خیبرپختونخوا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کٹہرے میں: ایک انکوائری جو فائلوں نہیں، پورے نظام کو بے نقاب کر رہی ہے

یہ معاملہ بظاہر خیبرپختونخوا کے وزیرِ کھیل کی جانب سے دی جانے والی ایک معمول کی انکوائری کا ہے، مگر جیسے جیسے سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے طلب کی گئی معلومات سامنے آ رہی ہیں، ویسے ویسے یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ یہ صرف چند فائلوں یا ایک دو افسران کی بات نہیں۔ یہ انکوائری دراصل ایک ایسے نظام پر سوالیہ نشان ہے جو برسوں سے کھیلوں کے نام پر فنڈز استعمال کرتا رہا، مگر کھلاڑی اور میدان دونوں خالی رہے۔یہ انکوائری دو مختلف پراجیکٹس سے متعلق ہے، جن میں سب سے نمایاں “کھیلوں کی ایک ہزار سہولیات” کا منصوبہ اور یونین کونسل لیول پر کیے جانے والے ترقیاتی کام شامل ہیں۔ ان منصوبوں کا مقصد تو یہ بتایا گیا کہ کھیل کو نچلی سطح تک فروغ دیا جائے، مگر انکوائری میں اٹھائے گئے سوالات اس دعوے کو کمزور کرتے نظر آتے ہیں۔

اس پس منظر کو سمجھے بغیر معاملے کی سنگینی واضح نہیں ہوتی۔ کچھ عرصہ قبل ہم نے انہی صفحات پر ڈیرہ اسماعیل خان میں چھ افراد کی مفت بھرتی کی خبر شائع کی تھی۔ یہ تمام افراد ڈی ڈی او کے قریبی رشتہ دار تھے۔ نہ کوئی اشتہار دیا گیا، نہ ٹیسٹ ہوا، نہ انٹرویو۔ اس کے باوجود چھ ماہ تک انہیں سرکاری خزانے سے تنخواہیں دی جاتی رہیں۔ دلچسپ اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ جب ان افراد نے اپنی ملازمت سے متعلق سوال اٹھایا تو انہیں کہا گیا کہ آپ تو ہمارے ملازم ہی نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ ملازم نہیں تھے تو تنخواہیں کس حیثیت میں دی گئیں؟

انکوائری میں سب سے پہلا بنیادی سوال یہی اٹھایا گیا ہے کہ کھیلوں کی ایک ہزار آسامیاں ہونے کے باوجود اہلکار کیوں بھرتی نہیں کیے گئے۔ اگر آسامیاں موجود تھیں تو بھرتی کا عمل کیوں نہیں ہوا، اور اگر بھرتی کا ارادہ ہی نہیں تھا تو پھر بجٹ کہاں خرچ ہوا؟ یہ خلا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آسامیاں شاید صرف کاغذوں میں موجود تھیں، جبکہ اصل مقصد فنڈز کے استعمال کے لیے راستہ بنانا تھا۔فنڈز اور اخراجات سے متعلق سوالات انکوائری کا مرکزی نکتہ ہیں۔ خاص طور پر ریپئر اور ری ہیبلیٹیشن کے نام پر ہونے والے اخراجات پر سخت اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ کوٹیشن کے نظام میں مبینہ گڑبڑ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کئی کام صرف ایک کوٹیشن پر کروائے گئے، جو سرکاری قواعد کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس سے بھی زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ سول ورک کی نہ باقاعدہ منظوری لی گئی اور نہ ہی کسی سول انجینئر کو ذمہ دار ظاہر کیا گیا۔ اس کے باوجود لاکھوں اور کروڑوں روپے کے اخراجات دکھا دیے گئے۔

یہی طریقہ کار ریپئر اور مینٹیننس کے کاموں میں بھی اپنایا گیا۔ اخراجات بڑھا چڑھا کر دکھائے گئے، ریکارڈ نامکمل رکھا گیا، اور فائلوں میں ایسی خاموشی ہے جو خود بہت کچھ بیان کرتی ہے۔ پروکیورمنٹ کمیٹی کی منظوری کے بعد سامان خریدنے کا دعویٰ تو کیا گیا، مگر یہ واضح نہیں کہ ٹھیکہ کس فرم کو دیا گیا۔ کئی کیسز میں کوٹیشن جس نام پر جاری ہوئی، وہ نام ہی ریکارڈ میں موجود نہیں۔ یہ صورتحال جعلی کمپنیوں یا کاغذی فرموں کے شبے کو جنم دیتی ہے۔انکوائری میں چیکوں کی مکمل تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مالی لین دین پر بھی شکوک پائے جاتے ہیں۔ ڈی ڈی او سے متعلق معلومات ایک الگ سوالیہ نشان ہیں۔ خاص طور پر سید محمد زاہد شاہ، جو بطور جی آئی ایس اسپیشلسٹ تعینات رہے، ان کی تعلیمی قابلیت، تقرری کی منظوری، ذمہ داریوں اور حتیٰ کہ آو¿ٹ فٹ تک کی تفصیل مانگی گئی ہے۔ یہ سوالات اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ شاید یہ تقرری بھی قواعد و ضوابط کے مطابق نہیں تھی۔

