علم دین کی اہمیت

آج مسلمانوں کی اکثریت اسلامی تعلیمات اور دینی مسائل سے ناواقف اور نابلد ہے مسلمانوں میں دین سیکھنے کا ذوق ہی نہیں رہا۔ حالانکہ دین سیکھنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ چنانچہ حدیث مبارک میں ارشاد ہے: “علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے“ یہاں علم سے مراد دنیوی علم نہیں ہے بلکہ اسلام سے معتلق علم حاصل کرنا ہے مثلاً جب بچہ بالغ ہو جائے تو اس پر نماز فرض ہو جاتی ہے روزہ فرض ہو جاتا ہے اب ان دونوں ارکان کو ادا کرنے کیلئے اس کے مسائل اور طریقے کا سیکھنا فرض ہو گیا کسی شخص پر زکوٰۃ فرض ہوئی تو زکوٰۃ کے مسائل سیکھنا بھی فرض ہو گیا۔ اگر کسی پر حج فرض ہو گیا تو اس کیلئے حج کے مسائل سیکھنا فرض ہو گیا۔ اگر شادی کرنی ہے تو نکاح، طلاق کے مسائل سیکھنا ضروری ہیں۔ تجارت کرنی ہے تو اس کے احکامات جاننا ضروری ہے اسی طرح حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد، معیشت و معاشرت سے متعلق اسلامی احکامات کا جاننا ضروری ہے۔ لیکن موجودہ دور میں حالت یہ ہے کہ شاید پچیس فیصد بھی ایسے مسلمانوں نہ ہوں گے جو اسلامی معلومات رکھتے ہیں کس قدر دکھ کی بات ہے کہ لوگوں کی پوری کی پوری عمر نماز پڑھنے میں گزر جاتی ہے لیکن نماز پڑھنا ان کو نہیں آتی یعنی نماز کے فرائض اور واجبات وغیرہ کا انہیں علم نہیں ہوتا اور یونہی نمازیں بیکار ہو جاتی ہیں ہر سال لاکھوں افراد حج کو جاتے ہیں لیکن پانچ فیصد بھی حج کے مسائل سے واقف نہیں ہوتے۔

بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ ہرشخص فکر کے ساتھ خود بھی دین سیکھے اور جہاں تک ممکن ہو دوسروں کو بھی سکھائے سابقہ امتوں پر تو صرف دین کا سیکھنا اور عمل کرنا ہی فرض تھا لیکن اس امت پر دین کا سکھانا بھی فرض ہے۔

چنانچہ چوتھے پارے میں ارشاد ہوتا ہے، “اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے۔“ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے “تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو تم لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ (عزوجل) پر ایمان رکھتے ہو۔“

بعض حضرات کہتے ہیں کہ مسئلہ بیان کرنا صرف علماء ہی کا کام ہے۔ یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں شخصیت پرستی نہیں ہے۔ یہاں ہر شخص نکاح پڑھا سکتا ہے، نماز جنازہ پڑھا سکتا ہے۔ مردے کو غسل دے سکتا ہے، نومولود بچے کے کان میں اذان پڑھ سکتا ہے، دعاء کر سکتا ہے، قرآن پڑھا سکتا ہے، نماز میں امامت کر سکتا ہے۔ کسی جماعت کا امیر بن سکتا ہے، ثالث بن سکتا ہے، بشرطیکہ وہ اس کا شرعی طور پر اہل ہو دوسرے مذاہب میں یہ بات نہیں ہے۔

چنانچہ ہم میں سے ہر شخص کے ذمہ یہ بات لازم ہے کہ جتنا دین کسی کو آتا ہے وہ اسے دوسروں تک پہنچائے چاہے اس کو خود چل کر کیوں نہ جانا پڑے۔

خود اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے۔ “اور جو لوگ ہمارے دین کیلئے کوشش کرتے ہیں ہم ان کیلئے ضرور اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔“ (القرآن)

ہم اگر یہ سمجھیں کہ دین کا پھیلانا صرف علماء ہی کا کام ہے اور ہم بری الذمہ ہیں، نہیں بلکہ سارے مسلمان مبلغ ہیں سب پر ہی فرض ہے کہ لوگوں کو اچھی بات کا حکم دیں اور بری باتوں سے روکیں۔

مطلب یہ ہے کہ جو شخص جتنا جانتا ہے اتنا دوسرے اسلامی بھائیوں تک پہنچائے جس کی تائید میں حضرت قبلہ مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تفسیر نعیمی میں نقل کرتے ہیں کہ، حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، بلغوا عنی ولوایۃ ترجمہ: میری طرف سے پہنچا دو اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔

آج کے دور میں ہر شخص “یا شیخ اپنی اپنی دیکھ“ کے تحت زندگی گزار رہا ہے اور اپنی ذات میں کچھ ایسا ہی گم ہو کر رہ گیا ہے تقریباً ہم سب کی ایک ہی فکر ہے یعنی میں میری بیوی، میرے بچے، میرا کاروبار وغیرہ اور اس فکر کا یہی نتیجہ ہے کہ انسان خدا پرستی کے بجائے نفس پرستی میں مبتلا ہو کر رہ گیا ہے اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے ہر جائز اور ناجائز طریقہ استعمال کر رہا ہے جس کی وجہ سے ہمارے دل و دماغ پر حجابات آگئے ہیں دل کا چین اور ذہنی سکون ختم ہو گیا ہے۔ حرص و ہوس بڑھتے جا رہی ہے جس کے نتیجہ میں حسد، کینہ، بغض و عداوت اور نفرت جیسی مہلک بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔

جب ایسی حالت ہو جائے تو آدمی اللہ عزوجل کی رحمت سے دور ہو جاتا ہے اور پوری طرح شیطان کے جال میں پھنس کر رہ جاتا ہے لٰہذا جس قدر جلد ممکن ہو اپنے تمام معاملات قرآن و حدیث کے مطابق درست کرنے چاہئیں اسی میں ہمارے مسائل کا حل اور اسی میں ہماری نجات ہے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو دین کی سمجھ اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1313088 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.