اندھیرے کا تصور ہی عجیب سا اور
خطرناک سا ہے اندھیرا ویسے تو ہیبت ناک سا نظر آتا ہے یہ راتیں بھی عجیب
ہوتی ہیں اور راتوں کی ساعتیں بھی منفرد ہوتی ہیں رات کا چھایا گہرے
اندھیرے سے کچھ لوگوں کو تو وحشت سی ہوتی ہے لیکن رات کی تاریکی میں جب
دنیا محو خواب ہوتی ہے ایک سناٹا سا چھایا ہوتا ہے تو اس گہرے سکوت میں کسی
دل والے کو کسی کی یاد ستاتی ہے روشن چاند پر جب نظر پڑتی ہے اور چمکتے
تارے جب نظر آتے ہیں تو کچھ لوگ اس وقت محبوب کے فراق میں چند الفاظ کہتے
ہیں تو وہ شاعری بن جاتا ہے ،کچھ لوگ گہری رات میں خاموشی کے عالم میں اللہ
تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے ہیں ،گریہ و زاری کرتے ہیں اور اپنی غلطیوں ،کوتاہیوں
اور گناہوں کی بخشش کروالیتے ہیں ،کچھ لوگ اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے
راہزنی ،لوٹ مار اور ڈکیتی سے لوگوں کو ایذا پہنچا کر دنیا کے چکر میں اپنی
عاقبت برباد کر دیتے ہیں ،کچھ لوگوں کو شب کی تیرگی میں ٹھوکریں بھی لگتی
ہیں کچھ لوگ اندھیرے میں دوسروں کے لئے دئیے بھی جلاتے ہیں اور ظلمتوں کو
مٹانے کی کوشش کرتے ہیں کچھ لوگ خوفناک اندھیرے میں حوا کی بیٹی کے پاﺅں
میں گھنگرو ڈال کر رقص کرواتے ہیں اور شراب کے جام سے بدمست ہوجاتے ہیں اور
دنیا کی رنگینیوں میں کھو جاتے ہیں(یہ طبقہ اسے انجوائے منٹ کہتا ہے)۔
کیسے دور جہالت میں جی رہے ہیں ہم یہاں
آدم کا بیٹا خوش ہوتا ہے حواکی بیٹی کو بے نقاب دیکھ کر
کچھ لوگ رات کی تاریکی میں چھپ چھپ کر غرباءکی امداد کرتے ہیں اور اپنی
عاقبت سنوارتے نظر آتے ہیں (لیکن ایسے اس زمانے میں خال خال ہی ملتے
ہیں)کچھ لوگ اندھیری رات میں بوڑھے والدین کی خدمت کر کے اللہ کے ہاں سرخرو
ٹھہرائے جاتے ہیں،کچھ لوگ اس دنیا میں ایسے بھی ہیں بوڑھے والدین کی بیماری
کو نظر انداز کر کے بیوی کی آغوش میں جا کر مزے سے سوجاتے ہیں کچھ ایسے بھی
لوگ ہیں جو رات کے اندھیرے میں اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر دشمنوں پر نظر
رکھے ہوتے ہیں،کچھ لوگ شب کی تیرگی میں اپنے رب کو بھول کر دنیاوی آسائشوں
میں آرام کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ہیں لیکن انہیں آرام نہیں ملتا کیونکہ
دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہوتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے ”اللہ
کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے “کچھ لوگ اسی رات کے اندھیرے میں
اور گہری خاموشی میں دنیا والوں سے چھپ کے زنا کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے
ہیں کہ دنیا والوں سے تو چھپ گئے لیکن ایک ذات ہے جو دیکھتی ہے اور باخبر
ہے یہاں ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنے
قافلے کے ساتھ جنگل سے گزر رہے تھے تو ان کے پاس کھانے کا سامان ختم ہوگیا
تو پاس ہی ایک چرواہا بھیڑیں چرا رہا تھا انہوں نے اسے کہا کہ ہمیں ایک
بھیڑ خریدنی ہے اس پر چرواہے نے کہا کہ یہ بھیڑیں میری نہیں ہیں میرے مالک
کی ہیں حضرت عبداللہ ابن عمرؓ نے اسے آزمانے کے لئے کہا آپ کا مالک دیکھ تو
نہیں رہا ہے تم کہہ دینا کہ ایک بھیڑ کوبھیڑیا کھا گیا ہے اس پر چرواہے نے
جواب دیا ”فَاینَ اللہ“(پھر اللہ کہاں چلے جائیں گے)عبداللہ بن عمرؓ بہت
خوش ہوئے اور مدینہ پہنچ کر بھی مزے مزے سے یہ کہتے تھے کہ ایک چرواہا کہتا
ہے ”اَینَ اللہ ،این اللہ“(اللہ کہاں چلے جائیں گے ،اللہ کہاں چلے جائیں گے)۔
اچھا تو بات ہورہی تھی رات کی تاریکی اور اندھیرے کی،کچھ لوگ پاکستان میں
رات کی تاریکی میں سیاسی وفاداریاں اپنے مفاد کی خاطر تبدیل کر لیتے ہیں
اور کچھ سیاستدان شب کے اندھیرے میں جرنیلوں سے ملاقات کرتے ہیں، اندھیرا
اور یہ راتیں بھی عجیب ہوتی ہیں اور شب کی ساعتیں بھی منفرد ہوتی ہیں۔۔۔ |