عافیہ کی سسکتی آہیں اور نو محرم کی رات

یہ 9 محرم کی رات تھی۔ میں ایک میٹنگ میں تھا ۔ یہ میٹنگ 10 محرم کے حوالے سے تھی ۔ میٹنگ میں بھی مجموعی ماحول وہی تھا جو امام عالی مقام سے عقیدت اور محبت کا تقاضہ ہے۔بہت سی باتوں کا خیال بھی رکھنا تھا اور یہ ڈر بھی تھا کہ عقیدت کا معاملہ ہے کہیں انجانے میں کوئی گستاخی نہ ہو جائے ۔ جب میں کامیاب میٹنگ کے اختتام پر میٹنگ روم سے باہر نکلا تو امریکا میں قید عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا فون آگیا ۔ ان کے لہجہ میں غم ِ غصہ اور تلخی کا عنصر نمایاں تھااور کسی قدر بے بسی کی جھلک بھی نظر آ رہی تھی ۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کہنے لگیں : ”بھائی ! یہ لوگ پھر 24 جوانوں کے خون کا سودا ایک معافی اور” یو۔ ایس۔ ایڈ “ کے لیے کر رہے ہیں ۔ یہ پاکستان کی تذلیل ہے !!!کیا قومی غیرت ختم ہو چکی ہے؟؟؟ کیا آپ کی کوئی بہن یا بیٹی نہیں ہے؟ اس وقت یہ بہت آسان تھا کہ عافیہ کو واپس لایا جا سکتا اور عوامی ہیرو بنا جاتا ۔ اسے آپ سب کی سپورٹ کی ضرورت تھی لیکن سب خاموش ہیں ۔۔۔ عافیہ کی سسکتی آہیں اور نو محرم کی رات ۔۔۔“ الفاظ ختم ہو چکے تھے یا پھر سینے میں اٹک گئے تھے ۔۔۔ میں نے موبائل آف کر دیا -

میرے ذہن میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے الفاظ گونج رہے تھے ”عافیہ کی سسکتی آہیں اور نو محرم کی رات ۔۔۔“ اگر دیکھا جائے تو بات کچھ بھی نہیں تھی لیکن اگر محسوس کیا جائے تو بہت گہری بات تھی ۔ دکھ ، درد اور جدائی کے ساتھ ساتھ بے بسی کا احساس نمایاں تھا ۔اور پھر یہ بات کہنے کے لیے جس وقت کا انتخاب کیا گیا ذرا اس پر غور کریں ۔ وہ وقت اور اس سے جڑی تاریخ کیا ہے؟ ڈاکٹر فوزیہ نے نو محرم کی رات کا حوالہ دے کر عافیہ کی سسکتی آہوں کا ذکر شاید اسی لیے کیا کہ ان کا خیال ہو گا اس حوالے کے بعد شاید ”عافیہ موومنٹ“ میں کوئی تیزی آئے یا قوم جاگ اٹھے ۔ مجھے یاد آیا کہ محرم کے آغاز میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے مجھے جامعہ ام القراءمکہ مکرمہ کے فقہہ اور علماءکرام کا فتویٰ بھیجا تھا جس میں لکھا تھا کہ اگر کوئی مسلمان خاتون غیر مسلموں کی ظالمانہ قید میں ہو تو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس کی رہائی کے لیے ہر ممکن جانی اور مالی کوشش کرے یہاں تک کہ ایک درہم بھی باقی نہ رہے ۔۔“ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا تھا کہ ہے کوئی جو عافیہ کی رہائی کے لیے اس کی بہن کا بے لوث ساتھ دے اور اپنا دینی فریضہ بھی پورا کرے ؟ میرے پاس اس دن بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن کے سوالوں کا جواب نہیں تھا اور آج بھی ”عافیہ کی سسکتی آہیں اور نو محرم کی رات ۔۔ “ والے ادھورے لیکن بہت کچھ کہتے جملے کا جواب نہیں ہے ، بالکل اسی طرح جیسے میرے پاس اس بات کا بھی کوئی جواب نہیں کہ کوفہ کے ”مسلمانوں “ نے اس ننھے بچے کو کیوں شہید کر دیا تھا جسے یہ شعور تک نہ تھا کہ حلق میں تیر کھانے کے بعد ہنسنا چاہیے یا رونا؟؟؟؟
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 54551 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.