بعض اہم برائیاں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :۔ “تم دوسروں کے متعلق بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، تم کسی کی کمزوری کی ٹوہ میں نہ رہا کرو، اور جاسوسوں کی طرح رازدارانہ طریقے سے کسی کے عیب معلوم کرنے کی کوشش بھی نہ کیا کرو، اور نہ ایک دوسرے پر پڑھنے کی بے جا ہوس کرو، نہ آپس میں حسد کرو، نہ بغض و کینہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو، بلکہ اے اللہ کے بندو ! اللہ کے حکم کے مطابق بھائی بھائی بن کر رہو۔“ (بخاری و مسلم شریف)

فائدہ :۔
اس حدیث مبارکہ میں جن چیزوں سے ممانعت فرمائی گئی ہے، یہ سب وہ ہیں جو دلوں میں بغض و عداوت پیدا کرکے آپس کے تعلقات کو خراب کرتی ہیں، سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدگمانی کا ذکر فرمایا ہے کہ بدگمانی کو بدترین جھوٹ تصور کرتے ہوئے اس سے اجتناب کرو اور اس معاملہ میں حد درجہ ہوشیار رہو، اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ صدق و صفا سے متصف ہونے کے لئے صرف زبان ہی کی حفاظت کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے خیالات کو ہر طرح کی آلائشوں سے پاک رکھا جائے، اگر ہمارے دل اور ہمارے خیالات کو یہ پاکیزگی میسر نہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ برائی نے ہماری شخصیت تک کو محفوظ نہیں رہنے دیا ہے اور یہ نہایت تشویش کی بات ہوگی، اس کے علاوہ سوء ظن یا بدگمانیوں سے معاشرے میں منافرت کی جو فضا پیدا ہوتی ہے اسے پاک و خوشگوار بنانا حد درجہ دشوار ہوتا ہے، کذب جس کا تعلق زبان سے ہوتا ہے اس کی تردید کی جا سکتی ہے لیکن دلوں میں جو بدگمانیاں بیٹھ جاتی ہیں ان کو دور کرنا آسان نہیں ہوتا ہے، بالعموم آدمی کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی کہ کوئی ہم سے بدگمان ہے، اس لئے بدگمانی اگر جھوٹ ہے تو وہ صرف جھوٹ ہی نہیں بلکہ بدترین قسم کا جھوٹ ہے، اس کی قباحتوں کا اندازہ کرنا بھی عام حالات میں مشکل ہوتا ہے، اہل ایمان کو ہمیشہ حسن ظن سے کام لینا چاہئیے بلاوجہ اور بغیر کسی قوی ثبوت کے کسی کے بارے میں بُری رائے قائم کرنا اسلامی اصول کے بالکل منافی اور معاشرے کو تباہی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ وہ تمام عیوب کہ جن سے آپس میں بغض و عداوت کی فضاء قائم ہوتی ہے اس کی طرف قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے اس طرح بنی نوع انسان کی رہنمائی فرمائی ہے۔
“اے ایمان والو ! بہت گمانوں سے بچو یقین مانو کہ بعض گمان گناہ ہیں، اور بھید نہ ٹٹولا کرو، اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔“ (الحجرات۔ 12)
بدگمانی کےبعد اور جن جن بُری عادتوں سے اس حدیث میں ممانعت فرمائی گئی ہے وہ یہ ہیں کہ نہ لوگوں کے عیبوں کو ٹٹولتے پھرو اور نہ ہی ان کے رازوں کو معلوم کرنے کے چکر میں پڑو، مومن تو لوگوں کو رُسوا کرنے کی بجائے ان کی عزت و آبرو کا محافظ ہوتا ہے، وہ تو امکان کی حد تک لوگوں کے عیبوں کے سلسلے میں پردہ پوشی سے کام لیتا ہے، وہ لوگوں کی تحقیر و تذلیل کے بجائے ان کی اصلاح کی فکر کرتا ہے، مومن کو ہمیشہ اعلٰی ظرفی سے کام لینا چاہئیے نہ کہ کافروں اور منافقوں کے بہکاوے اور ان کے مکرو فریب میں آکر مسلمان بھائیوں سے بدگمانی اختیار کرے اور اسے ناحق گناہگار اور قصور وار تصور کرے، مومن کی کوشش یہ ہونی چاہئیے کہ حتی الامکان اس کا دل لوگوں کی طرف سے صاف ہو۔
اس کے بعد فرمایا کہ نہ ہی ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کرو، نہ ہی کسی کو اچھے حالات میں دیکھ کر اس پر حسد کرو، اور نہ ہی بغض و کینہ کو اپنے دلوں میں جگہ دو اور ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو یعنی قطع تعلق نہ کرو، ان تمام برائیوں کا حال یہ ہے کہ ان سے دلوں میں نفرت و عداوت کا بیج پڑتا ہے اور ایمانی تعلق جس محبت و ہمدردی اور جس اخوت و یگانگت کو چاہتا ہے اس کا امکان بھی نہیں رہتا۔ اس جامع حدیث مبارکہ کا حاصل یہ ہوا کہ تم نہ کاذب بنو اور نہ حاسد اور نہ مفصد بنو، تم تو اللہ کے حقیقی بندے بننا پسند کرو اور اس طرح رہو جس طرح رہنا اللہ تعالٰی کو پسند ہے، اور باہم ایک دوسرے کے بدخواہ بننے کی بجائے ایک دوسرے کے بھائی اور ایک دوسرے کے مددگار بنو، اگر تم صحیح معنوں میں اللہ کے فرمانبردار بندے بن جاتے ہو اور تمہارے درمیان اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو تمہارے اندر وہ اخلاقی برائیاں ہرگز پیدا نہیں ہو سکتیں جن سے بچنے کی تاکید اس حدیث میں فرمائی گئی ہے۔
اللہ تعالٰی ہم سب مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس جامع حدیث پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1314443 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.