انقلاب1857ء كے تعلق سے علماے
اہلِ سنت كا كردار بلا شبہ قابلِ تقليدرہا،انھيں حضرات كي كاوشوں كا ثمرہ
ہے كہ ہم آج ہندوستان كي كھلي فضا ميں سانس لے رہے ہيں ، مگر جن ہاتھوں ميں
قلم تھا ان كا تعلق علماے اہلِ سنت كے مخالف گروہ سے تھا۔ اس ليے انھوں نے
اپنے آبا و اجداد اور اپنے اكابر كے كارناموں كو بڑھا چڑھا كر ايسا پيش كيا
كہ جنگ آزادي كے اصل ہيرو ہي بن گئے اور سنّي چوں كہ قلمي اعتبار سے مفلوج
تھے اس ليے وہ اپني سچي تاريخ بھي اہلِ دانش كے سامنے نہ پيش كر سكے ، جس
كے نقصانات كس قدر ہوئے ، وہ آج ہماري نگاہوں كے سامنےہيں۔
1- ہندستان بلا شبہ ايك جمہوري ملك ہے، اس كي آزادي كے تعلق سے اگرچہ يہ
كہا جاتا ہے كہ اس كي آزادي ميں ہندو و مسلم برابر كے شريك ہيں مگر اس
سلسلے ميں ميرا مطالعہ قدرے مختلف ہے اور وہ يہ كہ غدر كے واقعات سے جہاں
دلي كے مسلمانوں ميں تباہي و بربادي پھيلي ہوئي تھي، وہيں دوسرے برادرانِ
وطن مطمئن تھے۔ ان كے ذہن و دماغ ميں كسي قسم كا انتشار نہ تھا۔ مولوي ذكاء
اللہ اپني تصنيف ٫٫تاريخ انگليسيہ٬٬ ميں لكھتے ہيں:
٫جن محلوں ميں غدر سے پہلے ہندوو ں كي ملك ميں ايك مكان نہ تھا، غدر كے بعد
وہاں بہت سے ہندو مالك مكان ہو گئے۔ مسلمانوں نے اپنا زيور بہت سستا ہندووں
كے ہاتھ بيچا۔ بارہ آنے تولہ چاندي، چودہ روپے تولہ سونا۔بہت سے ہندوو ں كے
گھروں ميں غدر كيا آيا، لكشمي آئي۔ انھوں نے سپاہيوں سے لوٹ يا چوري كا مال
ارزاں خريد ليا۔
﴿ذكائ الله ، تاريخ انگليسيه،ص:719﴾
يہ وہ حقائق ہيں، جنھيں نہ تو كوئي بيان كرتا ہے اورنہ ہي انھيں نظر انداز
كيا جا سكتا ہے۔ حقيقت يہ ہے كہ ملكي قيادت آزادي كے بعد مسلسل انھيں
برادرانِ وطن كے ہاتھوں ميں رہي، اس ليے انھوں نے مسلم مجاہدين جنگ آزادي
كے تعلق سے كاوشوں كو پس پشت ڈال ديا اور خود ہي جنگ آزادي كے ہيرو بن
بيٹھے۔ ٹھيك اسي طرح جس طرح ديوبندي مورخين نے علماے اہلِ سنت كي مجاہدانہ
كاوشوں كو غدر كے صفحہ تاريخ سے مٹا ديا اور خود جنگ آزادي كے ہيرو بن
گئے۔ايسا ايك گہري سازش كے تحت كيا گيا ہے، جس كے جاننے كے ليے ہندو
متعصبانہ ذہنيت كا مطالعہ تاريخِ ہند كے حوالے سے مناسب ہوگا۔ جنگ آزادي كے
تعلق سے آپ نے مسلمانوں كي بے حسي كي طرف جو اشارہ كيا ہے وہ بھي اپني جگہ
بالكل درست ہے۔ ہميں اپنے گريبان ميں منہ ڈال كر سوچنا چاہيے۔
2- مسلم مجاہدين آزادي كے ساتھ برادرانِ وطن نے جو متعصبانہ رويہ اختيار
كيا ، اس كے خلاف ہمارے علما نے كچھ نہيں كيا۔ ان حضرات كے نوكِ قلم سے
ايسي كوئي پاليسي وضع نہيں ہوئي جس كے باعث مكمل طور پر اس گھناو ني حركت
پر قد غن لگايا جا سكے ۔ اس سلسلے ميں مسلم علما و قائدين كو چاہيے كہ مسلم
مجاہدين آزادي كے تعلق سے سمينار اور كانفرنسيں كريں اور اس ميں عمائدين
مملكت اور حكومت كے اہم ذمہ داران كو بلا كر ان كي قربانيوں كا ذكر كريں۔
اردو زبان كے علاوہ ہندي اور انگريزي زبان ميں ان مسلم مجاہدين اور ان كي
مجاہدانہ قربانيوں كے تعلق سے تفصيل سے لكھيں۔
3- جيسا كہ راقم السطور نے سطور بالا ميں ذكر كيا ہے كہ قلم كي طاقت اغيار
كے پاس تھي، انھوں نے جنگ آزادي كي ايسي تاريخ گڑھي جس كا حقائق سے دور كا
واسطہ نہيں۔ انھوں نے جس كو چاہا جنگ آزادي كا ہيرو بنا ديا اور جس كو چاہا
صفحہ ہستي سے مٹا ديا۔ حقائق سے يہ واضح ہے كہ وہابي علما نے جنگ آزادي كي
مخالفت كي اور علماے ديوبند كا جنگ آزادي ميں حصہ دال ميں نمك كے برابر
رہا، مگر آزادي پر قلم اٹھانے والوں نے اس تاريخ كو ايسا پيش كيا ہے، جس سے
معلوم ہوتا ہے كہ صرف اور صرف علماے ديوبند ہي كي مجاہدانہ كاوشوں سےہميں
