انقلاب 1857ء ہندستاني تاريخ كا
ايك درخشاں يا خوں چكاں باب ہے، درخشاں اس طور پر ہے كہ قابض و غاصب انگريز
حكمرانوں كے خلاف لاكھوں ہندستاني سر بكف ہو كر ميدانِ جنگ ميں نكل آئے اور
دادِ شجاعت ديتے ہوئے انگريزوں كا عرصہ حيات تنگ كر ديا۔ اور خوں چكاں باب
اس طرح ہے كہ كئي لاكھ ہندستاني عوام انگريزوں كي وحشيانہ جارحيت اور
درندگي كا شكار ہو كر اپنے جان و مال سے ہاتھ دھو بيٹھے۔ اپنے وطن ميں رہ
كر بھي انھيں بے وطن كر دياگيا اور ان كي مذہبي و قومي غيرت و حميت اور عزت
و آبرو ہر چيز كو بر سر عام رسوا اور ذليل و خوار كر دياگيا۔
جب انقلاب كا طوفان تھما اور حالات رفتہ رفتہ اعتدال پر آنے لگے تو اہلِ
ہند كے سامنے سب سے بڑا چيلنج يہ تھا كہ وہ اپنے ايمان، اپني تہذيب اور
اپني شناخت كے ساتھ كس طرح اپني زندگي كے ايام پورے كريں؟ كس طرح اپني زمين
اور جائداد كا تحفظ كريں اور اپني معاشي ابتري اور بد حالي پر قابو پائيں ؟
رہ گئي بات داستانِ انقلاب و مصائب انقلاب كو تاريخي ريكارڈ كے طور پر ضبط
تحرير ميں لانے اور آنے والي نسل كو اس سے واقف و باخبر ركھنے كي تو اس كا
كسے ہوش تھا اور كسے اتني جرا ت تھي كہ صحيح واقعات انقلاب سپرد قلم كركے
انگريزي مظالم اور چيرہ دستيوں كو دعوت دے؟ تقريباً ساٹھ ستر سال تك يہي
حالات رہے اور خوني نقوش ايك ايك كر كے مدھم اور محوہوتے چلے گئے ۔
انقلاب1857ء كي عام تاريخ كا يہي حشر ہوا تاہم موجودہ ہند و پاك كے موجودہ
محافظ خانوں اور نيشنل لائبريريوں ميں منتشر طور پر ايسے ہزاروں صفحات اب
بھي محفوظ و موجود ہيں جو گردشِ ايام پر ماتم كر رہےہيں اور اب تك ان اوراق
و صفحات كا مطالعہ كر كے ايسے دفينوں اور خزينوں كو منظرِ عام پر لانے كي
كسي محقق و مورخ كو توفيق نہ مل سكي ، جو ہماري قومي و ملكي تاريخ كا گراں
قدر سرمايہ اور بيش بہا اثاثہ ہيں۔
يہ حقيقت تاريخي شہادتوں سے ثابت اور واضح ہے كہ انگريزي پنجہ استبداد سے
اپنے ملك و وطن كو نجات اور آزادي دلانے ميں علماے كرام اور مسلمانانِ ہند
ہي پيش پيش رہے ہيں ، جس كي ايك بڑي وجہ يہ ہے كہ انگريزوں نے مسلمانوں ہي
كے ہاتھوں سےہندستان كي سلطنت و حكومت چھيني تھي اور وہي زندگي كے ہر ميدان
ميں انگريزي ظلم و جبر كا شب و روز نشانہ بھي بن رہے تھے اور منظم طور پر
ہر شعبہ زندگي ميں انھيں بے اثر بلكہ پس ماندہ بنانے كي مسلسل كوشش كي جاتي
رہي۔ ايسے حالات ميں فطري طور پر مسلمان مضطرب اور مشتعل ہوتے رہے ، جس كا
نتيجہ انقلاب1857ء كي شكل ميں ظاہر ہوا۔
تحريري طور پر انقلاب كے منتشر حالات و واقعات كي تحقيق و ترتيب كي طرف
مورخين نے كما حقہ نہ پہلے توجہ دي ،نہ ہي اس وقت ان كي خاطر خواہ توجہ ہے
۔ قائدين انقلاب مثلاً مولانا احمد اللہ شاہ مدراسي، مفتي صدر الدين آزردہ
دہلوي، علامہ فضل حق خير آبادي، مفتي عنايت احمد كاكوروي، مولانا سيد كفايت
علي كافي مراد آبادي، مولانا فيض احمد عثماني بدايوني،مفتي مظہر كريم دريا
