خیبرپختونخوا اسپورٹس: میڈلز، مراعات اور منافقت کا کھیل
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبرپختونخوا میں اسپورٹس کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کھیل کم اور تماشہ زیادہ بن چکا ہے۔ یہاں ہر سال کچھ مخصوص کھلاڑی، کوچز اور ایسوسی ایشنز ایسی باقاعدگی سے سامنے آتی ہیں کہ اب انہیں “ٹیلنٹ” نہیں بلکہ “سسٹم کا مستقل حصہ” کہنا زیادہ درست ہوگا۔ اس سسٹم میں محنت ثانوی ہے، سفارش بنیادی، اور جواب دہی تقریباً ناپید۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں ان کھلاڑیوں کی جو ہر سال ڈائریکٹوریٹ اسپورٹس سے “باہر جانے” کے نام پر رقم لیتے ہیں۔ کبھی روانگی سے پہلے، کبھی واپسی پر۔ دلیل ہمیشہ ایک ہی ہوتی ہے کہ ہم انٹرنیشنل مقابلوں میں جا رہے ہیں، ملک اور صوبے کا نام روشن کریں گے۔ پھر چند ہفتوں یا مہینوں بعد وہی کھلاڑی واپس آتے ہیں اور ایک نئی کہانی سناتے ہیں کہ وہ “انٹرنیشنل گولڈ میڈلسٹ” بن گئے ہیں۔ کبھی گولڈ، کبھی سلور، کبھی کوئی اور تمغہ۔ کاغذات میں سب کچھ شاندار، مگر گراونڈ میں تصویر بالکل مختلف۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ کھلاڑی واقعی اتنے اعلیٰ معیار کے انٹرنیشنل گولڈ میڈلسٹ ہیں تو پھر پاکستان کی نیشنل گیمز میں ان کی کارکردگی کہاں غائب ہو جاتی ہے؟ حالیہ نیشنل گیمز اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ کئی نام نہاد انٹرنیشنل میڈلسٹ کھلاڑی خالی ہاتھ واپس آئے۔ نہ گولڈ، نہ سلور، نہ برانز۔ بعض تو ابتدائی مرحلوں میں ہی باہر ہو گئے۔ اب یا تو ان کے انٹرنیشنل میڈلز دو نمبر ہیں، یا پھر پاکستان کی نیشنل گیمز ان عالمی مقابلوں سے زیادہ سخت اور اعلیٰ معیار کی ہیں، جو ایک مضحکہ خیز دعویٰ ہوگا۔
اگر ذرا سی تحقیق کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کروڑوں روپے ان ہی نام نہاد انٹرنیشنل ٹورز پر خرچ کیے گئے۔ وہ مقابلے جن میں شرکت کر کے “گولڈ میڈل” لانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، ان میں سے کئی نہ تو کسی مستند انٹرنیشنل فیڈریشن کے تحت ہوتے ہیں، نہ ان کی کوئی وقعت ہوتی ہے۔ مگر ہمارے سسٹم میں صرف ایک چیز کافی ہے، کاغذ پر “انٹرنیشنل” لکھا ہونا۔ باقی سوال پوچھنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔ اسی کہانی کا دوسرا رخ کوچز ہیں۔ سرکاری کوچز، تنخواہ بھی پوری، مراعات بھی مکمل، مگر کارکردگی صفر۔ ان کی اصل مہارت کوچنگ نہیں بلکہ مکھن بازی، خوشامد اور دفتر کے چکر ہیں۔ جن کوچز کے کھلاڑی حالیہ نیشنل گیمز میں ایک بھی میڈل نہیں جیت سکے، وہی کوچز ہر سال بیرون ملک ٹورز، کیمپس اور ڈیلیگیشنز کا حصہ بنتے ہیں۔ میدان میں نتیجہ کچھ بھی ہو، فائل میں سب اچھا لکھا جاتا ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کئی ایسے کوچز ہیں جنہوں نے کبھی اپنی ٹیم کو قومی سطح پر نمایاں کامیابی نہیں دلائی، مگر پھر بھی وہ ہر اہم ایونٹ میں موجود ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو واقعی گراونڈ میں محنت کرتے ہیں، جن کے کھلاڑی نتائج دیتے ہیں، وہ اکثر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس سفارش نہیں، سیاسی پشت پناہی نہیں، اور خوشامد کا ہنر نہیں۔اب آتے ہیں حالیہ ٹرائلز کی طرف، جہاں ناانصافی کی ایک اور مثال سامنے آئی۔ نیشنل گیمز کے لیے ہونے والے ٹرائلز میں کئی گولڈ میڈلسٹ کھلاڑیوں کو منتخب ہی نہیں کیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو کھلاڑی منتخب ہو کر نیشنل گیمز میں گئے، ان میں سے کئی صرف سلور یا برانز تک محدود رہے، جبکہ وہ گولڈ میڈلسٹ، جو واقعی ثابت شدہ تھے، باہر بیٹھے رہے۔ یہ فیصلہ کن سوال ہے کہ آخر انتخاب کا معیار کیا تھا؟ میڈل؟ کارکردگی؟ یا پھر کوئی اور چیز جو فائلوں میں تو لکھی نہیں جاتی مگر سب کو معلوم ہوتی ہے۔