ہندستان كي آزاد فضا ميں سانس لينے كا موقع ملا۔ تاريخ كو گڈ مڈ كرنے اور
جھوٹ كو سچ اور سچ كو جھوٹ ثابت كرنے ميں ہمارے بعض مورخين جس ميں غلام
رسول مہر كا نام سر فہرست ہے ، كليدي كردار رہا ہے۔ انھوں نے اپني تاريخ
نگاري ميں جنگ آزادي كي پوري تاريخ مسخ كر كے ركھ دي ہے ، جس كا نتيجہ يہ
ہوا كہ بعض سيدھے سچے لوگوں نے بھي ان كي گم راہ كن تحريروں كو اصل سمجھ
ليا ہے۔ اس تعلق سے ايك واقعہ جو حقيقت پر مبني ہے ، يہاں لكھنا ضروري
سمجھتا ہوں، جس سے اندازہ لگايا جاسكتا ہے۔ ايسے مورخين كي تحريروں سے
سيدھے سچے لوگ كس قدر گم راہ ہوئے ہيں۔ جنگ آزادي كے تعلق سے ميرا ايك
مقالہ ٫٫ايوان اردو٬٬ دہلي ميں 2007ء كے شمارے ميں شائع ہوا تھا۔ مقالہ ميں
انھيں حقائق كي نشان دہي كي گئي تھي جنھيں مسلسل نظر انداز كيا جا رہا تھا۔
مقالہ چھپتے ہي ايك خود ساختہ دانش ور نے اس پر اعتراض كر ڈالا۔ معترض اور
اس كے اعتراض كا راقم نے جو جواب ديا وہ دونوں ہديہ ناظرين ہيں:
مكتوب اطہر نقوي، جامعہ نگر، نئي دہلي
بخدمت مدير ايوان اردو، دہلي
مكرمي:
تحريكِ آزادي سے متعلق ايك غلط فہمي يہ ہے كہ 1857ء كو پہلي جنگ آزادي قرار
ديا جاتا ہے، جب كہ برٹش سامراج كے خلاف پہلي مسلح جد و جہد 1826ء ميں شروع
ہوئي۔ وہابي تحريكِ جہاد كے اس اولين معركہ كے سالار شاہ محمد اسماعيل
دہلوي اور سيد احمد راے بريلوي تھے۔6 مئي1831ء كو بالا كوٹ كے ميدان ميں
شہيد ہوئے۔1857ء كا معركہ دوسري جنگ تھي۔ تيسرا معركہ1942ء كو نيتا جي سباش
چندر بوس نے آزادہندفوج كي تشكيل كر كے شروع كيا۔اس طرح جنگ آزادي كے يہ
تين مرحلے تھے۔ يہ تاريخي حقيقت ہے اور اسے نظر انداز نہيں كيا جانا چاہيے۔
غلام يحيٰ انجم كا مضمون٫٫دہلي كے علما اور1857ء٬٬ غير مستند حوالوں پر
مبني ہے اور قابلِ اعتراض بلكہ اشتعال انگيز ہے۔ انھوں نے شاہ محمد اسماعيل
دہلوي اور سيد احمد راے بريلوي كو جنگ آزادي كا مخالف قرار ديا ہے۔ حالانكہ
يہ دونوں جنگ آزادي كے اولين سالاروں ميں سے تھے۔ دونوں1831ء ميں شہيد
ہوئے، اس ليے يہ كہنا كہ جنگ آزادي كے مخالف تھے، محض تعصب اور بد نيتي پر
مبني ہے۔ دہلي ميں تحريكِ آزادي1857ء ميں شروع ہوئي، جب كہ يہ دونوں 25 سال
پہلے اس دنيا سے جا چكے تھے۔
انجم صاحب اگر ڈبليو ڈبليو ہنٹر كي كتاب ہمارے ہندستاني مسلمان(1870ء)٬٬،
ڈاكٹر قيام الدين كي كتاب ہندستان ميں تحريكِ وہابيت٬٬ اور مولانا غلام
رسول مہر كي قاموسي تحرير٫٫تحريكِ مجاہدين، سرگشتِ مجاہدين اور سيد احمد
شہيد٬٬ كا بغور مطالعہ كريں تو انھيں معلوم ہوگا كہ وہابي ہندستان كي جنگ
آزادي كے اولين نقيب اور مجاہد تھے۔
اطہر نقوي، جامعہ نگر، دہلي
جنگ آزادي كے تعلق سے اطہر نقوي صاحب كے مكتوب كا جواب:
پروفيسر قمر رئيس صاحب، وائس چير مين اردو اكيڈمي اور مدير اعليٰ صاحب ماہ
نامہ٫ ايوانِ اردو٬٬، دہلي
السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبركاتہ
جنابِ عالي
آزادي كے ساٹھ سال پورے ہونے پر ملك ہندستان ميں متعدد تقريبات كا اہتمام
كيا گيا، كلچرل پروگرام كے علاوہ جنگ آزادي كے تعلق سے كئي ايك كتابيں
زيورِ طبع سے آراستہ ہوئيں۔ كئي ديني و ادبي رسالوں ميں جنگ آزادي كے تعلق
سے مضامين شائع ہوئے، اس تعلق سے راقم كا بھي ايك مقالہ ٫٫دہلي كے علما اور
1857ء٬٬ اردو اكيڈمي كے موقر رسالہ ايوانِ اردو دہلي ميں شائع ہوا۔ اس
مقالہ ميں ان حقائق كي نشان دہي كي گئي تھي، جس كي طرف سے مسلسل اغماض برتا
جا رہا تھا۔ يہ حقائق چوں كہ چونكا دينے والے تھے ، اس ليے كچھ لوگوں نے
اسے پسند نہيں كيا۔ اطہر نقوي صاحب نے اس سلسلے ميں راقم سے رابطہ قائم
