وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 21 جون 2008ء کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے
بے نظیر بھٹو کے 55 ویں یوم پیدائش کی خوشی کے حوالے سے سزائے موت پانے والے
قیدیوں کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ ”رحمدلی
کا مظاہرہ قوم کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے“۔ قاتلوں کو اس سزا سے بری کرنا جو
انصاف کی رو سے انہیں لازمی ملنی چاہیے، اور کہنا یہ قوم کے لیے تحفہ ہے ! یہ
ستم ظریفی کی انتہا ہے، بلکہ انتہائی ستم ہے۔ تحفہ تو قاتلوں اور سفاک مجرموں
کے لیے ہے اور ان جرائم پیشہ عناصر کے لیے ہے جنہیں سنگین جرم کرتے ہوئے کچھ
خوف اور اندیشہ ہوتا تھا کہ پکڑے گئے تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ سزائے موت
اور عمر قید میں بلامبالغہ زمین آسمان کا فرق ہے اور پھر عمر قید میں دستور کے
مطابق تخفیف ہوتی رہتی ہے۔ کیا یہ سوچنے والی بات نہیں کہ جرائم کی سزا میں
اتنی بڑی نرمی اس وقت کی جا رہی ہے جبکہ قوم بدامنی کے بدترین حالات سے دوچار
ہے ۔ ڈاکو، قاتل ، غارتگر، تخریب کار، اغوا ابرائے تاوان کے مافیا ملک میں
دندناتے پھرتے ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ بڑے شہروں میں ان کے ہاتھوں متعدد
وارداتیں نہ ہوں۔ قوم جرائم مافیا سے اپنے آپ کو بچانے میں بے بس ہے۔ پچھلے کچھ
عرصہ سے ڈاکہ زنی کی وارداتوں میں قتل بھی معمول بن گیا ہے۔ جرائم بھیانک سے
بھیانک تر ہو رہے ہیں۔ قوم تو چاہتی ہے ان مجرموں کو سرعام پھانسیاں دی جائیں
تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں۔ یہ حالات کا تقاضا بھی ہے۔
لیکن قوم اور حالات کی کیفیت کو یکسر نظر اندازکر کے مجرموں کو فائدہ پہنچایا
گیا ہے، کیوں؟ کیا ارباب اقتدار میں دوراندیش حضرات یہ نہیں دیکھ سکتے کہ اس
فیصلے کے اثرات آگے چل کر معاشرے کے لئے نہایت مہلک ثابت ہوں گے؟ پولیس کے
علاوہ ہر طبقے کے باہوش افراد نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت
نے اتنا بڑا اور نامقبول اقدام کس مجبوری یا دباؤ کے تحت اٹھایا؟ کن دلائل کی
بنیاد پر سزائے موت کے مجرموں کو یہ تحفہ دیا گیا؟ فائدہ تو اس سے مجرم خوب
اٹھائیں گے۔ لیکن یہ تحفہ جوان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا انہیں ضمناً ملا
ہے۔ اس کے لئے وہ ایک دوسری پارٹی کے ممنون احسان ہیں۔ یہ تحفہ دراصل نیو ورلڈ
آرڈر یعنی صہیونی عالمی نظام کے مختار کاروں کے لیے ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ اس
کا اعلان ہوتے ہی ان کی ایک نمائندہ ہزاروں میل کا ہوائی سفر طے کر کے بہ عجلت
تمام یہاں آن پہنچی تاکہ فیصلہ سازوں کو بہ نفس نفیس شاباش دے اور انہیں اس
فیصلے پر ڈتے رہنے کی تاکید کرے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے، خبروں کے مطاق
27 جون کو اسلام آباد میں اقوام متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق، لوئس آربر،
کو ملاقات میں اپنی حکومت کی انسانی حقوق کو بہتر بنانے کی کارکردگی بیان کرتے
ہوئے بتایا کہ: ”حکومت نے موت کی سزا پانے والے ہزاروں مجرموں کی سزا کو عمر
قید میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے: اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر نے کہا: وزیر
