ایک تحریر ایک پیغام

کسی کی دل آزاری کرنا کیسا ؟
حضرت سیدنا مجاہد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا فرمان ہے “دوزخیوں پر خارش مسلط کر دی جائے گی وہ اس قدر خارش کریں گے کہ ان کے چمڑے اور گوشت اتر کر ہڈیاں ظاہر ہو جائیں گی پھر آواز آئے گی کہ کیا تم کو اس سے تکلیف ہوتی ہے وہ کہیں گے ہاں ! جواب ملے گا یہ اس کا بدلہ ہے جو تم مومنوں کو ایذا دیا کرتے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کی طرف تیز نظر (دکھنے والی) نظر سے دیکھے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو ڈرائے مذید فرمایا اللہ تعالٰی مومنوں کے ایذا دینے والے کو ناپسند کرتا ہے۔ طبرانی کی روایت میں ہے جس کسی نے بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کو تکلیف دی اس نے تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ عزوجل کو تکلیف دی۔ جس نے ناحق کسی مومن فقیر کو دکھ دیا گویا اس نے کعبہ کو ڈھایا اور ایک ہزار مقرب فرشتوں کو قتل کیا۔ (بحوالہ کتاب محک الفقر)

اف اتنا بڑا گناہ ! پتہ نہیں مسلمان کہلانے والوں کو کیا ہو گیا۔ آج ہر طرف ہی ظلم و ستم کا بازار گرم ہے بلاوجہ دوسروں کی عزتوں کو پامال اور ان کی جانوں پر تشدد کیا جا رہا ہے آئے دن ایسے واقعات اخبارات میں آپ بھی پڑھتے سنتے ہوں گے۔
اللہ تعالٰی سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین

دل کی اصلاح
حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ:- “حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے، اور ان کے درمیان (بہت سی چیزیں) شہبے والی ہیں، جن کی حقیقت سے اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں، پس جو شخص شہبے والی چیزوں سے بچ گیا، اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو شبہات میں گر گیا (یعنی انہیں اختیار کر لیا) وہ حرام میں مبتلا ہو گیا، جیسے وہ چرواہا ہے جو (کسی کی مخصوص) چراگاہ کے اردگرد (اپنے جانوروں کو) چراتا ہے، قریب ہے کہ اس کے جانور اس چراگاہ کے اندر داخل ہو کر اسے بھی چرنا شروع کر دیں گے۔ سنو ! ہر بادشاہ کی رکھ (مخصوص چراگاہ) ہوتی ہے (جس میں داخل ہونے کی کسی کو اجازت نہیں ہوتی) سنو ! اللہ کی رکھ، اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں (جن کے قریب کسی کے لئے جانا جائز نہیں) سنو ! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ صحیح ہوتا ہے تو سارا جسم صحیح ہوتا ہے اور جب وہ خراب ہوتا ہے تو سارا جسم انسانی خراب ہو جاتا ہے، اور وہ (گوشت کا ٹکڑا) دل ہے۔“ (بخاری و مسلم شریف)

فائدہ :-
اسلام نے انسان کی فضیلت و بزرگی اور نجات کا جو معیار مقرر کیا ہے وہ تقوٰی اور پرہیزگاری ہے اسی لئے اسلام نے جتنی عبادات فرض کی ہیں ان کا مقصد بھی حصول تقوٰی قرار دیا ہے، بلا شبہ یہ تقوٰی ہی ہے کہ انسان ایسے معاملات و امور جو کہ شہبے میں ڈالنے والے ہوں انہیں اختیار کرنے سے گریز کرے، اور جو شخص ان معاملات و امور میں حلال و حرام کی پرواہ کیے بغیر ان میں ملوث ہو گیا تو سمجھ لو کہ وہ حرام میں مبتلا ہو گیا، یعنی تمام قسم کے معاشی و مالی معاملات میں وہ ذریعے اختیار کئے جائیں جو واضح طور پر حلال ہوں اور مشتبہ معاملات و امور سے پرہیز کیا جائے، اس حدیث مبارکہ میں دوسری اہم بات دل کے متعلق بتائی گئی ہے کہ سارے جسم کی اصلاح اور فساد کی بنیاد یہی دل ہے، اس لئے دل کی اصلاح بہت ضروری ہے اور بے شک اس کی اصلاح ایمان و تقوٰی کے بغیر ممکن نہیں۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1443782 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.