كرنے كے بجاے ايوانِ اردو كے مدير يعني آپ كو ايك جذباتي خط بھي لكھ مارا،
جس ميں انھوں نے لكھا:
٫غلام يحيٰ انجم كا مضمون٫٫دہلي كے علما اور1857ء٬٬ غير مستند حوالوں پر
مبني ہے اور قابلِ اعتراض بلكہ اشتعال انگيز ہے۔ انھوں نے شاہ محمد اسماعيل
دہلوي اور سيد احمد راے بريلوي كو جنگ آزادي كا مخالف قرار ديا ہے۔ حالانكہ
يہ دونوں جنگ آزادي كے اولين سالاروں ميں سے تھے۔٬٬
مكتوب اگست2007ء
اپنے خط ميں انھوں نے درج ذيل تين چيزوں كي طرف توجہ دلائي ہے۔
(1)پہلي جنگ آزادي 1857ء نہيں 1826ء ہے۔
(2)شاہ اسماعيل دہلوي اور سيد احمد راے بريلوي جنگ آزادي كے اولين سالاروں
ميں سے تھے۔
(3)اس سلسلے ميں اصل حقائق جاننے كے ليے راقم كو ڈبليو ڈبليوہنٹر اور
مولانا غلام رسول كي كتابوں كا مطالعہ كرنا چاہيے۔
اطہر نقوي صاحب نے پہلي جنگ آزادي1826ء كو جنگ آزادي قرار ديا ہے، جو محلِ
نظر ہے۔ ابھي جو تقريبات منائي گئي ہيں تمام حلقہ والوں نے ہي 1857ء كو ہي
پہلي جنگ آزادي قرار ديا ہے۔ جنگ آزادي كي مہم كبھي بھي چھڑي ہو ليكن اس
جنگ نے باضابطہ جنگ كي شكل اس وقت اختيار كي جب علما نے فتويٰ جہاد صادر
فرمايا اور پھر جوق در جوق علما اس مہم ميں شريك ہوئے، اور ايسا 1857ء ميں
ہوا، جس كي تفصيل اس دور ميں لكھي جانے والي كتابوں ميں ديكھي جا سكتي ہے۔
اطہر نقوي صاحب نے اپنے مكتوب ميں جو يہ دعويٰ كيا ہے كہ شاہ اسماعيل دہلوي
اور سيد احمد راے بريلوي جنگ آزادي كے اولين سالاروں ميں تھے، يہ بھي محل
نظر ہے۔كيونكہ ان كے دونوں سوانح نگار مولانا جعفر تھانيسري اور مرزا حيرت
دہلوي ان كے نہايت ہي اہم اور قريب العہد سوانح نگار ہيں۔ ان كے سوانح
نگاروں كي تحريروں كي صداقت اور حقانيت كا اعتراف مسعود عالم ندوي، حسين
احمد مدني اور دورِ آخر ميں ابو الحسن علي ندوي جيسے صاحبانِ فكر و نظر نے
كيا ہے۔ يہ دونوں مصنفين ببانگ دہل اس كا اقرار كرتے ہيں كہ سيد احمد راے
بريلوي اور شاہ اسماعيل دہلوي نے انگريزوں سے نہيں سكھوں سے جہاد كيا تھا
اور اسي ميں ان كي موت ہوئي تھي۔ يہ دونوں مصنفين شاہ اسماعيل دہلوي، جو
سيد صاحب كے ہم پيالہ و ہم نوالہ بھي تھے ، سيد احمد راے بريلوي كي اتباع
ميں انگريزوں سے كيسي محبت كرتے تھے، مولانا جعفر تھانيسري لكھتے ہيں:
٫يہ صحيح روايت ہے كہ اثناے قيام كلكتہ ميں جب ايك روز مولانا محمد اسماعيل
دہلوي وعظ فرما رہے تھے كہ ايك شخص نے مولانا سے يہ فتويٰ پوچھا كہ سركار
انگريز سے جہاد كرنا درست ہے يا نہيں، اس كے جواب ميں مولانا نے فرمايا كہ
بے رو ريا اور غير متعصب سركار پر كسي بھي طرح جہاد كرنا درست نہيں۔
(سوانح احمدي،ص:171)
مرزا حيرت دہلوي نے بھي اپني تصنيف ميں يہ بات تحرير كي ہے، وہ فرماتے ہيں:
٫كلكتہ ميں جب مولانا اسماعيل دہلوي نے جہاد كا وعظ فرمانا شروع كيا ہے اور
سكھوں كے مظالم كي كيفيت پيش كي ہے تو ايك شخص نے دريافت كيا كہ آپ
انگريزوں پر جہاد كا فتويٰ كيوں نہيں ديتے۔ آپ نے جواب ديا، ان پرجہاد كرنا
كسي طرح واجب نہيں، ايك تو ان كي رعيت ہيں، دوسرے مذہبي اركان كے ادا كرنے
ميں وہ ذرا بھي دست اندازي نہيں كرتے۔ ہميں ان كي حكومت ميں ہر طرح آزادي
ہے، بلكہ ان پر كوئي حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے كہ وہ اس سے لڑيں
اور اپني گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے ديں۔٬٬﴿حيات طيبه،ص:423﴾
سيد احمد راے بريلوي نے انگريزوں كي ايما و اشارہ سے سكھوں كے خلاف جہاد كي
تياري كي اور اس جنگ ميں انگريزوں نے اس كي مدد كي ، سكھوں سے اس جہاد كو
وہ اپنے ليے مامور من اللہ سمجھتے تھے۔ اپنے ايك مكتوب ميں سيد صاحب لكھتے