اعظم نے انسانی حقوق کے معاملات میں جو تیز فہمی دکھائی ہے اور ملک میں انسانی
حقوق کی بہتری کے لیے جو ٹھوس اقدامات کئے ہیں، خصوصا سزائے موت کو قید میں
تبدیل کرنے کا فیصلہ ، وہ نہایت حوصلہ افزا ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ زائسٹ انٹرنیشنل جیوری یعنی عالمی صہیونی ٹولی کے نیٹ ورک
کا حصہ ہے، بالکل اسی طرح جیسے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک،
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن وغیرہ صہیونی نیٹ ورک کے اجزا ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے
مغربی میڈیا مختلف انداز سے بار بار دنیا کو بتا رہا ہے کہ امریکہ میں تمام
پالیسی سازی اسرائیلی/ صہیونی لابی کے ہاتھوں میں ہے۔ دراصل یہی صورت حال دیگر
تمام مغربی ممالک اور اقوام متحدہ میں ہے۔ ان تمام ممالک اور اداروں میں جن
پالیسیوں پر عمل ہو رہا ہے وہ صہیونی ٹولی کے اغراض و مقاصد کے لیے ہیں۔ حقوق
انسانی کی بہتری کی پالیسی جس میں سزائے موت کو ختم کرنے کا مشن ہے بہت بڑا
ڈھونگ ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ صہیونی یہود تو فطرتاً نہایت رحم اور سنگ
دل ہیں۔ ان کی اس خصلت کا ذکر بائبل اور قرآن مجید میں تفصیل سے موجود ہے۔ بلکہ
صہیونی یہود کے اپنے تراشے ہوئے مذہبی لٹریچر میں ایسی ہدایات ہیں جن سے معلوم
ہوتا ہے وہ لوگوں کے جان و مال کے غصب کرنے والے اوران کے خون کے پیاسے ہیں۔
انہیں اپنی سخت دلی پہ ناز ہے۔ اس کا مظاہرہ وہ لگا تار کرتے آرہے ہیں تاکہ کسی
کو اس میں شک نہ رہے۔ گزشتہ 60 سال سے اسرائیلی جو ہولناک مظالم فلسطینیوں پہ
کر رہے ہیں اسکی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ ایسی ظالمانہ فطرت رکھنے
والے سزائے موت کے خاتمہ کے لیے کیوں کوشاں ہیں! ملک کے دینی حلقوں اور اسلامی
نظریات کے حامل وکلاء دانشوروں اور دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ اس مہم کے پیچھے
بڑا مقصد توہین رسالت کے قانون کو، جس کے مطابق توہین رسالت کے مرتکب کی سز
اموت ہے، ختم کروانا ہے۔ اگر سزائے موت قانوناً ختم کر دی جاتی ہے تو توہین
رسالت کا قانون بے اثر ہو جائے گا۔ یہ بات بھی صحیح ہے۔ مغربی ممالک ، اقوام
متحدہ کے مختلف ادارے اور صہیونی ٹولی کے مقامی گماشتے قانون توہین رسالت کو
ختم کرنے کا مطالبہ برملا بھی کرتے رہتے ہیں۔
لیکن صہیونی ٹولی نے سزائے موت ختم کرانے کی مہم تمام دنیا میں چلائی ہوئی ہے،
اگرچہ مہم کا زیادہ زور اسلامی جمہوریہ پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک میں ہے۔
دنیا کے کئی ممالک نے اس دباؤ کی وجہ سے سزائے موت کو اپنے قانون سے نکال دیا
ہے۔ شاید کچھ لوگ اس بات سے آگاہ ہوں کہ یورپین یونین نے ترکی کو اپنی فیڈریشن
میں شامل کرنے کے لیے جن کو پورا کرنے کا پابند کیا ہوا ہے ان میں ایک شرط
سزائے موت کو قانوناً ممنوع قرار دینا ہے۔ صہیونی یہود کی ہر سکیم کے پیچھے کئی
فتنہ انگیز مقاصد ہوتے ہیں۔ سزائے موت کے ختم ہونے سے ہر جگہ بدامنی بڑھے گی،
جرائم کرنے والے زیادہ نڈر ہوں گے اور سنگین جرائم قتل، اغوا وغیرہ بہت بڑھیں
گے۔ برائیوں کو فروغ دینا صہیونی فتنہ گروں کی اپنی منشاء ہے اور ان کے مہا