آبادي وغيرہم نيز جنرل بخت خاں و شاہ زادہ فيروز شاہ وغيرہ كي انگريز مخالف
سرگرميوں اور قربانيوں كي تفصيلات سے آج بھي اہلِ وطن بڑي حد تك ناواقف ہيں،
بلكہ كئي ايك ناموں سے ان كے كان بھي نا آشناہيں۔ بادشاہ ہونے كي وجہ سے
آخري مغل حكمراں بہادر شاہ ظفر كا نام ضرور مشہور ہے، مگر عام طور پر
سركاري ذرائع ابلاغ ان كا ذكر بھي رسمي طور پر ہي كرتے ہيں۔
انقلاب1857ء ميں كہيں كہيں ہندوو ں كي شركت كے باوجود عام طور پر قومي
حيثيت سے ہندوو ں كے اندر وہ جوش و جذبہ مفقود تھا جس كي چنگارياں مسلمانوں
كے دلوں ميں بھڑك رہي تھيں اور جگہ جگہ وہ انگريزي سامراج سے ٹكر لے رہے
تھے۔ غالباً اسي وجہ سے ہندو مورخين كو تاريخ انقلاب سے وہ دل چسپي نہيں جو
ہوني چاہيے۔ اسي طرح كميونسٹ مورخين اس انقلاب كو محض معاشي بے چيني كا
نتيجہ قرار ديتے ہيں اور وہ اس كي پوري تاريخ كو اپنے ايك خاص نقطہ نظر سے
ديكھتے اور بيان كرتے ہيں اور علما كے ذكر سے وہ دانستہ اعراض كرتے ہيں۔
اپني تاريخ كو مدون و مرتب كرنا ہر قوم و ملت كا خود اپنا فريضہ ہے جس سے
غفلت و تكاسل ، اس كي بے شعوري و بے عملي و نا اہلي خيال كي جاتي ہے ۔
دوسروں سے ايسي توقع اور اس پر انحصار فضول و عبث ہے كہ وہ آپ كي خدمات اور
فضائل و كمالات كي تفصيلات بيان كريں اور آپ كے فائدے كے ليے كد و كاوش اور
جاں سوزي كر كے آپ كي تاريخ مرتب كريں۔ ايسي صورت ميں دوسروں كا شكوہ نہيں
بلكہ اپنے اوپر جتنا بھي ماتم كيا جائے وہ كم ہے اور صحيح معنوں ميں يہ
ماتم كا نہيں بلكہ اپني فكر و تحقيق اور زبان و قلم كو مہميز لگانے كا مقام
ہے اور زندہ قوم كي يہي علامت ہے كہ اپنے ماضي كي تاريخ خود اپنے قلم سے
رقم كرے اور حال كي اصلاح كے ساتھ اپنے مستقبل كو روشن و تاب ناك بنائے۔
محض يہ نالہ و شيون اور آہ و فغاں كرنے كا كچھ حاصل نہيں كہ دوسروں نے
ہمارے ساتھ متعصبانہ رويہ اختيار كرتے ہوئے ہماري تاريخ كے ساتھ انصاف نہيں
كيا ۔ كمالِ مردانگي يہ ہے كہ خود اپنے اندر ايسي طاقت و توانائي پيدا كي
جائے كہ رحم طلب نظروں سے كسي دوسرے كي طرف ديكھنے كي كوئي ضرورت ہي پيش نہ
آئے اور كسي دوسرے كے اندر يہ جرات ہي پيدا نہ ہو سكے كہ وہ متعصبانہ رويے
كا ارتكاب اور اس كا اظہار كر سكے۔
انقلاب1857ء ميں نماياں كردار ادا كرنے والے علماے كرام سني حنفي تھے جن
ميں سے بعض كے اسماے گرامي گزشتہ سطور ميں درج كيے جا چكے ہيں۔ ان ميں كوئي
بھي وہابي نہيں تھا، نہ غير مقلد نہ ديوبندي۔ غير مقلديت و ديوبنديت كي تخم
ريزي شاہ محمد اسماعيل دہلوي متوفي1831ء كي رسواے زمانہ كتاب٫٫تقويۃ
الايمان٬٬ كے ذريعہ ہوئي اور اس منحوس كتاب نےہندستان كے سني مسلمانوں كے
گھر گھر ميں افتراق و انتشار كي آگ لگا دي، جس كے شعلے آج بھي ہند و پاك و
بنگلہ ديش كي مسلم آباديوں ميں بلند ہو رہے ہيں ۔ اس كتاب كو انگريزوں نے
رائل ايسياٹك سوسائٹي كي طرف سے انگريزي زبان ميں شائع كيا اور اس كے