ہيں:
٫معاملہ ايں خاك سار كالشمس في رابعۃ النہارہويدا و آشكاراست كہ جہاد اہلِ
عناد قوم سكھ مامورم۔٬٬
﴿مكتوب احمدي، ص:236﴾
اس خاك سار كا معاملہ سہ پہر كے سور ج كي طرح واضح ہے كہ ميں اہلِ عناد قوم
سكھ سے جہاد كے ليے مامور ہوں۔
اس كے علاوہ سيد صاحب يہ بھي فرماتے ہيں كہ ايك مرتبہ مجھے سكھوں سے جہاد
كرنے كے ليے اللہ كي طرف سے الہام بھي ہوا ہے ، فرماتے ہيں:
٫اما بيان الہام پس از فقير از پردہ غيب بہ بشارت رباني باستيصال كفارِ
دراز موياں مراد است۔٬٬
﴿مكتوب احمدي، ص:180﴾
سيد صاحب كا الہام بتا رہا ہے كہ وہ كفارِ دراز موياں يعني سكھوں كے
استيصال كے ليے مامور تھے۔ مولانا جعفر تھانيسري لكھتے ہيں:
٫سفر جہاد سے پہلے آپ كو يہ الہامِ رباني ہوا تھا كہ ملك پنجاب آپ كے
ہاتھوں فتح ہو كر پشاور سے درياے ستلج تك مثل ملك ہندستان كے رشك افزاے چمن
ہو جائے گا۔ چناں چہ ان متواتر وعدہ ہاے فتح سے آپ كا ہر ايك مريد واقف
تھا۔٬٬ ﴿سوانح احمدي،ص:172﴾
آپ كے سوانح نگار دوسري جگہ لكھتے ہيں:
٫ان حالات كي موجودگي ميں كہ انگريز سركار كارفرما تھي مگر اس كي مسلمان
رعايا كي آزادي اور سركار انگريز كي بے رو ريائي اور ان حالات كي موجودگي
ميں ہماري شريعت كي شرائط سركار انگريز ي سے جہاد كو مانع تھيں، اس ليے آپ
نے فيصلہ فرمايا كہ سكھ قوم پنجاب پر جو نہايت ظالم اور احكاماتِ شريعت كي
حارج اور مانع تھي، جہاد كيا جائے۔٬٬
سوانح احمدي،ص:125
ان تفصيلات كي روشني ميںجناب اطہر نقوي صاحب دين و ديانت كي روشني ميں
بتائيں ، جو ان كے قريب العہد سوانح نگار لكھ رہے ہيں، اُسے مانا جائے يا
سوا سو سال بعد جو غلام رسول مہر لكھ رہے ہيں اسے تسليم كيا جائے۔ اطہر
نقوي صاحب ذرا گريبان ميں اپنا سر ڈال كر سوچيں كہ سيد صاحب كو الہام ہوتا
رہا كہ آپ سكھوں كے خلاف جہاد كريں، سوا سو سال تك لوگ يہي كہتے رہے، ليكن
ايك سو پچيس سال بعد غلام رسول مہر كو الہام ہوا كہ سيد صاحب انگريزوں كے
خلاف تھے اور ان سے جہاد كرنا چاہيے تھا ، اگرچہ انگريز حكومت كي مخالفت
ميں ان سے ايك حرف بھي منقول نہيں ۔ كہاں تك مبني بر صداقت ہے۔ كيا يہ سوچ
ايك مخصوص مكتب فكر كي ترجماني نہيں كرتي؟
گر نہ بيند بروز شپرہ چشم چشمہ آفتاب را چہ گناہ
اس حقيقت سے انكار نہيں كيا جا سكتا كہ اسماعيل شہيد جيسے لوگ سر سے كفن
باندھ كر لوگوں كو سكھوں كے عذاب سے نجات دلانے آئے تھے، اور مسلمانوں كے
ہي ہاتھوں شہيد ہو كر خالقِ حقيقي سے جا ملے اور ان مارے جانے والوں ميں ان
كے ساتھ اور بھي لوگ تھے۔ مولانا عبيد اللہ سندھي فرماتے ہيں:
٫٫1831ء ميں بالا كوٹ كے مقام پر حضرت سيد احمد شہيد اور ان كے ساتھي شہيد
كر ديے گئے اور خود آزاد قبائل ميں سے بعض لوگوں نے ہندستاني مجاہدين كو
لوٹا كھسوٹا اور قتل تك كيا۔٬٬
مقدمہ كابل ميں سات سال،ص:16
اس حقيقت كا اعتراف سر سيد نے بھي كيا ہے كہ اسماعيل دہلوي اور سيد احمد كي
شہادت مسلمانوں ہي كے ہاتھوں ہوئي۔ وہ فرماتے ہيں
ہندستان كے شمال و مغرب كي سرحد پر جو پہاڑي قوميں رہتي ہيں، وہ سني
المذاہب قوميں ہيں۔ چوں كہ پہاڑي قوميں ان (سيد احمد و اسماعيل دہلوي) كے
عقائد كے مخالف تھيں، اس ليے وہ وہابي ان پہاڑيوں كو ہر گز اس بات پر راضي
نہ كر سكے كہ وہ ان كے مسائل كو بھي وہ اچھا سمجھتے مگر البتہ چوں كہ سكھوں
كے جور و ستم سے نہايت تنگ تھے، اس سبب سے وہ وہابيوں كے اس منصوبے ميں
شريك ہو گئے كہ سكھوں پر حملہ كيا جائے ليكن چوں كہ يہ قوم مذہبي مخالفت
ميں نہايت سخت
ہے، اس سبب سے اس قوم نے اخير ميں وہابيوں سے دغا كر كے سكھوں سے اتفاق كر
