروع کم ہوتیں ہیں اور کمیٹیاں پہلے پانچ اوورز میں تشکیل پا جاتی ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ فنڈ نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ فنڈ وہاں لگتا ہے جہاں کھیل نہیں۔ کھلاڑی گراونڈ میں پلاسٹک کی بوتلوں سے ڈربلنگ کر رہے ہیں اور ہمارے منتظمین بیرون ملک ہوٹلوں کی بالکنی سے وی لاگ میں بتا رہے ہوتے ہیں “پاکستانی کھیلوں کا مستقبل روشن”۔ ویسے مستقبل واقعی روشن ہے کیونکہ ان کے کمرے میں روشنی ہمیشہ آن ہوتی ہے۔ بجلی کا بل کس کھاتے میں جاتا ہے یہ سوال ابھی زیر غور ہے۔

دنیا بتاتی ہے کہ کھیل نظم و ضبط، محنت اور برداشت سکھاتا ہے۔ ہمارے یہاں کھیل سکھاتا ہے کہ پروٹوکول کیسے لیا جاتا ہے، تصویریں کس اینگل سے بہتر آتی ہیں اور پریس ریلیز میں کامیابی کے جملے کیسے رکھے جاتے ہیں۔ کسی بھی مقابلے میں ہار ہو تو اس کا ذمہ دار “حالات”۔ حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ کھلاڑیوں سے زیادہ حالات تھک جاتے ہیں۔ اور جب اگلی بار شکست ہو تو وہی پرانا بہانہ، “وقت کم ملا”، “کیمپ نہیں لگا”، “مخالف ٹیم تیار تھی”، “ہمیں کھانا دیر سے ملا”، اور اگر کوئی بہت زیادہ سوال کرے تو “آپ سازش کر رہے ہیں”۔

کھیلوں میں قابض گروہ ایسے مضبوط ہیں جیسے چائے کے بغیر پوائنٹ نہ ملنے کی ضد۔ جو نئے آئیں ان کا حشر ویسا ہوتا ہے جیسے ٹیم میں نیا کھلاڑی سیزن کی آخری اوور میں بولنگ مانگ لے۔ ہونہار لوگ سائیڈ پر، اور “تجربہ کار” ہر تصویر کے فرنٹ فریم میں۔ سسٹم ایک خاندان کی طرح ہے جہاں عہدے نسل در نسل چلتے ہیں، جیسے پرانی گھڑی جو وقت نہیں بتاتی لیکن گھر کی سجاوٹ ضرور پوری کرتی ہے۔فنڈ کھلاڑیوں کے نام پر آتا ہے تو استعمال ان کے نام پر نہیں ہوتا۔ ٹکٹیں کبھی کھلاڑی کے ہاتھ میں نہیں ہوتیں، ہمیشہ عہدے دار کے بٹوے میں ہوتی ہیں۔ واپسی پر رپورٹ تیار ہوتی ہے، “ہم نے بہترین نمائندگی کی”، اور اگر کوئی ثبوت مانگ لے تو فوراً “پارلیمانی زبان میں جواب دیں گے”۔ یعنی کوئی جواب نہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ مذاق بند کریں۔ کھیل کوئی شادی کی تقریب نہیں کہ مائیک پکڑ کر بے ربط تقریر کر دی جائے۔ حساب کتاب ہو، آڈٹ ہو، فنڈ کا ریکارڈ ہو، اور عہدے وہی سنبھالیں جن کے ہاتھ میں کریڈٹ کیمرہ نہیں ٹریننگ پلان ہو۔ پاکستان کے پاس باصلاحیت نوجوانوں کی کمی نہیں، مسئلہ رہنماو¿ں کی سمت ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اصلاح نہ کی تو کل کے بچے میچ میں نہیں موبائل پر گیم کھیلیں گے اور کھیل گراونڈ میں نہیں ان کہانیوں میں زندہ رہے گا کہ “ایک وقت تھا جب ہم بھی کھیلتے تھے”۔پاکستان کو کھلاڑی چاہیے، تقریر کرنے والے نہیں۔ میدان چاہیے نہ کہ ایک اور کمیٹی۔ کام کرنے والے چاہیے نہ کہ تصویر بنانے کے ماہر۔ ورنہ اگلی گیمز میں بھی ہم یہی کہیں گے “سسٹم نہیں تھا” اور سسٹم جواب دے گا “سوال غلط پوچھا ہے”۔

#PakistanSports #SportsReforms #AccountabilityInSports #AthletesFirst #StopProtocolCulture #SportsMismanagement #ComedyColumn #SportsNeedsChange #RealSportsReforms #KPKSports #NationalGames #SportsCommitteeDrama

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 902 Articles with 718982 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More