انگريزي و اردو نسخے ہزاروں لاكھوں كي تعداد ميں مفت تقسيم كيے اور وہابيت
كو گھر گھر پہنچانے كي كوشش كي ۔ اس وہابيت كے مقلد گروہ كا نام ديوبنديت
اور غير مقلد گروپ كا نام اہلِ حديث يا غير مقلد ہے۔
مشہور غير مقلد محدث مياں نذير حسين دہلوي اور ان كے شاگرد خاص محمد حسين
بٹالوي انگريزوں كے معتمد خاص تھے جو انقلاب1857ء ميں شريك علما كو جاہل
اور مفسد سمجھتے تھے۔ مولانا سيد محمد مياں ديوبندي و مولانا مسعود عالم
ندوي اور ڈاكٹر قيام الدين وغيرہ نے صراحتاً اس حقيقت كا اعتراف كياہے كہ
سيد احمد راے بريلوي اور شاہ محمد اسماعيل دہلوي سے وابستہ جماعت نے بہ
حيثيت جماعت انقلاب1857ء ميں كوئي حصہ نہيں ليا بلكہ موخر الذكر دونوں
حضرات نے اس كي بھي صراحت كي ہے كہ اس انقلاب كو مذہبي اعتبار سے يہ جماعت
نا پسند كرتي تھي۔
ملاحظ كيجيے ہندستان ميں پہلي اسلامي تحريك ، از:مسعود عالم ندوي ، علماے
ہند كا شان دار ماضي، از:سيد محمد مياں ديوبندي، وہابي تحريك از :ڈاكٹر
قيام الدين احمد، پٹنہ
ديوبند، سہارن پور كے اندر 1283ھ مطابق 1866ء ميں حاجي سيد عابد حسين قادري
چشتي نے ايك چھوٹا سا مدرسہ قائم كيا جس پر آٹھ نو سال بعد مولانا محمد
قاسم نانوتوي قابض ہو گئے اور دار العلوم ديوبند كے نام سے وہ مدرسہ ان كي
كوششوں سے مشہور ہوا۔ جس طرح يہ دعويٰ تاريخي كذب بياني ہے كہ مولانا قاسم
نانوتوي مدرسہ ديوبند كے باني ہيں اسي طرح يہ دعويٰ بھي كذب بياني كا ايك
عبرت ناك نمونہ ہے كہ علماے ديوبند نے انقلاب1857ء ميں كوئي حصہ ليا۔ اس
دعويٰ كي تكذيب و ترديد كي مندرجہ ذيل بنياديں ہيں:
1- 1857ئ كے آٹھ نو سال بعد مدرسہ ديوبند كي بنياد پڑي تو ايسي صورت ميں يہ
كہنا كہ علماے ديوبند نے جنگ آزادي 1857ء ميں شركت كي تھي، اسے كذب بياني
اور سفيد جھوٹ كے علاوہ اور كيا كہا جا سكتا ہے؟
2- ايك مڈبھيڑ جس ميں حاجي امداد اللہ مہاجر مكي، متوطن تھانہ بھون، حافظ
ضامن جلال آبادي و رشيد احمد گنگوہي و محمد قاسم نانوتوي ميں سے كوئي بھي
ديوبند كا باشندہ نہيں تھا كہ اسے1857ء يا 1866ء ميں علماے ديوبند كہا جا
سكے۔
3- اس دور ميں ديوبنديت كے نام سے كسي مسلكي و مذہبي گروہ كا وجود بھي نہيں
تھا كہ يہ دعويٰ كيا جا سكے كہ اكابر ديوبنديت يا اكابر علماے ديوبند
انقلاب1857ء ميں شريك تھے۔ جس مڈبھيڑ كا ذكر علماے ديوبند كرتے ہيں اور
شاملي كي جھڑپ سے جس كا رشتہ جوڑتے ہيں وہ مڈبھيڑ شيخ محمداكرام اور ڈاكٹر
ابو سلمان شاہ جہان پوري كي تحقيق كے مطابق ايسے آوارہ گرد لوگوں كے ساتھ
ہوئي تھي جو نہ انگريز حامي ، نہ انگريز مخالف كي حيثيت سے متعارف تھے بلكہ
حالات كي سنگيني كا فائدہ اٹھا كر كے لوٹ مار كرنا جن كا مقصد اور مطمحِ
نظر تھا۔
4- جنگ شاملي قاضي عنايت علي اور ان كے زير اثر مسلمانوں نے لڑي جس ميں
مذكورہ حضرات كي شركت كا كوئي تاريخي ثبوت نہيں۔