ليا اور مولوي محمد اسماعيل صاحب و سيد احمد كو شہيد كر ديا۔٬٬﴿مقالات سر
سيد، نهم،ص:39 40﴾
يہ ہے وہ اصل حقيقت جس پر غلام رسول مہر نے پردہ ڈالنے كي ناكام كوشش كي ہے
اور عام سوانح نگاروں سے ہٹ كر ملتِ اسلاميہ كي تاريخ كو توڑ مروڑ كر پيش
كيا ہے اور ببانگ دہل اس بات كا اقرار كيا ہے كہ :
٫٫ميں مجاہدين كي شان و ابرو بہ ہر حال قائم ركھنے كا قائل ہوں اگرچہ وہ
سابقہ بيانات اور توجيہات سے عين مطابق نہ ہوں۔٬٬(افادات مہر،ص:231
انگريز مصنف ڈبليو ڈبليو ہنٹر كي جس كتاب كے مطالعہ كا اطہر نقوي صاحب نے
مجھے مشورہ ديا ہے، اس كتاب كے بارے ميں مرزا حيرت دہلوي لكھتے ہيں:
٫ان كي ابتداے تحرير سے يہ بات صاف مترشح ہو جاتي ہے كہ وہ جس طرح ان سے ہو
سكے گا مسلمانوں كو باغي بنانے اور گورنمنٹ كو ان كي طرف سے بد ظن كرنے كي
كوشش كريںگے۔ چناں چہ ختم كتاب تك انھوں نے ايسا ہي كيا ہے ۔ ان كي 218صفحے
كي كتاب غلطيوں كے انبار سے بھري ہوئي ہے۔ اسي طرح بے جا تحكم اور غلط منطق
كي ہر جگہ جھلكي پائي جاتي ہے۔ كاش اگر كچھ بھي انصاف ہوتا تو وہ مظلوم
مسلمانوں كو ايسا متہم نہ كرتے۔٬﴿حيات طيبه،ص:422﴾
اطہر نقوي صاحب ايسے مصنفين كي كتابوں كا مطالعہ كرنے كا مشورہ مجھے كيوں
دے رہے ہيں، بات سمجھ ميں نہيں آتي ہے۔
﴿غلام يحييٰ انجم﴾
ان تفصيلات كي روشني ميں بجا طور پر يہ كہا جا سكتا ہے كہ علماے اہلِ سنت
كے قلم كي كوتاہي سے كہيں زيادہ ديوبندي علما اور دانش وروں كے نظرياتي
تعصب كا كافي عمل دخل رہاہے۔
4- ديوبنديت كي تاريخ كچھ زيادہ پراني نہيں۔ مولانا محمد قاسم نانوتوي،
مولانا رشيد احمد گنگوہي، اس مكتبِ فكر كے موسسين ميں سے تھے۔ جو لوگ اس كا
ڈانڈا حضرت شاہ ولي محدث دہلوي سے جوڑتے ہيں وہ تاريخي اعتبار سے غلطي
پرہيں۔ اس سلسلے ميں مولانا انظر شاہ كشميري (وفات، مئي2008ء) استاذ تفسير
دار العلوم ديوبند كا بيان قولِ فيصل ہوگا۔ وہ اپنے ايك مقالہ٫٫مسلك ديوبند
كيا ہے؟٬٬ ميں لكھتے ہيں:
٫مسلكِ ديوبند چودہويں صدي كي پيداوار ہے۔ مولانا قاسم نانوتوي، مولانا
رشيد احمد گنگوہي سے پہلے كسي مسلمہ شخصيت سے اس مسلك كا كوئي تعلق نہيں۔
پھر وہ لكھتے ہيں:
٫٫ميرے نزديك ديوبنديت خالص ولي اللٰہي فكر بھي نہيں اور كسي خاص خانوادہ
كي لگي بندھي فكرِ دولت و متاع، ميرا يقين ہے كہ اكابر ديوبند جن كي ابتدا
ميرے خيال ميں سيدنا الامام مولانا قاسم صاحب رحمۃ اللہ تعاليٰ عليہ اور
فقيہ اكبر مولانا رشيد احمد گنگوہي سے ہے، علمِ كامل اورشعورِ بالغ كے ساتھ
قدرت نے ان كو ايك ايسي چھلني بھي عطا كي تھي جس سے وہ افكار و نظريات كو
چھان كر ہي قبول كر سكيں۔ مجھے اس حقيقت كے واشگاف كرنے ميںكوئي تامل و
تذبذب نہيں ہوتا كہ ہندستان كي سياسي و مذہبي پامالي كے دور ميں دين كو
اپني شكل ميں باقي ركھنے كے ليے ديوبند كا وجود قدرت كا ايك عطيہ ہے اور جن
اكابر كو فكر ونظر كي تراش و خراش كے ليے خداے تعاليٰ نے كھڑا كر ديا وہ
عظيم الشان صديوں كي الٹ پھير ميں وجود پذير ہوتے ہيں۔ اس ليے يہ ديوبنديت
كي ابتدا حضرت شاہ ولي اللہ رحمۃ اللہ عليہ سے كرنے كے بجاے مذكورہ بالا دو
عظيم ہستيوں سے كرتا ہوں۔
(البلاغ، كراچي،ص:131ذي الحجہ1388ھ)
اكابر ديوبند جن ميں مولانا رشيد احمد گنگوہي (م1905ء) اور مولانا محمد
قاسم نانوتوي(م1880ء) كا نام سر فہرست ہے۔ ان ميں اول الذكر كي ولادت 1829ء
اور موخر الذكر كي پيدائش1842ء ميں ہوئي۔ يعني 1857ء كے غدر ميں ان حضرات
كي عمريں علي الترتيب28 اور15 سال تھي، جب علماے اہلِ سنت آزادي كے حصول كے
ليے اپني جانوں كا نذرانہ دينے كے بعد اپنے جسموں كو چيل اور كوو ں كوغذا