منصوبے کے عین مطابق ہے۔ لیکن سزائے موت کو ختم کروانے کی بنیادی وجہ صرف ایک
ہے۔ قرآن کی نفی کرنا۔ صہیونی ٹولی کا عزم ہے کہ اس کے ورلڈ آرڈر میں تمام
اقدار ، نظریات کاروبار ، رسم و رواج ، تعلیم وتربیت سیاست، معیشت، طرز زندگی
سب قرآن کے خلاف ہوا اور صہیونیت کے نظریہ حیات کے مطابق ہو۔ کرہ ارض کو کنٹرول
میں لینے کے لیے صہیونی ٹولی نے جو مہا منصوبہ بنایا ہوا ہے اس کا سب سے بڑا
ہدف قرآن مجید اور پیغمبر اسلام کی ذات مبارک ہے۔ اسکا گمان ہے کہ ان میں سے
کسی ایک پر بھی ضرب لگاؤ تو دوسری حقیقت پر بھی ضرب پہنچے گی۔ اسے معلوم ہے کہ
اسلام کا ڈھانچہ ان دوستوں پر کھڑا ہے۔ سالہا سال سے صہیونی باقاعدہ منصوبہ
بندی سے مکر و فریب کی چالوں اور فتنوں سے مسلم دنیا میں قرآن و سنت کی تعلیمات
میں گہری تخریب کاری کر رہے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے مقتدر طبقات کو
فریب زدہ بنا کے ان کے ہاتھوں سے قرآن و سنت کی نفی کروا رہے ہیں۔ کیا اسکی آپ
صرف ایک مثال دیکھتے ہیں؟ کیا اسکی مثالیں جابجا دکھائی نہیں دیتیں۔ آج سے 20
سال پہلے جب لوگوں کو صہیونی فتنوں اور سکیموں سے آگاہ کیا جاتا تھا تو اکثر
لوگ خیال کرتے تھے کہ یہ منصوبے ہی ہیں، دوسرے اسے قیاس آرائی سمجھتے تھے،
حالانکہ شواہد ان کے سامنے رکھے جاتے تھے۔ ان پہ غور و فکر کرنے اور مقابلے کے
اقدامات کرنے کے لیے کوئی بااختیار و ربا وسائل افرادیا حلقے اور ان میں حکومتی،
فوجی، دینی اور سیاسی حلقے شامل ہیں، تیار نہ تھے۔ 11 ستمبر 2001ءکی واردات کے
بعد سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فتنوں کی جو یلغار اٹھی ہوئی ہے اس سے ہر
کوئی آگاہ ہے لیکن اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ اس واردات کی خالق
صہیونی ٹولی ہے اور موجودہ اور آنے والوں فتنوں کا طوفان پلان شدہ ہے۔ یہ سب
مہا منصوبے کا حصہ ہے۔ اس طاغوتی منصوبے کا جامع خاکہ صہیونی پروٹوکولز میں درج
ہے۔
اس انوکھی دستاویز کا انکشاف 20 ویں صدی کے آغاز میں ہوا۔ قرآن مجید پر قدرے
گہری نظر رکھنے والا انسان پروٹوکولز کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے حیران ہو جاتا
ہے! پروٹوکولز قرآن مجید کے سامنے رکھ کے اس طرح لکھے گئے ہیں کہ اللہ تعالی کی
قائم کی ہوئی حدود اور اس کے قانون کو توڑا جائے اور تمام برائیاں اور شیطانی
کام جن سے اللہ تعالی نے روکا ہے، نبی نوع انسان سے کرائے جائیں۔ اسکے علاوہ
صہیونیوں نے قرآن میں نظم و نسق ، عزم وارادہ، جنگی قوت اور تدابیر لوگوں پر
اثر انداز ہونے اور حکمت سے کام کرنے کے جو اعلی اصول بتائے گئے ہیں وہ خود
اختیار کر لئے ہیں ، اور اپنے مہا منصوبے میں ایسی سکیمیں بنائی ہیں کہ مسلمان
انہیں اختیار نہ کرسکیں۔ صہیونی ایجنڈے کے کئی پروگرام پاکستان اور دیگر مسلم
ممالک میں مسلط ہوچکے ہیں، کئی ہو رہے ہیں اور باقی آنے والے ہیں۔ انہیں روکنا
اور ان کا خاتمہ کرنا اشد ضروری ہے۔ سزائے موت کے خاتمہ کے خلاف تمام مکاتب فکر
کے علماءاور دانشوروں کا ایک جیسا مؤقف اختیار کرنا خوش آئندہ بات ہے۔ ایک
متحدہ محاذ بننا چاہیے تاکہ یہ اور دوسرے صہیونی پروگرام ہمارے ملک میں نافذ نہ
ہوسکیں۔ اس مقصد کے لیے تمام طریقے اور تدابیر استعمال کی جانی چاہیں لیکن سب
حکمت کے ساتھ ۔ پھر ان شاءاللہ ربانی مدد بھی شامل ہوگی۔ |