5- شاملي، مظفر نگر، سہارن پور كے سركاري تاريخي ريكارڈ ميں مذكورہ علما
ميں سے كسي كے بارے ميں اس كا كوئي ذكر نہيں كہ كسي انگريز حامي گروپ سے ان
كي كوئي جھڑپ ہوئي ہو۔
6- 1857ء كے كسي ہندستاني يا انگريز مورخ نے اپني كسي چھوٹي بڑي تحرير ميں
باغي اور مجاہد كي حيثيت سے مذكورہ علما ميں سے كسي كا كوئي ذكر نہيں كيا
ہے۔
7- 1947ء سے چند سال پہلے يا1950 1955ء كے آس پاس بلا ثبوت و سند كے يہ
تاريخ گڑھنے كي كوشش كي گئي كہ علماے ديوبند جنگ آزادي 1857ء ميں شريك تھے۔
8- سركاري خوش نودي حاصل كرنے يا كسي رنجش كي بنا پرجس طرح اس زمانے ميں
عام طور پر كوئي بھي مخبر كسي بھي شخص كے خلاف كوئي جھوٹي خبردے كر اسے
گرفتار كرا ديتا اور پھر اسے كوئي سزا ہو جايا كرتي تھي۔ اسي طرح كي مخبري
مولانا قاسم نانوتوي اور مولانا رشيد احمد گنگوہي كے خلاف بھي كسي نے كي جس
كا اعتراف و اعلان مولانا عاشق الٰہي ميرٹھي نے تذكرۃ الرشيد ميں كيا ہے۔
غير مقلدوں اور ديوبنديوں كے پيشوا سيد احمد راے بريلوي اور شاہ اسماعيل
دہلوي بالا كوٹ ميں 1831ء ميں قبائلي مسلمانوں كے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ ان
دونوں نے نہ صرف يہ كہ انگريزوں كے خلاف كوئي فتويٰ دينے يا ان سے كوئي جنگ
كرنا مناسب نہيں سمجھا بلكہ تحريراً و تقريراً انگريزوں كي خوش نودي حاصل
كرنے كي كوشش كي اور انگريزوں كے دشمن سكھوں اور افغاني مسلمانوں سے جنگ
كي۔ كوئي معمولي سے معمولي روايت كسي بھي مورخ كي ايسي نہيں جس سے يہ ثابت
ہو سكے كہ انھوں نے انگريزوں سے كسي طرح كي جھڑپ كي ہو اور ان كے خلاف كسي
طرح كا كوئي پروپيگنڈہ كيا ہو، يا ايسا كوئي اقدام كيا ہو جس كي بنياد پر
انھيں انگريز مخالف كہا جا سكے خود ان كے حامي علما و مورخين لكھتے ہيں كہ
ہندستان سے سرحد كي طرف پيش قدمي كے وقت انگريزوں نے مختلف حيلوں اور
تدبيروں سے ان كي مدد كي اور حوصلہ افزائي كي۔
ملاحظہ كيجيے، سوانح احمدي و حيات عجيبہ وغيرہ
تاريخ ذكاء اللہ كے مطابق علامہ فضل حق خير آبادي نے شاہ جہاني جامع مسجد
دہلي ميں جب انگريزوں كے خلاف تقرير كي اور پھر جہاد كا فتويٰ جاري كيا تو
دہلي ميں نوے ہزار سپاہ جمع ہو گئي۔ اسي طرح جہاد كا ايك اور فتويٰ جاري
ہوا جس پر مفتي صدر الدين آزردہ دہلوي كا بھي دستخط تھا۔ مولانا سيد كفايت
علي كافي مراد آبادي نے مراد آباد ميں انگريزوں كے خلاف جہاد كا فتويٰ ديا
اور آس پاس كي مختلف جگہوں ميں اسے مشتہر كرنے كا فريضہ بھي انجام ديا۔
بدايوں ميں مولانا فيض احمد عثماني بدايوني نے جہاد كے ليے علما كا بيان
جاري كيا۔ متعدد مقامات پر اپنے اپنے طور پر علما نے انگريزوں كے خلاف جہاد
كي ترغيب و تحريك كي اور يہ سب كے سب علماے اہلِ سنت تھے اور سوادِ اعظم
اہلِ سنت كي قيادت و رہ نمائي انھيں علماے اہل سنت نے كي ۔
تفصيل و تحقيق كے ليے ملاحظہ كيجيے،1857ء پس منظر و
پيش منظر،از:يٰسين اختر مصباحي، مطبوعہ دار القلم ذاكر نگر، نئي دہلي25 |