فراہم كر رہے تھے۔ ان ايام ميں يہ ديوبندي اور وہابي علما انگريزوں كي طرف
سے ديے جانے والے اعزازات اور انعامات سے سرفراز ہو رہے تھے۔ بقول رئيس
احمد جعفري
٫مولوي نذير حسين صاحب اور مولوي عبد الرب صاحب اور مولوي حفيظ اللہ خاں
صاحب نے غدر ميں ايك دو ميموں اور بچوں كو اپنے گھر ميں چھپايا تھا۔ اس صلے
ميں انگريزوں نے ان كو انعام ديا تھا اور ان كي خير خواہي كي قدر كي۔٬٬
﴿بهادر شاه ظفر اور ان كا عهد،ص:357﴾
يہ بالكل سچ ہے كہ برطانوي عہد كے انگريز حكمرانوں نے لڑاو اور حكومت كرو
كي پاليسي پر بڑي سختي سے عمل كيا۔ اگر وہ اس پاليسي پر عمل نہ كيے ہوتے تو
شايد ان كا جنازہ بہت پہلے ہندستان سے نكل گيا ہوتا۔ مگر انھوں نے اس طرح
مسلمانوں كي ايك جماعت كو اپنا ہم نوا بنا ليا جو ان كے ہر منصوبے كو عملي
جامہ پہنا كر ملت ميں انتشار پيدا كرتي رہي ۔ مولوي اسماعيل دہلوي ان ميں
سے ايك تھے۔ انھوں نے ٫٫تقويۃ الايمان٬٬ كے نام سے ايك كتاب لكھي جو
ہندستان ميں تفريق بين المسلمين كے ليے خشت اول ثابت ہوئي۔ مسلمانوں كے
درميان شورش پيدا كرنے اور انھيں لڑانے بھڑانے اور شرك خفي كو شرك جلي
لكھنے كے خود اقراري مجرم تو خود شاہ اسماعيل دہلوي ہيں۔ انھوں نے ہي تو يہ
اقبالِ جرم كيا ہے۔(انگريز نوازي كي حقيقت،ص:59) اس تعلق سے بہت ساري
تفصيلات ہيں مگر تفصيل ميں نہ جا كر صرف دار العلوم ديوبند كي سرگرميوں كا
جائزہ پيش كرنا مناسب سمجھتا ہوں، جس كي سرگرميوں سے انگريز بہت خوش تھے۔
يہ بات اظہر من الشمس ہو چكي ہے كہ دار العلوم ديوبند كے اصل باني الحاج
عابد حسين تھے جو سلسلہ قادريہ ميں مياں راج شاہ سوندھ شريف ہريانہ كے اجلہ
خلفا ميں سے تھے اور موجودہ زمانے كے علماے اہلِ سنت و جماعت كي طرح وہ بھي
نذر و نياز اور ميلاد و فاتحہ پر سختي سے عمل پيرا تھے۔ مگر جب سے دار
العلوم ديوبند پر مولانا محمد قاسم نانوتوي اور ان كے احباب كا غاصبانہ
قبضہ ہوا اور حاجي عابد حسين ادارہ سے بالكل بے دخل كر ديے گئے ، اسي وقت
سے ہي ادارے كے مقاصد جو عظمت رسول اور اشاعت دين حق پر مبني تھے يكسر بدل
گئے۔ انگريزوں كے وظيفہ خوار مولوي اس ادارے كے اہم اراكين ميں شامل ہو
گئے۔ پھر ان حضرات نے اس ادارے كے پليٹ فارم سے وہي سب كچھ كيا جو انگريز
بہادر چاہتے تھے۔ اس ادارے نے ملت كے درميان انتشار كا جو كھيل كھيلا، وہ
انگريز بہادر كے ليے انتہائي مسرت و شادماني كا سبب بنا ۔ ديوبندي مكتب فكر
كے مشہور دانش ور پروفيسر محمد ايوب قادري كي زباني سنيے۔ وہ فرماتے ہيں:
٫اس مدرسہ نے يوماً فيوماً ترقي كي31 جنوري 1875ء بروز يك شنبہ ليفٹيننٹ
گورنر سر جان اسٹريچي كے اپنے ايك خاص معتمد مسٹر جان پامر نے اس مدرسہ كو
ديكھا تو اس نے نہايت اچھے خيالات كا اظہار كيا۔ اس كے معائينہ كي چند سطور
درج ذيل ہيں:
جو كام بڑے بڑے كالجوں ميں ہزاروں روپے كے صرف سے ہوتا ہے وہ يہاں كوڑيوں
ميں ہو رہا ہے ۔ جو كام پرنسپل ہزاروں روپے ماہانہ تنخواہ لے كر كرتا ہے وہ
يہاں ايك مولوي چاليس روپے ماہانہ پر كر رہا ہے۔٬٬﴿سوانح احسن
نانوتوي،ص:217﴾
مولانا حكيم اختر شاہجہان پوري اس مذكورہ اقتباس پر تبصرہ كرتے ہوئے فرماتے
ہيں:
٫انگريز افسر نے مدرسہ ديوبند كي اور وہاں كے مدرسين كي تعريف كيا، اس وجہ
سے كہ وہاں اسلام كي خدمت ہو رہي ہے؟ انگريز خدمتِ اسلام سے خوش ہوتے تھے
يا اس كے استحصال ميں سكون محسوس كرتے تھے۔؟٬٬﴿فيضان امام رباني،ص:178﴾
دار العلوم ديوبند پر غاصبانہ قبضہ كرنے كے بعداس كے پليٹ فارم سے ديني
خدمات كے نام پر كيا كارنامہ انجام ديا گيا، اس كي تفصيل بھي مختصراً پڑھتے