مزید یہ کہ دو مختلف پراجیکٹس میں ڈی ڈی او شپ کس طرح دی گئی، یہ بھی انکوائری کا حصہ ہے۔ عام طور پر اس نوعیت کے اختیارات محدود اور واضح ہوتے ہیں، مگر یہاں بظاہر اختیارات کی تقسیم بھی غیر معمولی دکھائی دیتی ہے۔سٹاک رجسٹر سے متعلق ریکارڈ بھی مشکوک قرار دیا گیا ہے۔ سامان کی خریداری، استعمال اور موجودہ حیثیت سے متعلق مکمل تفصیلات دستیاب نہیں۔ سرکاری گاڑیوں کی تفصیل، تیل کے اخراجات اور مینٹیننس کے ریکارڈ بھی سوالات کی زد میں ہیں۔ لاگ بک میں مکمل اندراجات نہیں کیے گئے، جس سے سرکاری وسائل کے استعمال کی تصدیق ممکن نہیں رہتی۔

سب سے چونکا دینے والا پہلو پی ایس او کارڈز کا معاملہ ہے۔ انکوائری کے مطابق اٹھائیس پی ایس او کارڈز جاری کیے گئے۔ کاغذی ریکارڈ میں تیل کے لیے مختص رقم کم دکھائی گئی، مگر عملی طور پر کہیں زیادہ ادائیگیاں کی گئیں۔ یہ اضافی رقم کہاں سے آئی، کس کے حکم پر جاری ہوئی، اور کس مقصد کے لیے استعمال ہوئی، یہ سب سوال ابھی جواب مانگ رہے ہیں۔غیر قانونی اخراجات کی تفصیلات بھی انکوائری میں شامل ہیں۔ جو اخراجات کاغذوں میں دکھائے گئے، وہ زمینی حقیقت سے کہیں زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔ اعزازیے بھی بغیر کسی واضح معیار یا کارکردگی کے دیے گئے، جو سرکاری وسائل کے غلط استعمال کی ایک اور مثال ہے۔

بینک آف خیبر میں ڈیپارٹمنٹ کے نام پر رقوم جمع کرانے کا معاملہ بھی سنگین نوعیت کا ہے۔ کیوں یہ رقوم وہاں رکھی گئیں، کون اس کا ذمہ دار تھا، اور پھر یہ رقوم کس طرح نکلوائی گئیں، ان سوالات کے جوابات مالی بے ضابطگیوں کی پوری زنجیر کھول سکتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام سوالات دو مختلف پراجیکٹس سے متعلق ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسئلہ کسی ایک اسکیم، ایک افسر یا ایک سال تک محدود نہیں۔ یہ ایک تسلسل ہے، ایک طریقہ ہے، جو برسوں سے چل رہا ہے۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ انکوائری واقعی منطقی انجام تک پہنچے گی یا یہ بھی دیگر انکوائریوں کی طرح فائلوں میں دفن ہو جائے گی؟ اگر ذمہ داروں کا تعین نہ ہوا اور رقوم کی ریکوری نہ کی گئی تو یہ پورا عمل محض نمائشی ثابت ہوگا۔خیبرپختونخوا کے نوجوان کھلاڑی آج بھی بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہے ہیں۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ کھیلوں کے نام پر فنڈز کی کبھی کمی نہیں رہی، کمی رہی تو نیت اور نگرانی کی۔ اگر یہ انکوائری بھی ناکام ہوئی تو یہ پیغام جائے گا کہ کھیل بھی اب ایک ایسا شعبہ بن چکا ہے جہاں جوابدہی کا کوئی خوف نہیں۔اب بھی وقت ہے کہ اس انکوائری کو مثال بنایا جائے، تاکہ مستقبل میں کھیلوں کے نام پر ہونے والا یہ استحصال روکا جا سکے۔

#KPSportsInquiry
#SportsGovernance
#PublicFunds
#Accountability
#SportsCorruption
#Transparency
#KhyberPakhtunkhwa
#InvestigativeJournalism

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 885 Articles with 711698 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More