یہ صورت حال اس شک کو مزید مضبوط کرتی ہے کہ یا تو ان نام نہاد انٹرنیشنل گولڈ میڈلز کی کوئی حیثیت نہیں، یا پھر انتخاب کا پورا عمل ہی مشکوک ہے۔ دونوں صورتوں میں نقصان صوبے کے کھیلوں کا ہے، مگر فائدہ ہمیشہ چند مخصوص چہروں کو پہنچتا ہے۔اس نظام میں سفارش اور سیاسی مداخلت ایک کھلا راز ہے۔ جن کھلاڑیوں اور کوچز کے پیچھے کوئی بااثر شخصیت ہو، ان کے لیے دروازے خود بخود کھل جاتے ہیں۔ ٹرائلز محض رسم بن جاتے ہیں، اور فیصلے پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ باصلاحیت کھلاڑی جن کا کوئی “سہارا” نہیں، وہ صرف محنت کرتے رہ جاتے ہیں۔ نہ ان کی آواز سنی جاتی ہے، نہ ان کی کارکردگی دیکھی جاتی ہے۔ وہ بس چل وہی ہیں، جیسے سسٹم انہیں تھکانا چاہتا ہو۔
خیبرپختونخوا اسپورٹس کا ایک اور بڑا المیہ یہ ہے کہ محنت کوئی اور کرتا ہے، اور مزے کوئی اور لے جاتا ہے۔ حالیہ نیشنل گیمز میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے جہاں کچھ لوگ صرف اس لیے ڈیلیگیشن کا حصہ بن گئے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اسپورٹس سے وابستہ تھے، حالانکہ ان کے کھلاڑی میدان میں تھے ہی نہیں۔ بعض کیسز میں تو ایسا بھی ہوا کہ اصل کوچ اور مینجر، جنہوں نے کھلاڑیوں کو تیار کیا، وہ پیچھے رہ گئے، اور ان کی جگہ کوئی اور شخص خوشی خوشی نیشنل گیمز میں جا بیٹھا۔ یہ صرف ناانصافی نہیں، یہ کھلی لوٹ ہے۔
تیسری اور شاید سب سے خطرناک بات ایسوسی ایشنز سے متعلق ہے۔ حالیہ نیشنل گیمز میں کچھ ایسی ایسوسی ایشنز کے کھلاڑیوں نے حصہ لیا جو محض پندرہ دن پہلے بنی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کا الحاق کیسے ہوا؟ کب ہوا؟ کس قانون کے تحت ہوا؟ مگر یہاں وہی اصول لاگو ہوتا ہے کہ “سہاگن وہی جسے پیا من چاہے”۔ اگر اوپر سے اشارہ ہو تو پندرہ دن پرانی ایسوسی ایشن بھی اہل، اور اگر پسند نہ ہو تو برسوں پرانی تنظیم بھی نااہل۔
اس کے برعکس کئی ایسی ایسوسی ایشنز ہیں جو برسوں سے کام کر رہی ہیں، باقاعدہ کھلاڑی تیار کرتی ہیں، مگر انہیں کھیلنے ہی نہیں دیا گیا۔ نہ ان کا موقف سنا گیا، نہ کوئی شفاف وجہ بتائی گئی۔ یہ ناانصافی صرف ایسوسی ایشنز کے ساتھ نہیں، بلکہ ان کھلاڑیوں کے ساتھ بھی ہے جو ان پلیٹ فارمز سے آگے آ سکتے تھے۔کھیلوں میں قانون اور اصول ہونا ایک اچھی بات ہے، مگر شرط یہ ہے کہ وہ سب پر یکساں لاگو ہوں۔ اگر قوانین صرف کمزوروں کے لیے ہوں اور طاقتور ان سے مستثنیٰ ہوں تو پھر اسے نظام نہیں، ڈھونگ کہا جاتا ہے۔ جو لوگ اسپورٹس کے نظام کے ذمہ دار ہیں، انہیں سب سے پہلے یہ قوانین اپنے اوپر لاگو کرنے ہوں گے۔
خیبرپختونخوا اسپورٹس آج ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ یا تو یہ خود احتسابی کی طرف جائے، یا پھر یہی میڈلز، یہی مراعات اور یہی منافقت آگے چلتی رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی سننے والا ہے، یا پھر ہر سچ کو بھی کسی “وضاحتی بیان” کے نیچے دفن کر دیا جائے گا؟
#kikxnow #sports #article #column #musarratullahjan #digitalcreator
|