چليں تاكہ يہ واضح ہو جائے كہ انگريزي گورنمنٹ كي ملازمت سے سبك دوش پنشن
يافتہ٫٫وفادار٬٬ افراد اشاعتِ دينِ حق ميں كس قدر مخلص تھے؟
(1) 1290ھ 1874ء ميں مولوي محمد قاسم نانوتوي صاحب نے اپني كتاب ٫٫تحذير
الناس ٬٬ ميں رسالت مآب صلي اللہ عليہ وسلم كے ختم نبوت كا انكار كيا۔
(2) 1301ھ 1884ء ميں مولوي رشيد احمد گنگوہي صاحب نے ٫٫امكان كذب باري
تعاليٰ٬٬ يعني اللہ تعاليٰ كے جھوٹ بولنے پر قادر ہونے كا فتويٰ ديا۔(
فتاويٰ رشيديہ،ص:96،مطبوعہ1987ء ، ناشر گلستاں گھر، ديوبند)
(3) 1304ھ 1887ء ميں مولوي خليل احمد امبيٹھوي صاحب نے اپني كتاب٫٫براہين
قاطعہ٬٬ميں رسالت مآب صلي اللہ عليہ وسلم كے علمِ پاك كو شيطان سے كم تر
ثابت كيا، جس كي تصديق مولوي رشيد احمد گنگوہي نے بھي كي۔
(4) 1319ھ 1901ء ميں مولوي اشرف علي تھانوي صاحب نے اپني كتاب٫٫حفظ
الايمان٬٬ ميںرسول اكرم صلي اللہ عليہ وسلم كے علم پاك كو پاگل، مجنوں،
جانوروں اور چوپايوں جيسي حقير اور ذليل مخلوق سے تشبيہ دے كر رسالت مآب
صلي اللہ عليہ وسلم كے علمِ غيب كي نفي كي۔
(5) 1353ھ 1934ء ميں مولوي محمد قاسم نانوتوي صاحب نے اپني كتاب٫٫تصفيۃ
العقائد٬٬ ميں انبياے كرام كو مرتكب كذب اور معاصي زدہ ہونا ثابت كيا۔1965ئ
ميں مفتي مسعود احمد اور مفتي سيد احمد علي سعيد صاحبان نے دار الافتا
ديوبند سے مذكورہ عقيدے پر كفر كا فتويٰ ديا۔(ماہ نامہ تجلي، ديوبند، بابت
ماہ اپريل1965ء،ص:65)
الغرض انگريز بہادر كي حكومت كا انحصار ہي انھيں جيسے نام نہاد مسلمانوں كے
ذريعہ سماج ميں انتشار پيدا كروانے اور پھر اس كي آڑ ميں حكومت كرنے پر
تھا۔ اس موضوع پر اور ديگر مصنفين اور قلم كاروں نے تفصيل سے لكھا ہے، جس
كا مطالعہ كيا جا سكتا ہے۔
5- برطانوي عہد كے وفاداروں ميں كئي ايك فرقے تھے، ليكن انگريزوں كي
وفاداري ميں جن فرقوں نے اہم كردار ادا كيا ان ميں درج ذيل مكاتب فكر كے
سربراہان كا كليدي كردار رہا ہے۔
مرزا غلام احمد قادياني، يہ ہندستان كا نام ور كذاب اور دجال گزرا ہے۔ اسے
برطانوي سامراج كي درپردہ سرپرستي اور پشت پناہي حاصل تھي۔ اس نے انگريزوں
كا قرب حاصل كرنے كے ليے1857ء كے غدر كے موقع پر فريضہ جہاد ہي كو ساقط كر
ڈالا۔ عدم استطاعت اور قدرت كي بنياد پر عدم فرضيت كي بات اس نے نہيں كي
بلكہ يہ كہا اور لكھا كہ اب كبھي بھي كسي مسلمان پر جہادفرض نہ
ہوگا۔(انگريز نوازي كي حقيقت،ص:61)
مسلكِ ديوبند كے اكثر علما انگريز بہادر كے ملازم اور وظيفہ خوار تھے۔
مدرسہ ديوبند كے ذمہ داروں اور مدرسوں كي اكثريت ايسے بزرگوں پر مشتمل تھي
جو گورنمنٹ كے قديم ملازم اور حال پنشنر تھے،جن كے بارے ميں گورنمنٹ كو شك
و شبہ كرنے كي گنجائش ہي نہ تھي۔(حاشيہ سوانح قاسمي،ص:247مرتبہ مولانا
مناظر احسن گيلاني)
مولانا محمد مظہر نانوتوي مدرس آگرہ كالج، مولانا محمد منير ديوبندي، مدرس
بريلي كالج، مولانا محمد احسن نانوتوي مدرس بنارس و بريلي كالج، ديوبندي
شيخ الہند مولانا محمود حسن كے والد مولانا ذو الفقار علي ديوبندي مدرس
بريلي كالج تھے۔ مولانافضل الرحمن ديوبندي ڈپٹي انسپكٹر مدارس تھے اور پنشن
تك آپ يو پي كے مختلف اضلاع بالخصوص بجنور ميں ڈپٹي انسپكٹر محكمہ تعليم كے
عہدے پر فائز تھے۔(انگريز نوازي كي حقيقت،ص:74)
وہابي علما بھي انگريزوں كے ہم نوا تھے۔ انھوں نے علي الاعلان انگريزوں كي
حمايت كا اعلان كيا تھا اور يہ لكھا كہ برٹش حكومت مٹ جاوے اور يہ امن و
امان جو آج حاصل ہے، فساد كے پردے ميں جہاد كا نام لے كر اٹھا ديا جائے،
سخت ناداني اور بيوقوفي كي بات ہے۔
(ترجمان السنۃ، نواب صديق حسن خاں،ص:7، بھوپال1312ھ)
مولانا محمد حسين بٹالوي جو انگريز حكومت كے بہي خواہ اور وفادار تھے،
انھوں نے حكومتِ ہند كو درخواست دي كہ جماعتِ اہلِ حديث حكومتِ ہند كي مكمل
وفادار ہے اور خير خواہ ہے اس ليے لفظ وہابي كي جگہ لفظ اہل حديث لكھنے اور
سركاري كاغذات ميں اسي طرح اندراج كرنے كا حكم صادر فرمائيں۔ ان كي يہ
درخواست تحريري طور پر 19 جنوري1887ء كو منظورہوئي اور 1888ء ميں اس كے ليے
سركاري پروانہ مسٹر جے پي ہيوٹ انڈر سكريٹري گورنمنٹ آف انڈيا نے 11
جون1888ء كو شملہ سے جاري كيا۔
(محمد حسين بٹالوي، اشاعۃ السنۃ،ص:47، لاہور،ج:11,شمارہ،2)
وہابي علما كي انگريزوں كے ساتھ وفاداري كا اس سے بڑھ كر اور ثبوت كيا ہو
سكتا ہے كہ 1886ء ميں ملكہ برطانيہ كي گولڈن جبلي منائي گئي۔ اس وقت وہابي
علما نے جو انھيں سپاس نامہ پيش كيا تھا، وہ يہ تھا۔
پس واضح ہو كہ اس موقع سے جو كچھ اہلِ حديث نے كيا ہے، ان ميں چند يہ ہيں:
(1)مكہ معظمہ كي حكومت پنجاہ سالہ پر خوشي كرنا اور اس خوشي ميں مسلمانوں
كو كھانا كھلانا۔
(2)برٹش حكومت كي اطاعت و عقيدت ظاہر كرنا اور اس كو فرضِ مذہبي بتانا۔
(3)مكہ معظمہ اور اس كي سلطنت كے ليے دعاے سلامتي و حفاطت و بركت
كرنا۔٬٬ا(شاعۃ السنۃ،ص:229)
ايسے علما كي جو حكومتِ وقت كے وفادار تھے، ان كي ايك طويل فہرست ہے، جن كي
تفصيل اس دور كي لكھي جانے والي كتابوں ميں ديكھي جا سكتي ہے۔
7- اس دور كے علما كے سرخيل حضرت علامہ فضل حق خير آبادي اور حضرت شاہ عبد
العزيز محدث دہلوي نے انگريزوں كے خلاف فتويٰ جہاد صادر فرمايا۔ علماے حق
نے اس كي تائيد كي۔ اس كا ذكر متعدد مورخين اور جرائد كے مديروں نے كيا ہے۔
مولوي اسماعيل دہلوي اور سيد احمد راے بريلوي نے نہ يہ كہ صرف فتويٰ جہاد
كي مخالفت كي بلكہ انھوں نے بجاے انگريزوں كے پٹھانوں سے جہاد كيا اور اس
ميں وہ مارے گئے۔
راقم كے اس قول كي تائيد ميں متعدد كتابيں ہيں جن كے مصنفين كا تعلق خود
وہابي مكتب فكر سے ہے۔ محمد مياں ناظم جمعيۃ ٫٫علماے ہند كا شان دارماضي٬٬
ميں اس حوالے سے رقم طراز ہيں:
٫دوسري تنظيم جو اس تحريك(غدر)كے زمانے ميں موجود تھي، جس كو وہابي تحريك
كا ذمہ دار قرار ديا جاتا ہے، جس كا مركز صادق پور تھا، يہ تنظيم بہ حيثيت
تنظيم تحريك سے الگ رہي۔ بلكہ اگر مولانا عبد الرحيم صاحب مصنف٫٫الدر
المنثور٬٬ كا قول صحيح تسليم كر ليا جائے تو يہ تنظيم 1857ء كے تحريك كي
مخالف رہي۔٬٬
(علماے ہند كا شان دار ماضي، ج:4،ص:213)
سيد احمد راے بريلوي اور مولوي اسماعيل دہلوي كے موقف كے بارے ميں سر سيد
احمد خاں كا قول لكھنا كافي ہوگا، جو انھوں نے ان دونوں حضرات كے بارے ميں
لكھے ہيں۔ وہ فرماتے ہيں:
٫٫سيد احمد راے بريلوي اور اسماعيل دہلوي كي تحريك كا انگريزي حكومت كي
مخالفت سے دور كا بھي واسطہ نہيں تھا، بلكہ يہ لوگ انگريزكے ايما پر سكھوں
سے لڑنے كے ليے نكلے تھے۔٬٬
﴿مقالات سر سيد، حصه نهم،ص:125 تا 297﴾
مضمون كے آخر ميں مقالات سر سيد كے مرتب نے حاشيے ميں لكھا ہے كہ:
٫سر سيد نے اس مضمون ميں يہ بات بار بار لكھي ہے كہ حضرت سيد احمد بريلوي
شاہ اسماعيل شہيد انگريزي حكومت كے ہر گز ہرگز مخالف نہيں تھے اور نہ ہي
انھوں نے كبھي ان كے خلاف جہاد كا اعلان كيا۔ سر سيد كے اس بيان كي تائيد
متعدد مورخين نے بھي كي ہے۔ چناں چہ نواب صديق حسن خاں نے ترجمانِ وہابيہ
مطبوعہ امرت سر كے ،ص:21 اور88 پر سوانح احمدي مولفہ مولوي محمد جعفر
تھانيسري ميں بيس مقامات پر اسي طرح حضرات شاہ اسماعيل شہيد كي سوانح موسوم
بہ حيات طيبہ كے صفحات159, 293,294 پر بھي اسي خيال كو پيش كيا ہے۔٬٬
:: مقالاتِ سر سيد،حصه نهم،ص: 207 |